اذان اور اقامت سے حیّ علی خیر العمل کو حذف کر نے کی وجہ - قسط - ۱۳

آخری اور -۱۳- قسط
اذان  اور اقامت سے حیّ علی خیر العمل کو حذف کر نے کی وجہ

گزشتہ مباحث سے واضح ہوچکا کہ حیّ علی خیر العمل کا جملہ  رسول اللہﷺ  کے دور  میں اذان اور اقامت کا حصہ تھا ۔جب خلیفہ دوم  کا دور آیا تو خلیفہ نے چاہا کہ لوگ اللہ کی راہ میں  جہاد  کو خیر العمل (سب سے اچھا عمل ) سمجھیں تاکہ اس کی طرف  راغب ہوں  اور ان کی توجہ جہاد  پر مرکوز رہے ۔خلیفہ نے سوچا کہ پنجگانہ نمازوں  سے پہلے  اذان میں  نماز کو خیر العمل کہہ کر پکارنا جہاد  کی اہمیت کے منافی ہے ۔ خلیفہ  دوم  کو  خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اذان اور اقامت میں حیّ علی خیر العمل پڑھنے کا سلسلہ جاری رہے تو اس کے باعث لوگ جہاد  سے پہلو تہی کریں گے کیونکہ اگر لوگوں کو پتہ  چل جائے کہ نماز  سب سے اچھا عمل ہے تو لوگ ثواب کمانے  کے لئے اسی پر اکتفاء کریں گے کیونکہ نماز ایک آسان اور آرام دہ عمل ہے اور جہاد کو خیر باد  کہیں گے کیونکہ یہ ایک خطرناک اور مشکل کام ہے اور نماز کے مقابلے  میں اس کی فضیلت بھی کم ہے ۔
بنابریں خلیفہ ثانی  حضرت عمر  نے  اپنی دانست میں  بہتر سمجھا کہ مذکورہ مصلحت کے پیش نظر  اس جملے کو اذان  اور اقامت سے حذف کردیا جائے  ۔خلیفہ نے  شریعت مقدسہ کے حکم کی پابندی  کے مقابلے میں مذکورہ مصلحت کو ترجیح  دی ۔چنانچہ حضرت عمر نے منبر سے اعلان کیا : تین چیزیں  رسول اللہ کے عہد میں  جائز  تھیں  لیکن  میں ان تین  سے منع کرتا ہوں  اور انہیں  حرام قرار دیتا ہوں  ۔میں ان  کے ارتکاب پر سزا دوں  گا ۔ (وہ تین  یہ ہیں : ) عورتوں  کے ساتھ متعہ ،حج کے دوران تمتع اور حیّ علی خیر العمل ۔
قوشجی  نے اپنی کتاب  شرح التجرید میں  امامت کی بحث کے آخر میں  اس کی تصریح فرمائی ہے ۔  یاد رہے کہ قوشجی مذہب اشاعرہ کے متکلمین  کے ائمہ  میں سے  ایک شمار ہوتے ہیں  ۔قوشجی نے حضرت عمر کے اس موقف کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے : کسی مجتہد کا اجتہادی مسائل میں دوسرے مجتہدین کی مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔( دیکھئے قوشجی کی شرح التجرید ،ص ۴۸۴)
ابن شاذان نے برادران اہل سنت  والجماعت کی خدمت میں عرض کیا ہے :
رسول اللہ کے عہد  میں ،حضرت ابو بکر کے دور میں  اور  خلافتِ فاروقی  کے ابتدائی دورمیں  اذان کے اندر  حیّ علی خیر العمل کہہ کر پکارا جاتا رہا ۔پھر حضرت عمر  بن خطاب نے کہا : مجھے خوف ہے کہ اگر حیّ علی خیر العمل ( نما زسب سے  اچھا عمل ہے ) کہا جائے تو لوگ نماز  پر اکتفاء  کریں گے اور جہاد کو چھوڑیں دیں گے ۔ پس خلیفہ نے حکم دیا کہ اذان سے حیّ علی خیر العمل کو حذف کیا جائے ۔( الایضاح ،ص ۲۰۱ ۔۲۰۲ )
مروی ہے کہ عکرمہ  نے کہا : اس اقدام سے عمر کا مقصود  یہ تھا  کہ لوگ نماز پر  بھروسہ کرتے ہوئے  جہاد کو چھوڑ دیں  گے۔اسی لئے انہوں نے اسے( حیّ علی خیر العمل کو ) نما زسے حذف  کردیا ۔( دیکھئے   علامہ محمد باقر مجلسی  (متوفی ۱۱۱۱ ھ) کی بحارالانوار ،ج۸۴،ص۱۳۰،نیز علل الشرائع،ج۲،ص۵۶)
عضدی نے ابن حاجب  کی کتاب  مختصر الاصول  کی جو شرح لکھی ہے اس کے حاشیے  میں  سعدالدین تفتازانی  کہتے ہیں  : حیّ علی خیر العمل  عہد رسول  میں ثابت تھا اور عمر نے  ہی لوگوں  کو  اس سے اجتناب کا حکم دیا تھا اس خوف سے  کہ کہیں  لوگ نماز پر بھروسہ اور اکتفا کرتے ہوئے  جہاد  سے پہلو تہی نہ کریں ۔( دیکھئے دلائل الصدق ،ج۳،ص ۱۰۰،حصہ ۲، عرفی کی  مبادیٔ الفقہ الاسلامی ،ص۳۸  سے ماخوذنیز سید ہاشم معروف  کی سیرۃ المصطفی ،ص ۲۷۴ ، ماخوذ از الروض النضیر،ج۲،ص ۴۲ )
تبصرہ : اولاً  اگر یہ جملہ (حیّ علی خیر العمل) جہاد سے پہلو تہی کا موجب ہوتا  تو شریعت کو اس کا حکم ہی نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ یہ مذکورہ نظرئے کی روسے ایک دائمی  خرابی  کا موجب  ہے ۔ اسی خیال سے اہل سنت  نے اسے آج تک چھوڑ رکھا ہے ۔
ثانیا ً : اگر اذان  میں حیّ علی خیر العمل کہنا سچ مچ  نقصان دہ ہوتا تو رسول اللہﷺ (جس نے قیصر  و کسری کی شکست کی خوشخبری سنائی تھی )  کو اس نقصان کا سب سے زیادہ ادراک  اور احساس  ہونا چاہیے  تھا ۔
ثالثاً : جنگوں  میں صحابہ کے شجاعت آمیز کارنامے اس موہوم  تصور کی نفی کرتے ہیں  کیونکہ اصحاب ،رسول اللہ ﷺکی رکاب  میں  راہ خدا  میں جنگ کرتے تھے اور حیّ علی خیر العملکا تکرار  انہیں جہاد  سے نہیں  روکتا تھا جیساکہ قرآن کریم  نے اس  حقیقت کو صریحا  بیان فرمایا  ہے ۔( دیکھئے سورہ توبہ /۱۱۱ ۔۱۱۲ )
اشعری مکتب  فکر  کے ماہر علمِ کلام  قوشجی نے حضرت عمر کے موقف کی صفائی یوں پیش کی ہے :
اجتہادی مسائل  میں ایک  مجتہد کا دوسرے  مجتہدین  کی مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ۔( دیکھئے قوشجی کی شرح تجرید  ،ص ۴۸۴ )
یہ ایک غیر معقول توجیہ ہے کیونکہ  اگر ہم  غور کریں تو  نبی  کریم ﷺاپنی خواہش  کے تحت  بات نہیں  کرتے  بلکہ وحی کے مطابق گفتگو  فرماتے ہیں  ان ھو الّا وحی یوحیٰ۔  علامہ شرف الدین عاملی اس  تاویل کے بارے میں  فرماتے ہیں :
عذر یہ پیش کی جاتی ہے کہ خلیفہ ثانی نے سوچا : جب لوگ یہ سنیں گے کہ نماز سب سے اچھا عمل ہے تو وہ نماز پر بھرسہ کرتے ہوئے جہاد  کو خیر باد کہیں گے جیساکہ خلیفہ نے خود بتایا ہے ۔
قوشجی کے قول  : ’’اجتہاد ی مسائل میں ایک مجتہد کا دوسرے مجتہدین  کی مخالفت  کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘‘ پر یہ اعتراض  وارد  ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر معقول عذر تراشی ہے کیونکہ رسول  ﷺنے اس کا صریح فرمان دیا ہے  اور رسول  کے صریح  فرمان (نص) کی مخالفت جائز نہیں ہے ۔پس لوگوں  کے افعال کے بارے میں  رسول ﷺکے احکام  کی مخالفت حرام ہے کیونکہ محمدﷺ جس چیز کو حلال  قرار دیں وہ قیامت تک حلال ہے اور آپ  جس چیز  کو حرام قرار دیں وہ بھی قیامت تک حرام  ہے ۔یہی حال آپ کے سارے احکام کا ہے خواہ  وہ احکام تکلیفی ہوں  یا وضعی ۔اس بات پر سارے مسلمانوں  کا اجماع ہے جس طرح آپ کی نبوت  پر ان کا اجماع ہے۔ کسی مسلمان نے اس  کے خلاف کوئی لفظ نہیں کہا ہے ۔
قرآن کریم نے اس حقیقت کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا ہے : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔( دیکھئے :حشر/۷)
رسول تمہیں  جو کچھ دے دیں  اسے لے لو اور وہ تمہیں جس چیز سے روکیں  اس سے اجتناب کرو  اور اللہ سے ڈرو ۔بے شک اللہ سخت سزادینے والاہے ۔
نیز ارشاد ربانی  ہے : وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ۔ (دیکھئے :احزاب/۳۶)
کسی مومن اور مومنہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب اللہ اور رسول  کسی امر کا  فیصلہ کریں  تو وہ اس میں اپنی مرضی  سے کام لیں ۔ جس نے  اللہ اور  رسول کی نافرمانی  کی بتحقیق  وہ کھلی  گمراہی میں مبتلا  ہوگیا ۔
 ایک اور جگہ ارشاد الہی ہے : فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (دیکھئے :نساء/۶۵ )
 ’’ نہیں تیرے رب کی قسم!یہ لوگ صاحب ِایمان  نہیں ہوسکتے  جب تک  اپنے باہمی اختلافات  کے فیصلے  کا اختیار  آپ  کو نہ دیں  پھر آپ  کے فیصلے  سے انہیں  کوئی قلبی  تنگی محسوس  نہ ہو   بلکہ وہ مکمل طور پر  (آپ کے آگے ) سر تسلیم خم  ہوں ۔
نیز ارشاد الہی ہے : إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍۢ كَرِيمٍۢ ، ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى ٱلْعَرْشِ مَكِينٍۢ ، مُّطَاعٍۢ ثَمَّ أَمِينٍۢ  (دیکھئے :تکویر /۱۹ ۔۲۱ )
یہ صاحب عرش کے ہاں مقرب  ایک طاقتور  اور معزز فرستادے  کا کلام ہے ۔
  ایک اور جگہ فرماتا ہے : إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍۢ كَرِيمٍۢ، وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍۢ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تُؤْمِنُونَ، وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍۢ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تَذَكَّرُونَ ،تَنزِيلٌۭ مِّن رَّبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ  ۔( دیکھئے :الحآقۃ /۴۰ ۔۴۳)
بے شک یہ ایک مکرم فرستادے کا کلام ہے ۔ یہ کسی شاعر کاکلام نہیں ۔ تم لوگ بہت کم ایمان رکھتے  ہو ۔ یہ کسی کاہن کا قول نہیں ۔ تم لوگ بہت کم نصیحت  قبول کرتے ہو ۔ یہ رب العالمین  کی طرف سے  اتا را ہوا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد  فرماتا ہے : وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌۭ يُوحَىٰ  ، عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ ۔ (دیکھئے :نجم/۳۔۵۔)
رسول اپنی خواہشات  کے تحت  بات نہیں کرتے ۔ یہ تو بس نازل شدہ  وحی ہے ۔ اسے زبردست قوت والے  نے سکھا یا ہے ۔
پس رسول کا کلام قرآن کریم کی طرح ہے ۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ‘‘ (دیکھئے فصلت/۴۲۔)
با طل اس کے آگے پیچھے سے  اس کے پاس نہیں پھٹک   سکتا ۔ یہ صاحبِ حکمت اور لا ئقِ حمد ( خدا ) کی طرف سے  نازل کیا گیا ہے ۔
  پس جو شخص ان آیات پر ایمان  رکھتا ہو  اور رسول اللہ ﷺ کی  نبوت کی تصدیق کرتا ہو  وہ آنحضرت  کے فرمودات  سے  ذرہ برابر  بھی دور  نہیں ہوسکتا ۔ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے  کہ ان لوگوں نے  سنت  رسول  سے عمداً   دوری اختیار  کی ہو  البتہ انہوں نے  تاویل و توجیہ  سے کا م لیا ہے ۔( دیکھئے : النص والاجتہاد ،خطبۃ الکتاب ۔)
بعض شواہد  جن سے حیّ علی خیر العمل  کی جز ئیت  کی مزید  تا ئید  ہو تی ہے
زر کشی البحر  المحیط  میں ر قمطراز  ہیں :  دیگر اختلافی  مسائل کی طرح  اس مسئلے  میں بھی  اختلاف  ہے ۔ ابن عمر جو اہل مدینہ  کے معتمد تھے  اذان ( کے جملوں ) کو  ایک ایک  دفعہ پڑھنے  نیز اذان میں  حیّ علی خیر العمل پڑھنے  کے قائل تھے ۔
 کتاب السنام میں مذکور ہے :  درست بات یہ ہے کہ  شریعت نے حیّ علی خیر العمل  کو  اذان کا حصہ  قرار دیا ہے ۔
الروض النظیر میں مذکور ہے : بہت سے مالکی ، حنفی اور شافعی  علماء کا کہنا  ہے کہ حیّ علی خیر العمل اذان کے الفاظ میں شامل ہے ۔
شو کانی  نے  کتاب الاحکام  سے نقل کیا ہے : ہمارے ہاں  یہ درست ہے کہحیّ علی خیر العمل   رسول اللہ ﷺکے زمانے میں  اذان  کا حصہ  تھا۔ عمر  کے دور سے پہلے یہ جملہ اذان  میں کہا جا تا تھا۔ پھر  عمر  کے  دور میں  حذف ہوا ۔   
اب تک جو کچھ  بیان ہو ا  اس سے  واضح ہوچکا  کہ  رسول اللہ ﷺ ،حضرت  ابو بکر  اورحضرت  عمر  کے دور حکومت  کے کچھ  عرصے تک  اذان میں ’’ حیّ علی خیر العمل ‘‘ کہنے کا عمل  جاری رہا ۔ پھر حضرت  عمر نے اپنی رائے سے  اسے حذف  کیا ۔ حضرت  عمر نے جس  وجہ سے  حیّ علی خیر العمل  کو اذان  سے  حذف کیا تھا  اس کے پیش نظر  عصر حاضر میں  اس  روش کو جاری رکھنے  کی وجہ  سمجھ سے  بالا تر ہے  کیونکہ  حضرت عمر  کے زمانے میں  موجود  سبب  آج مفقود ہے ۔ پس ہم سب  اللہ کے  رسولﷺ اور آپ  کے اہل  بیت علیہم السلام   کی سنت  اور  روش کی متابعت   کیوںنہ کریں ؟
خلاصہ بحث  
اب تک جو دلائل و شواہد  بیان ہوئے  ان سے واضح  اور  ظاہر  ہو تا ہے  کہ :
۱۔ حیّ علی خیر العمل   اذان و اقامت  کا باقاعدہ  حصہ ہے ۔
۲۔  عصر رسول میں نیز  خلیفہ اول  بلکہ  خلیفہ ثانی  کے دور خلافت  کے کچھ عرصے تک اس پر عمل ہوتا رہا ۔
۳۔ خلیفہ ثانی نے اپنی  ذاتی رائے سے ایک ناقص  دلیل کو  بنیاد بنا کر اس جملے کو  حذف کرنے  کا حکم  دیا  جسے رسول اللہﷺ  نے اذان کا حصہ  قرار دیا تھا ۔
ماخوذ از کتاب:
نام کتاب: اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)
موضوع : فقہ
مولف :شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں