نماز میں سجدے والی سورتوں کو پڑھنے کا مسئلہ(قسط نمبر-۱)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نام کتاب:نماز میں  سجدے والی سورتوں  کو پڑھنے کا مسئلہ(قسط نمبر-۱)

اہل ا لبیت علیہم  السلام قرآن کے آئینے میں:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃٔ احزاب/۳۲ )

ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے   کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔

اہل بیت  رسول علیہم السلام، سنت  نبوی کے آئینے میں:

’’ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ ‘‘ (صحاح و مسانید)

ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔ وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔

عرضِ مجلس

اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔

یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیتعلیہم السلام  اور مکتب   اہلبیت کے ان   پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور   کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔

اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو، ڈائیلاگ اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں ہوا دی جارہی ہے ۔

اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔

یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز  علماء  اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔

ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔ (عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام  شعبہ ثقافت کمیٹی)

نماز میں  سجدے والی سورتوں  کو پڑھنے کا مسئلہ

واجب سجدوں  والی سورتوں کو عزائم  کے نام سے یاد کیا جاتا  ہے ۔عزائم ’’  عزیمہ‘‘  کی جمع ہے جس سے مراد ہے: فریضہ۔  چونکہ  ان سورتوں  میں موجود  آیات ِسجدہ  کو پڑھنے سے  سجدہ  فرض ہوجاتا ہے اس لئے ان سورتوں  کو عزائم  یعنی واجب  سجدوں  والی سورتوں  کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔

مکتب اہل بیت  کے نزدیک  یہ  سورتیں  چار ہیں  جو یہ ہیں : سورہ سجدہ ،سورہ فصلت سورہ نجم اور سورہ علق ۔سجدے والی دیگر  آیات کی تلاوت سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ۔اسلامی مذاہب کے مابین  نماز میں سجدہ والی سورتوں اور آیات سجدہ پڑھنے کی صورت میں سجدہ  کرنے کے حکم میں  اختلاف پایا جاتا ہے ۔

حنفی اسے جائز قرار دیتے ہیں  اور ان کے ہاں جب نمازی سجدے والی آیت پڑھے  تو اس پر نماز کے اندر ہی  فوراً سجدہ واجب  ہوجاتا ہے ۔ اہل سنت کے دیگر مذاہب  نماز میں  سورۂ سجدہ کی تلاوت کو جائز اور مکروہ قرار دیتے ہیں  لیکن  آیات سجدہ کے باعث نماز میں سجدے کو واجب نہیں جانتے کیونکہ  ان کے ہاں  آیات سجدہ کی تلاوت سے سجدہ واجب ہی نہیں ہوتا  (خواہ انسان نماز میں ہو یا نہ ہو )۔  ادھر مذہب امامیہ کے ہاں نماز میں واجب  سجدے والی چار سورتوں کو  پڑھنا جائز نہیں ہے  اور اگر کوئی  ایسا کرے تو نماز باطل ہوجاتی ہے کیونکہ اس صورت میں  نماز میں اضافی سجدہ واجب ہوجائے گا۔

اس کتابچے میں ہم ان تین فقہی نظریات اور ان کے دلائل کا تحقیقی جائزہ لیں گے اور ان میں سے اس صحیح نظرئے کو واضح کریں گےجو کتاب خدا اور سنت نبوی کے عین مطابق ہو۔

(نوٹ:اس تحقیق کا مقصد  مختلف اسلامی فرقوں  کے درمیان موجود اختلافی مسائل کا قرآن و سنت اور  عقل سلیم کی روشنی میں  منطقی اور تحقیقی طریقے سے جائزہ لینا ہے تاکہ بےجا تعصبات، ایک دوسرے پر بے جا الزام تراشی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو نیز مسلمانوں کے درمیان حقائق کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہو جس کے نتیجے میں اسلامی اخوت و اتحاد کو فروغ حاصل ہو)

حنفی نقطہ  نظر کے دلائل

امام ابو حنیفہ اور ان کے طرفداروں نے ٓیتِ سجدہ کی تلاوت پر نماز میں سجدہ کرنےکےوجوب  پر جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں سےبعض یہ ہیں:

پہلی دلیل : آیت قرآنی  : فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ ٱلْقُرْءَانُ لَا يَسْجُدُونَ؟( انشقاق۲۰/۲۱)

(یہ لوگ  ایمان کیوں نہیں لاتے اور جب انہیں قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟)

اس آیت میں اللہ نے سجدۂ  تلاوت نہ کرنے والوں کی مذمت اور توبیخ کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ سجدہ کرنا واجب ہے ۔

( دیکھیے محمد بن عبد الواحدکی  شرح فتح القدیر ،۱/۴۶۵،  ابن قدامہ کی المغنی۱/۶۵۲ نیز الحاوی الکبیر ۲/۲۰۰،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ  )

دوسری دلیل: حدیث نبوی : السجدۃ علی  من سمعھا وعلی من تلا ھا (شرح فتح القدیر، ۱/۴۶۶)

( آیتِ سجدہ  سننے اور اسے تلاوت کرنے  والے دونوں پر سجدہ لازم  ہے )

تیسری دلیل :  ابو ہریرہ  نے  روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب ابنِ  آدم آیت سجدہ پڑھتا ہے تو شیطان دور ہوجاتا ہے  اور کہتا ہے : وائے ہو مجھ پر ! آدم کے فرزند  کو سجدے کا حکم دیا گیا  ۔پس  اس نے سجدہ کیا  اور وہ جنت کا مستحق بن گیا ۔ادھر  مجھے سجدے کا حکم دیا گیا  لیکن میں اس کا انکار کر کے  جہنمی ہوگیا  ۔

فتح القدیر میں  مذکور ہے :  اصولی بات ہے کہ  جب کوئی  صاحبِ عقل و حکمت کسی غیر حکیم  سے کوئی بات نقل کرنے کے بعد  اس کی بات کو  رد نہیں کرتا تو یہ  اس بات کی درستی کی دلیل ہے ۔ پس اس  حدیث کی ظاہری دلالت یہی ہے  کہ سجدہ واجب ہے ۔ اس کے علاوہ آیات ِ سجدہ بھی  وجوب پر دلالت کرتی ہیں  کیونکہ  ان کی تین قسمیں ہیں  : ایک قسم وہ ہے جن میں سجدہ کرنے کا صریح حکم  دیا گیا ہے ۔

دوسری قسم وہ ہے  جس میں  حکم الہی کے باوجود کافروں کے سجدہ نہ کرنے کا تذکرہ ہے جبکہ تیسری قسم میں  انبیاء کے سجدہ کرنے کا ذکر ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ صریح حکم کی تعمیل کرنا ، کافروں کی روش کی مخالفت کرنا  اور انبیاء کی پیروی کرنا  واجب ہیں  مگر یہ کہ  کوئی دلیل  کسی خاص مورد میں  عدم وجوب پر دلالت کرے ۔

( شرح فتح القدیر ،۱/۴۶۶،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی )

پس جب حنفیہ کے نزدیک سجدہ ٔ تلاوت  کا وجوب  ثابت ہے تو ہر اس شخص پر سجدہ واجب  ہوگا جو آیت سجدہ کی تلاوت کرے خواہ  وہ نماز  میں  مشغول ہو یا نہ ہو  بلکہ  حنفیہ  کے ہاں  جب  تلاوت کا سجدہ نماز میں  واجب  ہوتو اسے نماز  کی خصوصیت  بھی حاصل ہوجاتی ہے  ۔

( دیکھیے محمد بن عبد الواحد کی شرح فتح القدیر ۱/۴۷۰مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

اہل سنت کے دیگر فرقوں کا نظریہ  اور ان کے دلائل

اہل سنت  کے دیگر  فرقوں  کے ہاں  تلاوت کا سجدہ  واجب نہیں ہے بلکہ مستحب  ہے ۔

ابن قدامہ  کہتے ہیں : ہمارے امام  ،مالک ،اوزاعی ،لیث اور شافعی کے نزدیک تلاوت کے سجدے واجب نہیں  بلکہ  سنت موکدہ ہیں  ۔یہی عمر اور ان کے بیٹے عبد اللہ  کا بھی نظریہ  ہے ۔

(المغنی ۱/۶۵۲)

ماوردی کا  بیان ہے :  جو شخص  آیت سجدہ پڑھے یا کسی پڑھنے والے سے سنے  اس کے لئے سجدہ کرنا مستحب  ہے خواہ وہ نماز  میں  مشغول  ہو یا نہ ہو ۔

یہ اس پر واجب  نہیں ہے   خواہ وہ خود تلاوت کرے یا کسی  اور سے سنے ۔عمر کا یہی قول ہے اور مالک کا بھی یہی نظریہ ہے ۔ (دیکھیے علی بن محمد الماوردی کی :الحاوی الکبیر ، ۲/ ۲۰۰ ،مطبوعۂ دارلکتب العلمیہ)

ابن حزم نے بھی المحلی  میں یہی کہا ہے ۔ ( دیکھیے: المحلی، ۵/۱۰۶،مطبوعہ دارالجیل )

ابن قدامہ نے  عام اہل سنت کے نظرئے کے حق میں  دلیل  دیتے ہوئے  کہا ہے : ہمارے قول کی دلیل  زید بن ثابت  کی روایت  ہے جس میں  زید کہتا ہے : میں نے رسول اللہﷺ  کو سورہ نجم  پڑھ کر سنائی لیکن  ہم میں  سے کسی نے سجدہ  نہیں کیا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس پر صحابہ کا اجماع ہے ۔ بخاری  اور اثرم نے عمر سے نقل کیا ہے کہ موصوف نے جمعہ  کے دن منبر پر سورہ نحل پڑھا یہاں تک کہ جب  سجدہ والی آیت  آئی تو  انہوں نے   نیچے اُتر کر سجدہ کیا  اور دوسرے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ۔دوسرے جمعے کو انہوں نے پھر سورہ نحل پڑھا یہاں تک کہ جب سجدے کی آیت آئی تو کہا : لوگو!  جب ہم آیت سجدہ پڑھتے ہیں  تو جو سجدہ کرے  اس کا عمل ٹھیک ہے لیکن جو سجدہ نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں ۔پس عمر نے سجدہ نہیں کیا ۔ایک اور جگہ مذکور ہے: اللہ نے ہمارے  اوپر  سجدوں کو فرض نہیں کیا  مگر یہ کہ ہم خود چاہیں۔  اثرم کی روایت کہتی ہے  : اس نے کہا : ذرا صبر کرو  ۔اللہ نے اسے ہمارے اوپر لازم قرار نہیں دیا مگر یہ کہ ہم خود چاہیں ۔پس اس نے اسے پڑھا  لیکن سجدہ نہیں کیا اور لوگوں کو بھی  سجدہ کرنے سے منع کیا اور وہ بھی لوگوں کے جم غفیر کے سامنے ۔ان لوگوں نے بھی  اس پر کوئی اعترا ض کیا اور نہ کسی نے اس کے برخلاف کوئی  قول نقل کیا  ۔ رہی بات آیت شریفہ کی تو اس آیت  نے سجدے کے مقام و مرتبے اور اس کے جواز پر عدم اعتقاد کے باعث سجدہ نہ کرنے پر ان لوگوں کی مذمت کی ہے ۔

رہا ان کا قیاس تو وہ سجدہ سہو کے باعث باطل ہوتا ہے  کیونکہ یہ ان کے ہاں وجب نہیں ہے ۔( المغنی، ۱/۶۵۲)

ادھر ماوردی نے اس نظرئے پر استدلال کرتے ہوئے کہا ہے :ہماری  دلیل  عطا بن  یسار کی روایت ہے جو زید بن ثابت سے منقول ہے ۔اس روایت کی رو سے زید نے رسول اللہﷺ کے  پاس سورہ نجم  پڑھا  لیکن  سجدہ نہیں کیا ۔ اگر سجدہ  واجب ہوتا تو رسول اللہﷺ سجدہ فرماتے اور زید کو بھی اس کا حکم دیتے ۔مروی ہے کہ  ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے پاس آیت ِسجدہ پڑھی اور سجدہ کیا ۔ایک اور شخص نے اسے پڑھا اور سجدہ نہیں کیا  فرمایا : توہمارا امام  تھا۔ اگر توسجدہ کرتا تو ہم بھی سجدہ کرتے ۔یہ حدیث دو دلیلوں پر مشتمل ہے :

الف ۔ آنحضرت ﷺنے  اسے سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے ترکِ  سجدہ کی تائید فرمائی  ۔

ب۔ آپ نے فرمایا ::لوسجدت لسجدنا ۔ یعنی اگر تو سجدہ کرتا تو ہم بھی سجدہ کرتے ۔ یہ متابعت اور اختیار پر دلالت کرتا ہے ۔

شافعی روایت کرتے ہیں  کہ حضرت عمر بن خطاب نے جمعہ کے دن  منبر سے آیت سجدہ کی تلاوت کی  اور سجدہ کیا ۔ دوسرے جمعے کو انہوں نے پھر آیت سجدہ پڑھی اور لوگ سجدہ کرنے کے لئے  آمادہ ہوئے تو حضرت عمر نے کہا : لوگو!  ذرا صبر کرو  ۔اللہ تعالی  نے اسے ہمارے اوپر لازم قرار نہیں دیا ہے مگر یہ کہ ہم خود چاہیں  ۔

شافعی  روایت کرتے ہیں کہ  موصوف نے کہا : جو سجدہ کرے اس نے اچھا کیا لیکن جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔مہاجرین و انصار   کے بڑے اجتماع میں حضرت عمر کا  یہ کہنا اور لوگوں کی طرف سے اس بات کی عدم مخالفت اس بات کی دلیل ہے کہ اس سجدے کے واجب نہ ہونے پر ان سب کا اتفاق تھا ۔

علاوہ ازیں یہ وہ سجدہ ہے  جس کی بجاآوری  سواری پر بیٹھے ہوئے مسافر پر بھی  دوران حرکت واجب ہوتی ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ   نافلہ کے سجدوں کی طرح بنیادی طور پر واجب  نہ ہو کیونکہ یہ نماز ہی واجب نہیں ہے ۔

پس  یہ ضروری ہوا کہ اس کے  سجدے  بنیادی طور پر واجب  نہ ہوں  جب  اس آیت کا  اعادہ کیا جائے ۔پس جب  دوبارہ تلاوت کی صورت میں  سجدہ واجب  نہ ہوتو  ابتدائی تلاوت کی  صورت میں بھی واجب  نہیں ہونا چاہیے۔  اس کی مثال طہارت ہے ۔ علاوہ ازیں  ہر وہ سجدہ جس کے ترک کرنے سے نماز  باطل نہیں ہوتی وہ مسنون ہے جیساکہ سجدہ سہو  کا حال ہے ۔

رہا اللہ  کا یہ  فرمان :

واذا قرئ علیہم القرآن لایسجدون (انشقاق/۲۱)

( اور جب  انہیں  قرآن پڑھ کر سنایا  جاتا ہے تو  وہ سجدہ  نہیں کرتے ) تو اس  سے مراد کفار ہیں  کیونکہ اس کے بعد  جس سزا کی وعید  سنائی گئی ہے  اس کے مستحق وہ لوگ  نہیں ہوسکتے  جو سجدہ  تلاوت  ترک کریں  ۔

اس آیت میں  لایسجدون  (وہ سجدہ نہیں کرتے ) سے مراد  ہے :لایعتقدون   

(یعنی وہ  اعتقاد  و ایمان   نہیں رکھتے )  ۔

چنانچہ اس کے بعد  اللہ  فرماتا ہے : 

بل الذین کفروا یکذبون۔  (انشقاق/۲۲ )

(کفر اختیار کرنے  والے  حق کو  جھٹلاتے ہیں۔)

رہا ان کا قیاس  تووہ سجدۂ سہو کے باعث  باطل ہے  کیونکہ  نماز کے سجدوں  سے مراد  مخصوص مقامات پر  ترتیب سے بجالائے جانے  والے سجدے ہیں۔( الحاوی الکبیر ۲/۲۰۰۔۲۰۱)

 یہ تھا تلاوت کے سجدوں  کے بارے میں  اہل سنت کا نظریہ ۔

رہا یہ مسئلہ کہ نماز میں  آیاتِ  سجدہ خاص کر عزائم  اربعہ (چار سورتیں جن میں  واجب سجدے ہیں ) پڑھنے  کا کیا حکم ہے؟ تو واضح ہو کہ یہ ان کے نزدیک  جائز ہے اور وہ اسے مسلمات میں شمار کرتے ہیں  البتہ  ان کے ہاں  جماعت کی نماز  اور فرادی نماز  کے درمیان  اس  مسئلے  کے احکام  کے بارے  میں  فرق  پایا  جاتا ہے ۔

 

 

 

تمت بالخیر ۔جامعۃ النجف سکردو۔  ۱۵۔۱۲۔ ۲۰۱۷

نام کتاب:نماز میں  سجدے والی سورتوں  کو پڑھنے کا مسئلہ

مولف :حجۃ الاسلام شیخ عبد الکریم بہبہانی۔ تحقیقی کمیٹی 

مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی،نظرثانی: حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین

کمپوزنگ: حجۃ الاسلام شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت  علیہم السلام

جملہ حقوق محفوظ ہیں