امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جامع الشرائط مجتہدکو زکوٰۃ دینا اور مستحقین کی شرائط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

فقیہ (مجتہد) جامع الشرائط کو زکوٰۃ دینے کے احکام
مسئلہ 2607: غیبت امام زمانہ علیہ السلام کے زمانے میں فقیہ جامع الشرائط کو زکوٰۃ دینا واجب نہیں ہے گرچہ یہ کام احتیاط مستحب کے مطابق ہے البتہ پہلے ذکر کیا گیا کہ مصرف زکوٰۃ کے تیسرے اور چوتھے مقام میں فتوے کی بنا پر اور ساتویں مقام میں احتیاط واجب کی بنا پر زکوٰۃ فقیہ جامع الشرائط کو دے یا اس کو مصرف کرنے کے لیے فقیہ جامع الشرائط سے اجازت لے۔

ان افراد کے شرائط جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں


مسئلہ 2608: زکوٰۃ کے مستحق افراد کے لیے گذشتہ شرائط کے علاوہ جو بیان کئے گئے بعض اور بھی شرطیں ہیں جو آئندہ مسائل میں بیان کی جائیں گی۔

 

مسئلہ 2609: اگر انسان کسی کو شیعہ سمجھتے ہوئے زکوٰۃ دے اور بعد میں معلوم ہو کہ شیعہ نہیں تھا تو لازم ہے کہ دوبارہ زکوٰۃ دے گرچہ اس نے تحقیق کی ہو یا شرعیحجت ( جیسے بینہ) پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کیا ہو تو احتیاط کی بنا پر پھر بھی دوبارہ زکوٰۃ ادا کرے۔

مسئلہ 2610: اگر غریب شیعہ نابالغ بچہ یا دیوانہ ہو تو انسان اس کے شرعی ولی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے اس قصد سے کہ جو دے رہا ہے بچے یا دیوانے کی ملکیت قرار پائے اور پھر خود یا کوئی امانت دار شخص زکوٰۃ کو بچے یا دیوانے کےلیے خرچ کرے لیکن یہ کام اس شخص کے حق حضانت(سرپرستی) یا شخص کی ولایت کے جو بچے کا شرعی ولی ہے خلا ف نہ ہو، اور لازم ہے کہ جب زکوٰۃ کو ان کے لیے خرچ کر رہا ہو تو زکوٰۃ کی نیت کرے۔


دوسری ، تیسری اور چوتھی شرط:

احتیاط واجب كی بنا پرزکوٰۃ لینے والا زکوٰۃ کو حرام کام میں خرچ نہ کرے، اور احتیاط واجب کی بنا پر شرابی، بے نمازی اور کھلے عام گناہ کرنے والا نہ ہو

مسئلہ 2611: زکوٰۃ کے مستحق افراد سے مربوط دوسری ، تیسری اور چوتھی شرط کے احکام خمس کی طرح ہیں کہ ان کی تفصیل خمس کے مصرف میں بیان کی گئی۔

 

پانچویں شرط: زکوٰۃ لینے والا ان افراد میں سے نہ ہو جس کا نفقہ (خرچ) زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہے

مسئلہ 2612: انسان ان افراد کے نفقہ (خرچ) کو زکوٰۃ سے نہیں دے سکتا[308]جن کا خرچ خود اس پر واجب ہے جیسے اولاد ، باپ، ماں یا دائمی زوجہ البتہ یہ حکم اس مقام میں ہے جہاں پر زکوٰۃ غریب ہونے کے عنوان سے دی جائے لیکن اگر اور کسی عنوان سے دے تو حرج نہیں ہے، مثلاً وہ شخص مقروض یا ابن سبیل ہے اور اس جہت سے زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے البتہ اگر انسان ایسے واجب النفقہ افراد کے اخراجات کو پورا کرنے سے عاجز ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو تو زکوٰۃ سے ان کے اخراجات دے سکتا ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس کام کو ترک کرے۔

مسئلہ 2613: اگر دوسروں کے اخراجات انفاق کئے جانے والے فرد پر واجب ہو لیکن انفاق کرنے والےفرد پر واجب نہ ہو اور انفاق کیا جانے والا شخص ان کے اخراجات کو پورا نہ کر سکتا ہو مثلاً کسی کا بیٹا فقیر ہو اور اپنی دائمی زوجہ کا خرچ نہ دے سکتا ہو۔ تو انسان کے لیے جائز ہے کہ اپنی زکوٰۃ اسے دے تاکہ وہ اپنی زوجہ پر خرچ کرے۔[309]

مسئلہ 2614: وہ دائمی بیوی جو غریب ہے اور اس کا شوہر اس کا نفقہ دیتا ہو اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے بلکہ اگر اس کا شوہر اپنی بیوی کا خرچ دے سکتا ہو لیکن نہ دے رہا ہو چنانچہ اسے غیر قابلِ تحمل سختی کے بغیر خرچ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہو(گرچہ حکومت کی مدد لینے کے ذریعے) تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی لیکن اگر شوہر اس کا خرچ نہیں دے سکتا یا رکھتا ہو لیکن نہیں دے رہا ہو اور اسے خرچ دینے پر مجبور کرنا بھی غیر قابلِ تحمل سختی کے بغیر ممکن نہ ہو تو اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح وہ غریب شخص جس کا خرچ دوسرے شخص پر واجب ہے اور مذکورہ شخص اس غریب کے خرچ دینے کی توانائی رکھتا ہے اورا س سے مطالبہ کرنے کی صورت میں دینے سے انکار نہیں کرے گا اور اس کے اوپر کوئی احسان کے بغیر جو عرفاً قابلِ تحمّل نہ ہو خرچ دینے کو تیار ہو تو اس صورت میں احتیاط واجب ہے کہ مذکورہ غریب کو زکوٰۃ نہ دیں لیکن اگر وہ شخص خرچ دینے سے ناتوان اور عاجز ہے یا بالكل خرچ دینے کے لیے حاضر نہ ہو یا احسان جتانے کے ساتھ خرچ دے رہا ہو جو عرفاً قابلِ تحمل نہیں ہے توایسے مقامات میں مذکورہ غریب شخص کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

مسئلہ 2615: جس عورت نے متعہ کیا ہے اگر غریب ہو تو اس کا شوہر اور دوسرے افراد اُسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر عقد کے ضمن میں اپنے شوہر سے شرط کرے کہ اس کا خرچ دے یا کسی اورجہت سے شوہر پر اس کا خرچ دینا واجب ہو اور وہ اس کا خرچ دے رہا ہو تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔

مسئلہ 2616: بیوی اپنے شوہر کو جو شرعاً غریب ہو اور استحقاق زکوٰۃ کے باقی شرائط بھی رکھتا ہو ۔ زکوٰۃ دے سکتی ہے گرچہ شوہر زکوٰۃ کو خود اس عورت کے اخراجات میں خرچ کرے۔

مسئلہ 2617: اگر انسان اپنے فرزند کو زکوٰۃ دے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کرے تو اگر فرزند استحقاق زکوٰۃ کے شرائط کو رکھتا ہو تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 2618: باپ اپنے بیٹے کو جو شادی کرنے كا ضرورت مند ہے اور زکوٰۃ کا مستحق ہے مثلاً غریب ہو اپنی زکوٰۃ دے سکتا ہے تاکہ شادی کرے اور بیٹے کا باپ كی نسبت سے بھی یہی حکم ہے۔


چھٹی شرط: اگر زکوٰۃ دینے والا عام اور غیر سید ہو تو زکوٰۃ لینے والا

ہاشمی اور سید نہ ہو

مسئلہ 2619: غیر سید کی زکوٰۃ سید پر حرام ہے اس لیے غیر سید، سید سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا مگر اضطراری حالت میں اور احتیاط واجب کی بنا پر اضطرار اس حد تک ہو کہ خمس اور دوسرے رقوم شرعی سے اپنے اخراجات کو مہیّا نہ کر سکتا ہو اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر امکان کی صورت میں ہر روز اس دن کے ضروری اخراجات کے لینے پر اکتفا کرے، لیکن سید اپنی زکوٰۃ سید اور غیر سید دونوں کو دے سکتا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ غیر سید کی زکوٰۃ سید پر حرام ہونا واجب زکوٰۃ سے مخصوص ہے اور مستحب زکوٰۃ کو شامل نہیں ہے، اس بنا پر جس مال کی زکوٰۃ دینا مستحب ہے غیر سید مستحب زکوٰۃ سید کو دے سکتا ہے۔

مسئلہ 2620: سید ثابت ہونے کے طریقے مسئلہ نمبر 2444 اور 2445 میں بیان کئے گئے جس شخص کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ سید ہے یا نہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر وہ شخص خود سید ہونے کا دعویٰ کرے تو غیرسید اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور اس صورت میں ایسے شخص کو زکوٰۃ دینے سے وہ زکوٰۃ سے بری الذمہ نہیں ہوگا۔
[308] اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر اپنی زكوٰۃ ایسے شخص کو جس کا نفقہ اس پر واجب ہے اس لیے نہیں دے سکتا کہ وہ اسے غیر واجب اخراجات میں وسعت کے لیے خرچ کرے جب کہ انسان توانائی رکھتا ہو اپنے مال سے دے۔

[309] البتہ یہ اس صورت میں ہے جب مذکورہ زوجہ کسی دوسرے شخص کی واجب النفقہ نہ ہو جیسے زوجہ کا باپ ورنہ اگر زوجہ کا باپ اس کے نفقہ کو دینے کے لیے آمادہ ہو تو انسان اپنی زكوٰۃ اپنے بیٹے کو نہیں دے سکتا تاکہ وہ اپنی زوجہ کے نفقہ کے لیے خرچ کرے۔

 

زکوٰۃ کی نیت اور اس سے مربوط احکام


مسئلہ 2621: لازم ہے کہ زکوٰۃ قصد قربت کی نیت سےیعنی خداوند متعال کی بارگاہ میں تذلل (عاجزی) اور اظہار بندگی کرتے ہوئے خلوص کے ساتھ ادا کرے اور اگر بغیر قصد قربت یا بغیر خلوص کے ادا کرے تو کفایت کرتا ہے گرچہ گناہ کیا ہے۔

مسئلہ 2622: اگر انسان کے ذمے میں زکوٰۃ مال اور زکوٰۃ فطرہ دونوں ہوں تو لازم ہے کہ نیت میں معین کرے کہ جو دے رہا ہے زکوٰۃ مال ہے یا زکوٰۃ فطرہ بلکہ اگر جو اور گندم دونوں کی زکوٰۃ اس پر واجب ہو اور زکوٰۃ کی قیمت ادا کرنا چاہتا ہو تو لازم ہے کہ گرچہ اجمالاً معین کرے کہ گندم کی زکوٰۃ ہے یا جو کی زکوٰۃ ، لیکن اگر صرف ایک زکوٰۃ اس پر واجب ہو تو نیت میں گندم کی زکوٰۃ کا قصد کرنا لازم نہیں ہے بلکہ اس واجب زکوٰۃ کی نیت سے جو اس کے ذمے میں ہے ادا کرے تو کافی ہے۔

مسئلہ 2623: جس شخص پر چند مال کی زکوٰۃ واجب ہے اگر کچھ مقدار زکوٰۃ دے اور ان میں سے کسی کی نیت نہ کرے چنانچہ جو چیز اس نے دی ہے صرف ان میں سے ایک کی زکوٰۃ ہو سکتی ہے تو اسی مال کی زکوٰۃ شمار ہو گی مثلاً جس شخص پر چالیس بھیڑ اور پندرہ مثقال سونے کی زکوٰۃ واجب ہے اگرایک بھیڑ زکوٰۃ کے عنوان سے دی اور ان میں سے کسی ایک کی بھی نیت نہ کرے تو وہ بھیڑ کی زکوٰۃ شمار ہوگی۔

لیکن وہ چیز جو زکوٰۃ کے عنوان سے دی ہے دو یا چند مال کی زکوٰۃ ہو سکتی ہو مثلاً گذشتہ مثال میں نقد پیسہ زکوٰۃ کے عنوان سے دے جو ان میں سے کسی کے بھی ہم جنس نہیں ہے اور ان میں سے ہر ایک کی زکوٰۃ شمار ہو سکتا ہے بعض مجتہدین کا قول ہے جو زکوٰۃ ادا کی ہے ان چیزوں کے درمیان ہر ایك كی نسبت سے تقسیم ہو جائے گی لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتمال ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی زکوٰۃ شمار نہ ہو اور مالک کی ملکیت میں باقی رہے اس لیے اس مقام میں احتیاط کے تقاضے کو ترک نہ کیا جائے۔

مسئلہ 2624: اگر انسان کسی کو وکیل کرے کہ اس کے مال کی زکوٰۃ دے جس وقت اس وکیل کو زکوٰۃ دے رہا ہے لازم ہے کہ نیت کرے اور احتیاط مستحب ہے کہ اس کی نیت غریب شخص کو زکوٰۃ پہونچنے تک برقرار رہتی ہو۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک