امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جنت البقیع

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

جنت البقیع یا بقیع الغَرقَد

مدینے کا پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے جہاں شیعوں کے چار ائمہؑ اور پیغمبر اکرمؐ کے بعض رشتہ دار مدفون ہیں۔ اسلام سے پہلے یہ جگہ حجاز کے شہر یثرب کے اطراف میں ایک باغ پر مشتمل زمین تھی۔ پہلی صدی ہجری سے مسلمانوں نے یہاں اپنے اموات کو دفنانا شروع کیا اور اسلام کی اہم اور بزرگ شخصیات یہاں مدفون ہیں۔ مختلف ادوار میں بقیع حکمرانوں کا مرکز توجہ رہی اور بعض قبور پر گنبد اور مقبرے تعمیر کئے گئے۔ لیکن حجاز پر وہابیوں کے قبضے کے بعد 8 شوال سنہ 1344ھ کو تمام مقبروں کو مسمار کر دیا گیا جسے انہدام بقیع کہا جاتا ہے اور اس دن کو یوم انہدام بقیع کے نام سے منایا جاتا ہے۔
اس وقت بقیع مسجد نبوی کے نزدیک ایک ہموار زمین کی شکل میں موجود ہے جہاں قبور کی نشاندہی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتی۔
نام اور حدود اربعہ
بقیع کا لفظ ایسی وسیع زمین کیلئے استعمال ہوتا ہے جس میں گھاس کے مختلف پودے اگتے ہوں؛[1]بقیع الزبیر، بقیع الخیل و بقیع الخَبْجَبَۃ یثرب کے انہی باغات میں سے تھے۔[2] چنانچہ "بقیع الغرقد" اس زمین کو کہا جاتا تھا جو غرقد کے درخت کے پودے[3] [نوٹ 1] اور دوسری جڑی بوٹیوں سے ڈھکا ہو۔ ظہور اسلام کے بعد یہ باغ بطور قبرستان استعمال ہونے لگا۔
مسلمانوں کا قدیمی ترین قبرستان مسجد نبوی کے قریب اور شہر کے اطراف میں تھا[4] اور سنہ 1269 میں بنایا گیا مدینہ کا نقشہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔[5] لیکن آج کل مسجد نبوی اور قبرستان بقیع دونوں میں توسیع کی وجہ سے آپس میں متصل ہوچکے ہیں اور مدینہ شہر کے درمیان میں قرار پائے ہیں۔

قبرستان بقیع کے چاروں طرف دیوار کھڑی کی گئی ہے اور اس کا مغربی حصہ جہاں قبرستان کا مین گیٹ بھی ہے، حرم نبوی سے متصل ہے جس کے جنوب میں ابوایوب انصاری روڑ اور مشرقی جانب ملک فیصل روڑ اور شمالی طرف میں عبدالعزیز روڑ ہے۔[6] پہلے ان سڑکوں کے کوئی اور نام تھے۔
مدفون شخصیات
بقیع مسلمانوں کی اہم قبرستان ہے جس میں اسلام کے ابتدائی دنوں سے اب تک ہزاروں مسلمان دفن ہوچکے ہیں۔ بقیع میں دفن ہونے والی شخصیات میں سے مندرجہ ذیل شخصیات قابل ذکر ہیں:

اہل بیتِ پیغمبرؑ اور ائمۂ شیعہ میں سے چار امام يعنی امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ
پیغمبر اکرمؐ کے بعض رشتہ دار؛ چچا، پھوپھیاں، ازواج اور اولاد؛
پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب؛ انصار، مہاجر اور تابعین
علما، شہدا، سیاسی اور سماجی شخصیات، اور خواتین۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں بعض شخصیات کی قبور پر زیارتگاہ بنائے گئے تھے۔ اور بعض لوگ بقیع کے گھروں میں دفن ہوئے تھے۔ ائمہ بقیع کا مزار بھی انہیں میں سے تھا جسے بعد میں وہابیوں نے مسمار کردیا۔ ائمۂ بقیع اور پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، عقیل کے گھر میں دفن ہوئے تھے۔[8]

اکثر تاریخی منابع کے بر خلاف، بعض اہل سنت مورخوں نے آنحضرتؐ کی بیٹی حضرت زہراؑ[9]، آپؐ کے داماد امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب،[10] اور آپ کے نواسے امام حسینؑ کا سر مبارک[11]بقیع میں دفن ہونے کے بارے میں کہا ہے۔ ایک متن حضرت زہراؑ کا مزار بقیع میں ہونے کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔[12] [نوٹ 2]البتہ بعض تحریریں کچھ لوگوں کا آپس میں ہمنام ہونے کی وجہ سے لکھی گئی ہیں جیسا کہ ائمۂ بقیع کے مقبرے میں موجود قبر فاطمہ بنت اسد کی ہے کیونکہ امام حسنؑ نے وصیت کی تھی کہ اگر نانا رسول اللہ کے پہلو میں دفن کرنے سے منع کیا جائے تو دادی فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفنایا جائے۔[13]

فضیلت اور زیارت
اس قبرستان کی فضیلت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت دونوں طرف سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں یہاں تک کہ بعض کتابوں میں تو اسی کے لیے علیحدہ بھی باب مختص کیا گیا ہے۔[14]ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو بقیع میں مدفون افراد کے لئے طلب مغفرت کا حکم ہوا ہے۔[15] چنانچہ آنحضرتؐ ہر شب جمعہ بقیع جاکر وہاں مدفون افراد کے لیے دعا کرتے تھے۔[16] آپؐ سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ کل قیامت کے دن ستر ہزار لوگ نیک صفات کے ساتھ بقیع سے محشور ہونگے[17]اور جو لوگ بقیع میں دفن ہوئے ہیں ان کو آپ شفاعت کی بشارت دینگے۔[18] بعض احادیث میں آنحضرتؐ کا بقیع حاضر ہونے[19] اور آپ کی طرف سے بعض نمازیں جیسے نماز استسقاء[20] اور نماز عید[21]کا بقیع میں ادا کی جانے کی حکایت ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ اپنی عمر کے آخری سال اصحاب کے ایک گروہ کے ہمراہ بقیع تشریف لے گئے اور وہاں مدفون مُردوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی رحلت کی خبر دی۔[22]

بقیع پر پیغمبر اکرمؐ کے خاندان کی خاص توجہ تھی اور وہ لوگ وہاں زیارت کو جاتے تھے۔[23] امام صادق(ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپؐ عقیل کے گھر کی جگہ پر کھڑے ہوکر بقیع میں مدفون مرحومین کے لیے دعا کرتے تھے۔[24]بہت سارے شیعہ[25] اور سنی[26] علماء نے بقیع کی زیارت کے بارے میں استحباب کا فتوا دیا ہے۔

تاریخ کے آئینے میں
اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے بقیع نامی کسی قبرستان کے بارے میں کوئی سند یا روایت موجود نہیں ہے۔ اس بارے میں سب سے قدیمی ادبی اثر، عمرو بن النعمان البیاضی کا شعر ہے[27] جو قبیلہ خزرج اور انصار میں سے تھا[28]، جس میں مدینہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع عقیق نامی باغ[29] اور بقیع الغرقد کے درمیان اپنے دوستوں کے قتل کے بارے میں لکھا ہے۔[نوٹ 3] ابن اثیر نے بھی «یوم البقیع»‌ کے لفظ کے ذیل میں اس مقام پر اوس اور خزرج کی لڑائی اور اوس والوں کی کامیابی کا تذکرہ کیا ہے۔[30]مدینہ کے یہودی اپنے مردوں کو بقیع کے جنوب مشرق میں حش کوکب نامی باغ میں دفناتے تھے۔[31]بقیع میں بھیڑ بکریاں اور اونٹ بھی چرائے جاتے تھے۔[32]

صدر اسلام اور خلفاء کا دور
پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت اور حکومت اسلامی کی بنیاد رکھنے کے بعد مسلمانوں کے لیے ایک قبرستان کی ضرورت تھی اور یہ جگہ پیغمبر اکرمؐ نے معین کیا[33]خاص کر جب آنحضرت نے مشرکوں کے قبرستان کو ختم کر کے مسجد نبوی بنائی۔[34]مہاجرین میں سب سے پہلا صحابی، جو اس قبرستان میں مدفون ہوئے عثمان بن مظعون[35] اور انصار میں سے اسعد بن زرارہ خزرجی [36]دفن ہوئے۔ البتہ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باغ میں صرف مردے دفن نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض مہاجرین نے وہاں پر گھر بنایا تھا بعد میں وہ جگہ بعض شخصیات یا خاندان کے لوگ دفن کرنے سے مختص ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمین کو پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں کو گھر بنانے کےلیے تقسیم کیا تھا۔[37]اس دور کے مشہور گھروں میں سے ایک عقیل بن ابی‌ طالب کا گھر تھا۔[38]وہاں کچھ چھوٹے مکان بھی بنائے گئے تھے جہاں پر مردوں کو دفن کیا جاتا تھا اسی طرح ہر قبیلے نے اپنی مردوں کو دفن کرنے کے لیے بقیع میں ایک مکان بنا رکھا تھا۔[39].

بیت الاحزان بھی بقیع میں بننے والے گھروں میں سے ایک تھا جسے امیرالمؤمنین نے بنت رسول کو عزاداری کرنے کے لیے بنایا تھا۔[40] «الروحاء» بھی بقیع کے درمیان ایک مشہور مقبرے کا نام تھا۔[41]

کہا گیا ہے کہ امیرالمؤمنینؑ نے عقیل کے گھر کے ساتھ میں مردوں سے ہمجواری کے لیے ایک مکان بنایا اور اس کی وجہ مردوں کا جھوٹ نہ بولنا قرار دیا ہے۔[42]

ایک جگہ ایسی بھی تھی جہاں جنازوں کو دفن کرنے سے پہلے رکھے جاتے تھے جسے «موضع الجنائز» کہا جاتا تھا۔[43]شاید یہ جگہ لوگ جمع ہونے کے لیے، یا غسل میت اور کفن دینے اور نماز میت پڑھنے کے لیے تھا۔[44]

بنی امیہ کا دور (41 تا 132 ھ)
امویوں کے دور میں بھی بقیع کی زمین اور باغ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا اور مدینہ کی توسیع میں بعض لوگوں نے وہاں مکان بنایے۔ اور ساتھ ہی مردوں کو بھی دفن کیا جاتا رہا۔ محمد حنفیہ نے عبدالملک بن مروان کے دور میں بقیع میں ایک گھر بنایا[45]اور خود بھی بقیع میں دفن ہوئے ہیں۔[46]ابن افلح [47]، محمد بن زید [48]، سعید بن عثمان[49]اور دیگر دسیوں گھر بھی بقیع میں بنایے گئے اور خرید و فروخت اور مکانات تعمیر ہوئے۔

تیسرے خلیفے کو بقیع میں دفنانے سے روکا گیا تو انہیں یہودیوں کے قبرستان، حش کوکب میں دفنایا گیا[50]مدینہ کے والی مروان بن حکم کے دور میں حش کوکب اور بقیع کے درمیان دیوار ہٹائی گئی اور پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھ سے عثمان بن مظعون کی قبر پر نصب شدہ تختی کو وہاں سے عثمان ابن عفان کی قبر پر منتقل کیا![51]

امام سجاد علیہ السلام کا گھر بھی بقیع میں واقع تھا[52]شاید وہی عقیل یا امام علی کا گھر تھا جس کی مرمت ہوئی تھی۔[53]

بنی عباس کا دَور (131 تا 656 ھ)
پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کا عقیل کے گھر دفن ہونے،[54][نوٹ 4]اور اسی طرح امام حسنؑ،[55] امام سجادؑ اور امام باقرؑ بھی وہاں پر دفن ہونے کی وجہ سے[56] بنی عباس نے بنی امیہ کی سیاست کی مخالفت میں اور علویون خاص کر بنی حسن کو اپنی طرف جلب کرنے کی خاطر اس مقام پر مقبرہ تعمیر کیا اور اسے مسجد اور زیارت گاہ قرار دیا۔[57]

مشہور ہے کہ اس بارگاہ کو بنانے میں ہارون الرشید (حکومت: ۱۷۰ تا ۱۹۳) کا بھی کردار رہا ہے۔[58] لیکن تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ بقیع کے مقبرے کی مرمت سلجوقیوں کے دور میں شروع ہوئی۔ برکیارق سلجوقی (متوفی ۴۹۸ھ) کے شیعہ وزیر مجد الملک ابوالفضل اسعد بن محمد بن موسی البراوستانی القمی] (۴۹۲ھ) نے قم کے ایک معمار کو ائمہ بقیع کا گنبد بنانے پر مامور کیا لیکن وزیر کے قتل ہونے کے بعد مدینہ کے امیر کی سازشوں کے تحت قتل ہوا۔[59]

ایلخانیوں کا دور (654 تا 750 ھ)
مشہور سیاح ابن بطوطہ[60] نے آٹھویں صدی ہجری کے وسط میں جو کچھ دیکھا وہ یوں تھا: "مالک بن انس کی قبر پر چھوٹا سا گنبد تھا، ابراہیم بن محمدؐ پر سفید رنگ کا گنبد تھا، ازواج رسولؐ اور امام حسنؑ اور عباس بن عبدالمطلب کے مقبروں پر اونچا اور نہایت مستحکم گنبد تعمیر ہوا تھا، خلیفۂ ثالث کی قبر پھر اونچا گنبد تھا اور ان کے قریب ہی فاطمہ بنت اسد کی قبر پر بھی گنبد تھا۔ صفَدی[61] نے بھی اشارہ کیا ہے کہ چار ائمہ شیعہ اور رسول خداؐ کی قبروں پر گنبد تعمیر کیا گیا تھا۔

عثمانی حکومت کا دَور (698 تا 1337 ھ)
خاندان قاجار کے شہزادے فرہاد میرزا نے سنہ 1914 عیسوی میں اور محمد حسین خان فراہانی نے 1924 عیسوی میں بقیع کے اپنے مشاہدات یوں بیان کئے ہیں: ایک بقعہ چار ائمہؑ اور عباس کی قبروں موجود تھا اور ریشمی کپڑے کی چادر، جس پر سونے اور چاندی کی زرتاروں سے برجستہ پھولوں کے نقش بنے ہوئے تھے، حضرت فاطمہؑ سے منسوب قبر پر چڑھی ہوئی تھی۔ یہ چادر عثمان بادشاہ سلطان احمد عثمانی نے سنہ 1131 ہجری میں بطور ہدیہ بھجوائی تھی؛ ایک بقعہ رسول اللہؐ کی بیٹیوں کی قبروں پر بنا ہوا تھا، ایک بقعہ ازواج رسولؐ کی قبروں پر اور کئی دوسرے بقعے۔[62]۔[63] تاہم مغربی مستشرق جان لوئیس برکھاٹ[64] جنہوں نے وہابیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد حجاز کا سفر کیا ہے، بقیع کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: بقیع مشرقی دنیا کے حقیر ترین قبرستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہ قبرستان احد میں مقبرہ حمزہ یا قبا کے مقام پر اسلام کی پہلی مسجد مسجد قبا کی طرح مقدس ہے اور ان مقامات مقدسہ میں شمار ہوتا ہے جن کی زیارت کو حجاج اپنے عبادی اعمال میں شمار کرتے ہیں۔[65]

جنت البقیع کا موجودہ حدود
حالیہ برسوں شہر میں توسیعی منصوبوں کی وجہ سے بقیع مدینہ کے مرکز میں قرار پایا ہے نیز مسجد النبی کی بھی توسیح کی وجہ سے مسجد اور قبرستان کے درمیان صرف ایک سڑک حائل رہ گئی ہے۔

وہابیت اور بقیع کا انہدام
اولیاء الہی سے توسل اور قبور کی زیارت کو شرک قرار دیتے ہوئے قبور کو مسمار کرنا تاریخی اعتبار سے اگرچہ وہابی افکار میں پہلے سے ملتا بھی ہے[66] لیکن ابن تیمیہ اور اس کے بعد عبدالوہاب نجدی نے اس کو مزید پروان چڑھایا۔[67] حجاز کے وہابیوں نے سنہ 1220 ہجری کو مدینہ پر پہلا حملہ کیا[68]جنہیں نابود کرنے کے لئے عثمانی حکومت کے حکمران (سلطان محمود دوم) نے 2022 ذی القعدہ کو انہیں نابود کرنے کیلیے مصر کے گورنر محمد علی پاشا کو حکم دیا۔[69]اور آخر کار وہابی فتنے کو بروز بدھ 8 ذی القعدہ 1233 کو خاموش کیا[70]اور مسمار شدہ آثار کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔[71]صفر 1344 ہجری کو وہابیوں نے مدینہ پر ایک بار پھر سے حملہ کیا اور قبروں پر مزار بنانے اور زیارت پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہوطے مذہبی مقامات کو منہدم کرنے لگے اس کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے شدید احتجاج کیا اور اور ایران کی قومی اسمبلی میں آیت اللہ مدرس نے اس موضوع کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا[72] اسی طرح ایرانی حکومت نے 16 صفر، 1344ھ (۱۳۰۴ش) کو بقیع کی ہتک حرمت پر سوگ کا اعلان کیا۔[73] سعودی حکومت نے مسلمانوں کے غم و غصے سے بچنے کے لیے بعض اسلامی ممالک کے نمایندوں کو مکہ بلایا لیکن سعودی حکومت کی سہل انگاری اور سازش کے تحت اس بات کی پیگیری نہیں ہوئی۔[74] اسی سال وہابی قاضی القضات عبداللہ بن سلیمان بن بلیہد خود مکہ سے مدینہ پہنچا اور مقبروں کو منہدم کرنے کے لیے زمینہ سازی کی اور ان کے فتوے کے تحت 8 شوال 1345 ھ کو بقیع کے مقبرے منہدم ہوگئے۔[75]

اس فتوے کے آنے پر وہابیوں نے8 شوال 1345 ھ کو تمام عمارتوں، گنبدوں اور بارگاہوں کو مسمار کیا[76] جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ہر سال مختلف ممالک میں "یوم انہدام جنت البقیع" کے موقع پر جلسے اور جلوس ہوتے ہیں اور مسمار شدہ مقابر کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ بقیع کی از سر نو تعمیر نہ کرنے پر سعودی عرب کے ساتھ ایران کے سیاسی روابط بھی کئی سالوں تک ختم ہوئے اور ایران نے سعودی حکومت کو غیر مشروع قرار دیا۔اس کے بعد بھی کئی سالوں تک باہمی روابط سرد پڑے رہے۔[77][78]

بقیع کی تعمیر نو
گزرتی تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع میں تعمیرات بھی زیاد ہوئی ہیں۔ لیکن وہابیوں کے توسط منہدم ہونے کے بعد بہت ساروں نے بقیع کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

سنہ 1220 ہجری کو پہلی مرتبہ بقیع ویران ہونے کے بعد سلطان محمود دوم عثمانی، نے 1233 ھ کو بقیع کی مرمت کی۔[79] 8 شوال 1344 ھ کو دوسری مرتبہ بقیع مسمار ہونے کے بعد یہ دن یوم الہدم سے مشہور ہوا اور مسلمانوں نے حج پہ جانے سے انکار کیا لیکن شیخ عبدالرحیم فصولی حائری اسی سال یا دوسرے سال شیعوں کے ایک گروہ کے ساتھ شام کے راستے سے حج کے سفر پر نکلے اور عبد العزیز بن عبدالرحمن بن سعود نے بڑا استقبال کیا تو انہوں نے اس موقعے کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہدام بقیع پر اعتراض کیا اور عبدالعزیز نے بھی ظاہری طور پر اس کام کی مذمت کی اور اسے ہویدا کے باپ میرزاحبیب اللہ بہایی جو اس وقت جدہ میں مقیم اور ایرانی حاجیوں کی سرپرستی کرتے تھے اس کی سازش قرار دیا۔ جبکہ ایک اور سند کے مطابق حبیب اللہ خان ہویدا سے منقول ہے کہ عبدالعزیز نے ان مکانات کے انہدام کو «عرب جاہل بدووں» کی طرف نسبت دی ہے اور خود کے اس سے بری جانا۔[80] شیخ عبدالرحیم فصولی تجویز کہ سنگ مرمر کے دو چبوترے بنا دیئے جائیں جو قبروں پر ہوں اور ایک ان سے نیچے جہاں زائرین کھڑے ہوکر زیارت پڑھ سکیں۔ اور ان چبوتروں کے اطراف میں زائرین کو آرام کرنے اور بیٹھنے کی جگہ بنائی جائے جو سونا اور چاندی سے مزین نہ ہو۔ اس ملاقات کا نتیجہ میں ایک تو ائمہ بقیع کی قبروں کا نشان باقی رہا اور عبدالعزیز کا ایک سرکاری خط۔[81] [82]

سنہ 1371 ھ کو کراچی میں اسلامی کانگرس (مؤتمر عالم الاسلام) منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ بروجردی کے پاکستان میں نمایندے حجت الاسلام شریعت‌ زادہ اصفہانی نے بقیع کی عمارتوں کا کانگرس میں مسئلہ اٹھایا اور دیگر شیعہ علما نے بھی اس پر آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں سعودی حکومت نے طویل گفت و شنید کے بعد بقیع میں مقبرے بنانے کی رضایت کا اظہار کیا۔

اس طرح سے آیت اللہ کاشف الغطاء، فلسطین کے مفتی اعظم حاجی سید امین الدین الحسینی اور سید العراقین طہرانی جو اس کانگرس کے اعضا تھے، پر مشتمل ایک وفد تشکیل ہوا جو حجاز کی حکومت سے مذاکرت کریں۔

ان تینوں شخصیات اور آیت اللہ بروجردی کے نمایندے حجت الاسلام حاج سید محمد تقی طالقانی نے ایرانی وزیر خارجہ اور نجد و حجاز کے وزیر سے تفصیلی گفتگو کی اور وہابی حکومت کو ان مقبروں پر ایک مسجد بنانے کے لیے راضی کیا اور نیز ائمہ بقیع کی قبور پر بھی چھت چڑھائیں۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں امیر فیصل، نایب السلطنہ حجاز اور سعودیہ میں ایرانی سفیر مظفر اعلم مدینہ پہنچے اور مدینہ کے گورنر کے حضور بروز ولادت امیرالمؤمنین علیہ السلام (13 رجب 1371 کو بقیع کی تجدید بنا کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کی۔

سید محمد تقی طالقانی خود بھی اور حجاز کی بعض دیگر شیعہ شخصیات کے ہمراہ ہاتھ میں مٹی سے پر بالٹی لیے بقیع کی مرمت کے لیے رضاکار کے طور پر مزدورں کے صف میں شامل ہوئے۔ نیز یہ بھی طے ہوا کہ ازواج نبی، پیغمبر اکرمؐ کے بیٹے قاسم اور ابراہیم، پیغمبرؐ کے چچا عباس اور بعض دیگر صحابہ کے قبور کی تعمیر ہوجائے اور ان پر واضح کوئی نشانی رکھی جائے لیکن عملی طور پر اس پر کوئی اقدام نہیں ہوا اور صرف ائمہ بقیع کی قبروں کے اردگرد پتھر لگانے، سایہ بان اور زایرین کی رفت آمد کے لیے پکا راستہ تک بن گیا۔[83] کہا گیا ہے کہ عراق کے بعض متعصب شیعوں کی بعض تحریک آمیز باتوں سے سعودیہ والوں کو بہانہ مل گیا اور مزید کام کرنے سے انکار کیا۔ حاج سید محمد تقی طالقانی بھی 12 شعبان 1372 کو مدینہ، نخاولہ میں سعودی بادشاہ کے قصر البیضاء میں شرکت کے بعد اچانک وفات پاتا ہے۔[84]

اسی طرح امام موسی صدر نے بھی 28 محرم 1394 ھ کو ایک خط کے ذریعے امیر محسن عبدالمحسن بن عبدالعزیز سعودی کو گزشتہ مذاکرات کی یاد دہانی کرائی اور بقیع کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا۔[85] اس خط کے ترجمہ میں یوں ذکر ہوا ہے:‌ «شیعہ اماموں کی قبور پر گنبد بنانا تمام مسلمان فقہاء کا اتفاق نہیں ہے اس لیے اس کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں تاکہ حرج پیش نہ آئے۔ لیکن قبرستان کو منظم کرنا، راستے کو پکا کرنا اور اردگرد درخت لگا کر اسے ایک باغ کی طرح بنانا، فوارے اور لگانا، دیواروں کی مرمت اور ان کو خوبصورت پتھروں سے مزین کرنا، اردگرد سایبان بنانا اور اس طرح کے دیگر اقدامات تو تمام فقہاء کے نزدیک مورد اتفاق ہے اور لاکھوں زائر اور عمرہ کرنے والوں اور حاجیوں اور محبوں کا احترام بھی ہے۔»[86]

اسی طرح آیت اللہ گلپایگانی سے منقول ہے کہ 1362 شمسی کو بعض تیونس والوں نے بقیع کی تعمیر کی مخالفت کی اور اس کی علت بھی حضرت زہرا کی قبر پر مقبرہ بنانے کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ حضرت کی قبر کو شیعہ عقیدے کے مطابق مخفی ہونے کے مخالف ہے۔ [87]
ملک فہد بن عبدالعزیز کے دور میں بقیع کی دیوار کی مرمت ہوئی اور سنہ 1418 ھ کو بقیع کے اندر راستے بنائے گیے۔[88]

حوالہ جات
یاقوت حموی،‌ المعجم البلدان، ذیل واژہ بقیع
یاقوت حموی، المعجم البلدان، کلمہ بقیع الزبیر، بقیع الخیل و بقیع الخبجبہ کے ذیل میں
یاقوت حموی،‌ المعجم البلدان، کلمہ بقیع کے ذیل میں
رفعت پاشا، مرآت الحرمین (ترجمہ)، نشر مشعر، ۱۳۷۷ش، ص۴۴۷
میراث اسلامی ما، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام ۱۳۹۳ ص۱۲۹
ہوائی نقشہ
رجوع کریں: نقشۂ مدینہ جو کایتانی نے "سالنامۂ اسلام" ج2، ص173 میں شائع کیا ہے۔
السمہودی، وفاء الوفاء بأخبار‌ دار المصطفی،ج۳،ص ۹۲ و ۹۵
سفرنامہ ابن جبیر،۱۳۷۰ش‍، ص۲۴۵
السمہودی، وفاء الوفاء بأخبار‌ دار المصطفی،ج۳،ص۹۵
سفرنامہ ابن جبیر،۱۳۷۰ش‍، ص۲۴۵
سال ۳۳۲ق نقل از مسعودی در مروج الذہب وفاء الوفاء ج۳ ص۹۲
شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ج۲، ص۱۷
مراجعہ کریں: السمہودی، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى‌، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی،‌ج۳ باب فضل بقیع
مفید،ج۱، ص۱۸۱؛ سمہودی،۱۹۷۱م، ج۳، ص۷۷.
ابن قولویہ، ص۵۲۹.
تاریخ المدینہ، ج۱، ص۸۹-۹۰؛ وفاء الوفاء، ج۳، ص۷۹.
تاریخ المدینہ، ج۱، ص۹۷.
فرات الکوفی، ص۲۰۰.
المتقی الہندی، کنزالعمال،۱۴۰۱ہ‍، ج۸، ص۴۳۶.
کلینی، ج۳، ص۴۶۰؛ طوسی ج۳، ص۱۲۹؛ سمہودی،۱۹۷۱م، ج۳، ص۶.
دیلمی، ج۱، ص۳۳.
ابن کثیر، ج۸، ص۲۲۸.
سمہودی، وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م، ج۳، ص۸۹۰
مثلا: ابن براج، ج، ص۲۸۳؛ محقق حلی، ج، ص۲۱۰.
مثلا: شربینی، ج، ص۵۱۳؛ بہوتی، ج۲، ص۶۰۱؛ ابن الحاج، ج، ص۲۶۵.
معجم البلدان، یاقوت حموی، ج۱، ص۴۷۳
ابن حجر،الأصابہ،۱۴۱۵ہ‍، ج۴، ص۵۷۵
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍ ،‌ج ۶، ص۹۲
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق‍،‌ج۱، ص۶۷۳
ابن ابی الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق‍ ج۱۰ ص۶
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍ ، ج۳ ص۱۰۱
ابن سعد،الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍ ،ج۳، ص۳۰۳
ابن نجار، أخبار المدینة، ص۸۶ و قرطبی، الجامع لأحکام القرآن،بی‌تا، ج۱۰ ص۵۲
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ق ، ج۳، ص۳۰۳
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍ ، ج۳ ص۴۵۹
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، ص۶۵
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍، ج۴ ص۳۳
سمہودی،وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م، ج۳، ص۸۳
سمہودی، وفاءالوفاء،۱۹۷۱م، ج۳، ص۹۰۷
سمہودی، وفاءالوفاء،۱۹۷۱م، ج۳، ص۸۳
المتقی الہندی، کنز العمال،۱۴۰۱ق‍ ، ج۱۵، ص۷۵۹
ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ہ‍ ، ج۵ ص۴۶۹ و ج۸، ص۶۹
ابن شبہ، تاریخ مدینہ منورہ (ترجمہ)،۱۳۸۰ش‍‌ ، ص۱۷
سمہودی،وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م،ج۳، ص۸۴ و ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ہ‍ ، ج۵، ص۸۳
ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ہ‍ ،ج۵، ص۸۷
طبری،‌ تاریخ طبری، (دورہ ۱۱ جلدی)بی‌تا، ج۷، ص۵۸۷
سمہودی،وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م،ج۳، ص۸۳
سمہودی،وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م،ج۳، ص۸۴
سمہودی، وفاءالوفاء،۱۹۷۱م، ج۳،ص۹۸
سمہودی، وفاءالوفاء،‌۱۹۷۱م، ج۳، ص۸۴ و ۹۹ و پژوہشکدہ حج و زیارت، بقیع در آینہ تاریخ، مشعر، تہران، بقیع در آیینہ تاریخ ص۲۶۷
پژوہشکدہ حج و زیارت، بقیع در آینہ تاریخ، مشعر، تہران، ص۲۸۰
بروجردی، سید علی، طرائف المقال،۱۴۱۰ ہ‌ق، ‌ج۲،ص۵۹۰
ابن شبہ، تاریخ مدینہ منورہ (ترجمہ)،۱۳۸۰ش‍‌ ، ص۶۷۶
ابن‌ شبہ، تاریخ مدینہ منورہ (ترجمہ)،۱۳۸۰ش‍ ، ص۱۱۶
ابن نجار، اخبار المدینہ، ص۱۶۶
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰ش، ص۸۶
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، ص۸۸
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق‍، ج۱۰، ص۳۵۲
سفرنامہ ابن بطوطہ،ج 1، ص128۔
الوافی بالوفیات، ج 4، ص103، ج 11، ص127۔
سفرنامہ فرہاد میرزا معتمدالدولہ، ص170ـ173، 190۔
سفرنامہ میرزامحمدحسین حسینی فراہانی،ص 228ـ 234۔
جان لوئیس برکھارٹ (Johann Ludwig (also known as John Lewis, Jean Louis) Burckhardt)، ولادت 24 نومبر 1784، وفات 15 اکتوبر 1817 عیسوی، نے عرب کا مشہور سفر نامہ، سفر نامہ حجاز لکھا۔
برکھارٹ، (فارسی ترجمہ) سفرنامہ حجاز ص222 تا 226۔
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، بخش پیشگفتار
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، بخش پیشگفتار
جبرتی عبدالرحمن، تاریخ عجائب الآثار فی التراجم و الأخبار المعروف بتاریخ الجبرتی،۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۳
المحامی،‌ محمد فریدبک، تاریخ الدولة العلیة العثمانیة، بیروت ۱۴۰۸ق، ص۴۰۶
ادوارد جوان، مصر فی القرن التاسع عشر، ترجمہ بہ عربی محمد مسعود، ۱۳۴۰ق، ص ۵۸۱
پنجاہ سفرنامہ، ج۳، ص۱۹۶.
جلسہ: ۱۹۳ صورت مشروح مجلس یوم ہشتم شہریور ہزار و سیصد و چہار مطابق ۱۰ صفر ۱۳۴۴
حسین مکی، مدرس قہرمان آزادی، ۱۳۵۹، ج۲ ص۶۸۲
تخریب و بازسازی بقیع، ص۵۸.
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، ص۵۱
نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۰، ص۵۱
جنگ ایدئولوژیک ایران و عربستان تا چہ اندازہ جدی است؟
اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (۱۳۰۴-۱۳۵۷ہ‍.ش)، ص۶۱، ش۱۸، ۱۲نیسان ۱۹۲۵م.
رفعت پاشا، مرآت الحرمین (ترجمہ)، نشر مشعر، ۱۳۷۷ش، ص۴۷۸
محقق، اسناد و تاریخ دیپلماسی، اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (۱۳۰۴-۱۳۵۷ہ‍.ش)، چاپ و انتشارات وزارت امور خارجہ، ص۴۶-۵۴.
خبرگزاری فارس، شمایل فعلی قبور ائمہ بقیع را چہ کسی ساخت؟
میراث اسلامی ما، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام ۱۳۹۳، ص۱۷۶
اسناد روابط ایران و عربستان، ص۲۴۸-۲۶۰؛ تخریب و بازسازی بقیع، ص۹۸-۱۴۷.
ر.ک: خبرگزاری رسا؛ نمایندہ مرجع، کارگر بقیع!
سایت امام صدر؛ ادبیات متفاوت امام موسی صدر در نامہ‌ای بہ شاہزادہ سعودی دربارۂ بقیع
سایت امام صدر
مراجعہ کریں: موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، مصاحبہ با فرزند آیت اللہ گلپایگانی
آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۳۳۲.

مآخذ

ابن ابی الحدید عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق ابراہیم محمد ابوالفضل، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق
ابن اثیر علی بن محمد،‌ الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر للطباعۃ و النشر، ۱۳۸۵ق
ابن جبیر، محمد بن احمد، سفرنامہ ابن جبیر، ترجمہ پرویز اتابکی،‌ انتشارات آستان قدس رضوی، ایران، چاپ اول ۱۳۷۰ش
ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۵ق
ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۰ق
ابن شبہ نمیری، عمر بن شبہ، مترجم: صابری حسین،‌ نشر مشعر، تہران، ۱۳۸۰ش
ابن‌ نجار البغدادی، محمد بن محمود،‌ الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ، دارالارقم،‌ بیروت، بی‌تا
السمہودی علی بن احمد، وفاء الوفا باخبار دارالمصطفی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۷۱م
المتقی الہندی، علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری الشاذلی، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ پنجم،۱۴۰۱ق
بروجردی، سید علی أصغر جابلقی، طرائف المقال فی معرفۃ طبقات الرواۃ،کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم ۱۴۱۰ق‍،چاپ نخست
سید علی موجانی، علی ارغون چینار، دغان بااین، میراث اسلامی ما (گزارشی تصویری از میراث مشترک حافظہ تاریخی مسلمانان در حرمین شریفین)، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام، ۱۳۹۳ش
شوشتری نورالہ بن شریف الدین، مجالس المؤمنین،‌ ناشر اسلامیہ، تہران، ۱۳۷۷ش
طبری محمد بن جریر،‌ تاریخ الأمم و الملوک، (دورہ ۱۱ جلدی) بیروت، بی‌تا،‌ بی‌نا
غالب، محمد ادیب، من اخبار الحجاز و النجد فی تاریخ الجبرتی، دارالیمامہ، ۱۳۹۵ق
فراہانی محمد حسین بن مہدی سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ناشر فردوس تہران، ۱۳۶۲ش
فرہاد میرزا معتمد الدولہ، ہدایۃ السبیل و کفایۃ الدلیل (سفرنامہ)، نشر علمی تہران، ۱۳۶۶ش
قزوینی عبدالجلیل، نقض، انجمن آثار ملی، تہران، ۱۳۵۸ش
ماجری، یوسف،البقیع قصۃ التدمیر، بیروت، مؤسسۃ بقیع لاحیاء التراث، ۱۴۱۱ق
امین محسن، کشف الارتیاب فی أتباع محمد بن عبدالوہاب، دارالکتب الاسلامی، قم، ۱۴۱۰ق
المحامی، محمد فریدبک، تاریخ الدولۃ العلیۃ العثمانیۃ، دارالنفائس،بیروت، چاپ ششم، ۱۴۰۸ق
رفعت پاشا ابراہیم، مترجم، انصاری ہادی، مرآت الحرمین، نشر مشعر، تہران، ۱۳۷۷ش ہ
R. F. Burton,Burckhardt, Travels in Arabia, London 1829.
LeonePilgrimage to el-Medinah and Meccah, London 1855.
Caetani, Annali dell' Islam, Milano 1905-1926.
A. J. Wensinck, Mohammedcities of Arabia , New York 1928.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک