نماز میں سجدے والی سورتوں کو پڑھنے کا مسئلہ(قسط نمبر-۲)

نام کتاب:نماز میں سجدے والی سورتوں کو پڑھنے کا مسئلہ(قسط نمبر-۲)

مکتب اہل بیت  کا نظریہ اور ان کے دلائل

زیر بحث مسئلے کے بارےمیں امامیہ مکتب فکر نے جن دلائل سے استفادہ کیا ہے  انہیں ہم ان کے معروف مآخذ سے یکے بعد دیگرے  نقل کریں گے۔

یہاں  ہم مکتب  امامیہ  کے خاص دلائل  یعنی  اس مسئلے کے بارے میں ائمہ اہل بیت  علیہم السلام  سے مروی روایات  کا ذکر نہیں کریں گے ۔

سید مرتضی الانتصار میں  فرماتے ہیں : اس( نماز میں سجدے والی سورتوں کے پڑھنے) کی ممنوعیت  کی وجہ  اولاً  اجماع ِ متکرر ہے ۔ثانیاً  یہ ہے کہ ان سورتوں  میں سے ہر ایک  کے اندر  قطعی واجب سجدوں  والی آیات ہیں  ۔پس اگر کوئی (نماز  میں )  سجدہ کرے تو اس  کا سجدہ   زائد فعل محسوب ہوگا اور اگر سجدہ نہ کرے تو وہ واجب کو ترک کرنے کا مرتکب ہوگا ۔( الانتصار/۱۴۶)

شیخ طوسی  نماز میں عزائم  (سجدے والی سورتوں ) کو پڑھنے کی ممانعت کے بارے میں  اپنی کتاب  الخلاف میں فرماتے ہیں  : ہماری دلیل ہمارے مذہب  کا اجماع  اور ہماری احادیث ہیں ۔ علاوہ ازیں  نماز  کا ہمارے  ذمے واجب ہونا یقینی امر  ہے اورہم بری الذمہ  تب ہوسکتے ہیں  جب ہمیں بری الذمہ ہونے کا یقین حاصل ہوجائے ۔یہ یقین تب حاصل ہوسکتا ہے جب  سجدے والی  سورتیں  نہ پڑھی جائیں۔( الخلاف۱/۴۲۶،مطبوعۃ جماعۃ المدرسین،قم)

شیخ طوسی نے سجدے والی سورتوں  کو پڑھنے کی صورت میں سجدے  کے واجب ہونے پر  کئی دلائل  سے استدلال کیا ہے ۔ ان کی پہلی دلیل  مذہب اہل بیت کا اجماع ہے کیونکہ اس بارے میں ان کے درمیان  کوئی اختلاف موجود  نہیں ہے ۔( الخلاف۱/۴۳۱،مطبوعہ جماعۃ المدرسین ،قم)

علامہ حلی  نماز میں  سجدے والی  سورتوں کی قرائت  کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہوئے اپنی کتاب التذکرہ میں  فرماتے ہیں :

اس کی وجہ  یہ ہے کہ  تلاوت  کا سجدہ واجب  ہے جبکہ زائد سجدے سے نماز  باطل ہوتی ہے اور اہل سنت   کا اتفاق  ہے کہ نماز میں  سجدے والی  سورتیں  پڑھنا قاعدے کی رو سے جائز ہے حالانکہ  قاعدہ اس وقت حجت ہے  جب  اس کے مقابلے میں  کوئی دلیل موجود  نہ ہو۔( التذکرۃ،۳/۱۴۶)

صاحب جواہر نے  اس پر اضافہ کرتے ہوئے  کہا ہے : اللہ کے قول : وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ  وغیرہ  سے ثابت ہوتا ہے کہ تلاوت کے سجدے واجب  ہیں  کیونکہ  یہاں آیات سجدہ  کی تلاوت کے باوجود  سجدہ نہ کرنے  کی مذمت ہوئی ہے  جبکہ  اجماع  وغیرہ کی رو سے مذکورہ چار سورتوں  کے علاوہ کہیں  سجدہ واجب نہیں ہے ۔( جواہر الکلام،۱۰/۲۱۴،مطبوعہ: النجف الاشرف)

واضح ہے کہ  امامیہ مذہب  کا یہ نقطۂ نظر  دو تمہیدی   نکات   پر مبنی ہے  :

پہلا نکتہ : سجدے والی   چارسورتوں  میں آیات   سجدہ پڑھنے سے سجدہ  واجب  ہوجاتا ہے ۔

دوسرا نکتہ : نماز میں  اس سجدے کے بجالانے  سے نماز باطل  ہوجاتی ہے  کیونکہ  یہ سجدہ  اصل نماز  کی ماہیت سے خارج ہے ۔ ظاہر ہے نمازی کی ذمہ داری ہے کہ صحیح  نماز پڑھے اور نماز کے دوران اسے کسی اضافی  یا خارجی  عمل کے ذریعے  باطل  نہ کرے ۔اس کا لازمہ یہ ہے کہ سجدہ ٔ تلاوت جیسا عمل  نماز کے دوران جائز  نہ ہو کیونکہ اس سے مقصد  کا فوت  ہوجانا اظہر من الشمس  ہے ۔

ان دو تمہیدی  باتوں  سے مجموعی  طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے  کہ نماز میں  سجدے والی  سورتوں  کا پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ پہلے تمہیدی نکتے (آیتِ سجدہ پڑھنے سے سجدے کے واجب ہونے)میں فقہ حنفی اور فقہ  جفریہ کے درمیان  ہماہنگی پائی جاتی ہے ۔ البتہ حنفی تمام آیات سجدہ کے لئے سجدے کو واجب قرار دیتے ہیں ۔

دوسرے  نکتے میں  احناف نے مکتب امامیہ  کی مخالفت کی ہے جبکہ باقی اہل سنت  نے دونوں  باتوں  (آیت سجدہ پڑھنے  سے سجدے کے واجب  ہونے  اور نماز  میں  تلاوت  کا سجدہ کرنے سے نماز کے باطل ہونے ) میں  مکتب  امامیہ کی مخالفت کی ہے ۔

اگرچہ احناف اور دیگر سنی  مکاتب  فکر  کی اکثریت نے ان دونوں  باتوں  میں  اپنی مخالفت کے حق میں  دلائل  پیش کیے ہیں لیکن  دقیق علمی  جائزے سے معلوم  ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا  دونوں  تمہیدی نکات درست  ہیں  اور ان پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں  وہ صحیح نہیں  ہیں ۔

پہلے تمہیدی نکتے (آیتِ سجدہ پڑھنے سے سجدہ واجب  ہونے  ) کی مخالفت  میں انہوں نے درج ذیل دلائل سے استدلال  کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سجدۂ تلاوت سرے سے واجب نہیں  ہے  ۔

پہلی دلیل : آیت کریمہ  : وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ سجدہ ٔتلاوت کے وجوب  پر دلالت نہیں  کرتی ۔

دوسری دلیل : عطا بن یسار کی روایت ۔

تیسری دلیل : ایک شخص کی رسول  اللہﷺ سے روایت کردہ حدیث۔

چوتھی دلیل: حضرت عمر بن خطاب سے منقول روایت جو سجدۂ تلاوت کے عدم ِوجوب پر صحابہ کے اجماع  کی آئینہ دار ہے ۔

پانچویں دلیل:ہر وہ سجدہ جس سے نماز نہ ٹوٹے وہ واجب نہیں بلکہ مسنون ہے۔

چھٹی دلیل : سواری پر بیٹھا ہوا  مسافر  نیچے اتر نے پر قادر ہونے کے باوجود  سواری کی پشت پر سجدہ تلاوت کرسکتا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب  ہے ۔

یہ وہ دلائل اور وجوہ  ہیں  جن کے ذریعے اہل سنت کی اکثریت نے سجدہ ٔتلاوت کے واجب  نہ ہونے پر استدلال کیا ہے ۔یہاں ہم  ان کا تحقیقی جائزہ  لیں گے تاکہ ان  دلائل کی حقیقت  کھل کر سامنے آئے ۔

پہلی دلیل کا جائزہ : پہلی دلیل میں  کہاگیا تھا   کہ مذکورہ  آیت  وجوب ِ سجدہ پر دلالت نہیں   کرتی   کیونکہ  اس آیت کے مخاطَب  کفار  ہیں  ۔

یہ دلیل معقول اور درست نہیں  کیونکہ  آیات سے  استنباط  کرتے وقت  لفظ  کی عمومیت  کو دیکھا جاتا ہے  نہ کہ سبب  کے خاص ہونے  کو جیسا کہ  مفسرین  فرماتے ہیں  ۔ ادھر علم اصول  کے ماہرین  کہتے ہیں  کہ شان  نزول   نازل ہونے والے بیان کے دائرے کو محدود نہیں بناتی ۔پس  اس آیت کے مخاطَب  مومن  اور کافر  سبھی ہیں  ۔

اس  کی وجہ یہ ہے کہ  اس آیت میں  ایمان  اور تصدیق سے قطع نظر  سجدے کے لائق چیز پر سجدہ نہ کرنے کی مذمت کی گئی ہے ۔یہ چیز قرآن  کریم    کی تلاوت ہے ۔واضح ہے  کہ  یہ قباحت  اس وقت زیادہ شدید ہوجاتی ہے  جب  تکبر اور انکار  کی خاطر سجدہ  نہ کیا جائے ۔اس وجہ  سے کفار  اس آیت کے  پہلے  مخاطَب  ٹھہریں گے   جبکہ اس کے حقیقی مخاطب  کافر اور مومن   دونوں ہیں  کیونکہ یہ بات  واضح  ہے  کہ صرف مومن  کا سجدہ درست ہے اور یہ معقول نہیں ہے کہ  آیت کریمہ کفار  پر یہ اعتراض  کرے کہ وہ  کفر و عناد   میں مبتلا ہونے کے باوجود  کتاب الہی  کی تلاوت  کے وقت  سجدہ  کیوں نہیں کرتے ؟

آیت کریمہ اس  بات  پر  کفار کی مذمت کرتی ہے  کہ وہ  اللہ کی ان نشانیوں  اور آیات   پر ایمان  نہیں لاتے جو انسان  سے صرف ایمان  کا تقاضا  نہیں کرتیں  بلکہ ایمان  لانے کے بعد  ان کی تلاوت پر سجدہ کرنے کی بھی متقاضی  ہیں ۔

اسی لئے آیت  میں پہلے ایمان  نہ لانے کی مذمت  کی گئی ہے  اور آخر میں  سجدہ نہ کرنے کی مذمت  عمل  میں آئی ہے : فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ ٱلْقُرْءَانُ لَا يَسْجُدُونَ؟ (انشقاق/۲۰۔۲۱)

 (یہ لوگ  ایمان کیوں نہیں لاتے   اور جب انہیں  قرآن  پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو  وہ سجدہ کیوں  نہیں کرتے ؟)

 پس یہ  آیت کفار سے یہ تقاضا  کرتی ہے کہ وہ  پہلے ایمان  ،یقین  اور تسلیم کا راستہ اپنائیں  اور اس کے بعد  آیات قِرآنی کی تلاوت  کے وقت سجدہ ریز ہوجائیں ۔

یہی حکم دیگر مومنین کے لئے بھی ہے ۔

چونکہ اس بات پر اجماع قائم ہے کہ قرآن   کی تمام  آیات کی تلاوت پر سجدہ واجب  نہیں  اس لئے  مذکورہ  آیت اور اس اجماع   کو باہم  جمع کرتے  ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ صرف بعض مخصوص آیات  کی تلاوت کی صورت میں  سجدہ واجب  ہے  ۔یہ وہ آیات ہیں  جن میں  سجدے کا حکم  پایا  جاتا ہے  ۔ پس ان آیات ِ سجدہ  کی تلاوت  پر سجدے  کا وجوب  واضح ہے اور ہر قسم کے شک و شبہ  اور اجمال سے پاک  ہے ۔

رہی  عطا بن  یسار   کی روایت   جو زید بن ثابت سے منقول  ہے  تو اسے بخاری اور مسلم  نے  صحیحین میں  نقل کیا ہے ۔بخاری  نے اسے ابن قسیط  سے  نقل کیا ہے  ۔

روایت کی رو سے عطاء  نے ابن قسیط  کو بتایا  کہ عطا  نے زید بن ثابت سے سوال کیا  تو اس کا خیال تھا  کہ اس نے  نبیﷺ  کو سورۂ  والنجم پڑھ کر سنایالیکن  آپ نے  سجدہ نہیں کیا  ۔ ( دیکھیےصحیح بخاری ،ج۲،ص۳۲،مطبوعہ دار الفکر)

صحیح مسلم  میں ابن قسیط سے مروی ہے کہ عطا نے اس سے کہا  کہ اس نے زید بن ثابت   سے امام کے  ساتھ قرائت  کرنے کے بارے میں  پوچھا تو زید  نے کہا : امام  کے ہمراہ  کسی قرائت  کی گنجائش  نہیں  ۔اس کا خیال تھا کہ اس نے  رسولﷺ کو سورۂ والنجم اذا ھویٰ پڑھ  کرسنایا   لیکن   آپ نے سجدہ  نہیں کیا  ۔( دیکھیےصحیح مسلم  ،ج۲،ص ۸۸،مطبوعہ دارالفکر)

یہ روایت  ہمیں  رسولﷺ کی عملی  سیرت  بتاتی ہے ۔

ادھر ایک اور روایت ہے جو ہمیں  رسولﷺ  کی  ایک اور عملی سیرت  دکھاتی ہے  اور کہتی ہے  کہ آنحضرت نے  سورۂ والنجم کی تلاوت  پر  سجدہ فرمایا تھا ۔ اسے عبد اللہ  بن عمر  نے نقل کیا ہے ۔ بخاری نے اپنی صحیح  کے باب  سجدۃ النجم  میں  اس کا ذکر کیا ہے ۔

( صحیح بخاری ،ج۲،ص۳۲،مطبوعہ دار الفکر)

معروف یہ ہے کہ رسول ﷺکی عملی سیرت مجمل اور مبہم ہے جس سے  نہ وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے  نہ استحباب پر۔  اس سے صرف جواز پر استدلال کیا  جا سکتا ہے ۔ پس جس طرح عبداللہ بن عمر کی روایت  سے وجوب  ثابت نہیں ہوتا (کیونکہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  استحباب کی خاطر سجدہ کیا تھا)  اسی طرح عطا  بن یسار  کی روایت سے عدمِ وجوب  ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس بات کااحتمال موجود  ہے کہ  آنحضرتﷺ  نے بعد  میں  سجدہ کیا ہو ۔ پھر یہ بات بھی مدنظر  رہے کہ  عطا نے زید بن  ثابت  کا جواب نقل کرتے ہوئےکہا ہے کہ زید کا خیال تھا (کہ نبی نے سجدہ  نہیں کیا )۔ یہ اس کلام کے بارے میں کہا جاتا ہے جویقین کے ساتھ ثابت نہ ہو۔بنا بر یں یہ صرف ایک دعوے اور گمان سے عبارت ہوگا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عطا کو زید کی بات پر شک تھا ۔رہی الحاوی الکبیر  میں اس شخص سے منقول روایت جس سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا: ’’اگر تو سجدہ کرتا تو ہم بھی سجدہ کرتے ‘‘ تو وہ مرسلہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں جیسا کہ واضح ہے ۔رہا اس  مسئلے (سجدۂ تلاوت کے عدمِ وجوب کے بارے )میں صحابہ کے اجماع کا دعویٰ جو حضرت عمر کے کلام اور صحابہ کی خاموشی سے ہاتھ  آتا ہے اور جس کا  ذکر

صحیح بخاری (دیکھیےصحیح بخاری ، ۲/ ۳۳۔۳۴،مطبوعہ دار الفکر)اور سنن بیہقی(دیکھیےسنن بیہقی ،۲/۳۲۰،ابواب سجود التلاوۃ ،باب من لم یرَ وجوب سجدۃ التلاوۃ) میں ہوا   ہے تو واضح ہو کہ اگر یہ اجماع  درست  ہو تو اس کا  تعلق بطور خاص سورہ نحل کی آیت ۴۹اور۵۰کے ساتھ ہی ہوگاکیونکہ صحیح بخاری میں یہ مذکور ہے کہ  حضرت عمر نے مذکورہ دو جمعوں میں تلاوت کی تھی اور پہلے جمعے میں سجدہ کیا تھا جبکہ دوسرے جمعے میں لوگوں کو سجدہ کرنے سے روکا تھا  ۔

ادھر مذاہب   کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ قرآن کریم  میں سجدے  کے مقامات  اور  ان کی تعداد  کیا ہیں  ۔مکتب اہل بیت  کے ہاں  قرآن کی ہر اس آیت پر سجدہ  واجب  نہیں ہے جس میں  سجدے کا حکم  دیا گیا ہو  یا حکم  کا  مفہوم  موجود ہو۔  فقہ جعفریہ کی رو سے  صرف  چار مقامات پر سجدہ واجب ہے  اور دیگر  موارد  میں  واجب نہیں ہے ۔وہ چار  مقامات   سورہ  سجدہ ،سورہ نجم ، سورہ علق اور سورہ  فصلت   کی آیات ِسجدہ  ہیں  ۔اس کے برخلاف  احناف کا نظریہ   ہے کہ  ہر آیت ِسجدہ پر تلاوت  کرنا  واجب ہے ۔اسی لیے  ان کے ہاں چودہ  مقامات  پر سجدہ  واجب ہے ۔

( دیکھیےالفقہ علی المذاہب الاربعۃ و مذہب اہل البیت،ج۱/ ۶۰۵)

ان کے علاوہ باقی گیارہ مقامات پر سجدہ مستحب  ہے جن  میں سے ایک سورۂ نحل کی آیتِ سجدہ ہے ۔

پس صحابہ کا یہ اجماع  اس بات کے منافی  نہیں ہے کہ تلاوت کے سجدے واجب ہوں  ۔اس اجماع سے صرف یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم   کی مذکورہ  آیت  پر سجدہ مستحب  ہے ۔اس سے مکتب اہل بیت  کے موقف  کی تائید  ہوتی ہے ۔

رہا اہل سنت  کا یہ قول کہ ہر وہ سجدہ مسنون  اور مستحب  ہے جس کو  ترک کرنے سے نماز باطل  نہ ہو تو   یہ بات نماز کے سجدوں  کی حد تک درست  ہے لیکن  اس حکم  کو تلاوت کے  سجدوں پر منطبق کرنا  قیاس ہے جبکہ قیاس  مکتب اہل بیت کے علاوہ  اہلِ سنت کے بعض  مکاتبِ فکر کے ہاں  بھی باطل ہے یہاں تک  کہ جو لوگ  قیاس  کو درست  سمجھتے ہیں  ان کی نظر میں  بھی تلاوت کے سجدے کا نماز کے سجدوں  پر قیاس  کرنا باطل ہے ۔

( دیکھیےعمدۃ القاری ،۷/۹۶،مطبوعہ دارالفکر)

سجدۂ تلاوت کے عدم  وجوب کے حامیوں  کی  چھٹی دلیل   یہ تھی کہ مسافر سواری کے اوپر بیٹھ کر اشارے سے سجدہ  ٔ تلاوت کرسکتا ہے اور  نیچے اتر کر سجدہ کرنا ضروری نہیں  جو اس  سجدے کے مستحب ہونے  پر دلالت کرتا ہے  ۔

اس کا جواب یہ ہےکہ  آپ کی دلیل  سے استحباب ثابت نہیں ہوتا  کیونکہ  ہر فریضے  کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں  اورعین ممکن ہے  کہ سجدۂ تلاوت  کو بھی اس قسم کی خصوصیت  حاصل ہو ۔اگر معترض  کی بات  درست  ہو تو یہ بھی ماننا پڑے گا  کہ نماز  جنازہ مستحب ہے کیونکہ  نماز جنازہ میں  نہ کوئی رکوع ہے نہ سجدہ ۔

ادھر ماوردی نے سجدۂ  تلاوت کے عدمِ وجوب  کے حق میں  کہا تھا : یہ اصل میں  نافلے  کا سجدہ ہے  اور یہ غیر واجب  نماز ہے ۔پس اس کے سجدوں   کا  بنیادی طور پر  واجب نہ ہونا  ضروری ہے،  جب  وہ اس  آیت کو دھرائے ۔چونکہ دہرانے کی صورت میں  سجدہ واجب  نہیں ہے اس لئے ابتدائی  تلاوت  پر بھی سجدہ واجب  نہیں ہے ۔ ماوردی  کے اس  کلام سے  کوئی معقول مفہوم  اور واضح معنی سمجھ میں  نہیں آتا ۔

اس بات کا مفہوم کیا ہے کہ سجدۂ تلاوت دراصل نافلے کا سجدہ ہے اور نافلے کے سجدے  غیر واجب  نماز  ہیں ؟

یاد رہے کہ  نافلہ یا مستحب  نماز  اگرچہ بذات خود   واجب نہیں  لیکن  اگر  اس میں  کسی رکن مثلا ً  رکوع  یا سجود   کی کمی  واقع  ہوتو  وہ باطل ہوجاتی ہے  ۔اس صورت میں اسے  نماز  نہیں  کہا جاسکتا  اور یہ  کہنے کی نوبت  ہی نہیں آتی  کہ اس کے سجدے  غیرواجب ہیں ۔

پس نماز  کے ارکان  کی بجاآوری  ضروری ہے تاکہ  نمازی  کو اس   کا ثواب  ملے  ۔اگر کوئی  شخص  نماز  کے کسی رکن   مثلاً سجدے کو بجا نہ لائے  تو یہ  اصل نافلہ کو  انجام  نہ دینے  کے مترادف  ہے ۔ایسا شخص نہ گنہگار  محسوب ہوگا کیونکہ نافلہ واجب  نہیں ہے اور نہ ثواب کا حقدار ہوگا کیونکہ وہ اس شخص کی طرح  ہے جس نے کوئی نماز ہی نہیں پڑھی ہو ۔

پھر ماوردی  کے قول :’’جب وہ اس آیت کو دہرائے  ‘‘(دیکھئے ماوردی کی الحاوی الکبیر۳/ ۲۰۱ ،کتاب الصلاۃ ،باب  صفۃ الصلاۃ و عدد سجود القرآن)کا  بھی کوئی مطلب  نہیں بنتا کیونکہ کوئی شخص یہ دعویٰ  نہیں  کرتا کہ تلاوت کا سجدہ آیت کے تکرار کی صورت میں واجب ہوتا ہے ۔ جوبھی اس  سجدے کے وجوب  یا استحباب کا قائل ہے وہ آیت کی تلاوت  کو اس کی شرط قرار دیتا ہے ، تکرار  کو نہیں  ۔

یوں تلاوت کے سجدے کے عدم وجوب پر دئے جانے والے دلائل کا باطل ہونا اور سجدے کے وجوب پر مذکورہ آیت کی دلالت واضح اور  کامل  ہیں۔  اس  آیت کی تائید  حضرت عثمان بن عفان کےقول  سے بھی ہوتی ہے جسے بخاری  نے نقل کیا ہے ۔

روایت کی رو سے حضرت عثمان کا بیان ہے :  سجدہ اتو س شخص پر واجب ہے جو اسے سنے ۔( دیکھیےصحیح بخاری ،۲/ ۳۳)

ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب  المصنف  میں  نقل کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا : سجدہ اس پر واجب ہے جو اسے (آیت ِسجدہ کو)  سنے ۔( دیکھئے ابن ابی شیبہ کی المصنف،۱ ۴۵۷)

عینی نے  صحیح بخاری کی شرح میں  سجدۂ تلاوت کے وجوب پر دیگر دلائل کا بھی ذکر کیا ہے  جو درج ذیل ہیں :

ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے کہ حفص نے حجاج سے اور اس نے ابراہیم  ،نافع اور سعید بن جبیر  سے روایت کی ہے کہ انہوں نے  کہا : جو آیت ِسجدہ سنے اس پر سجدہ کرنا واجب  ہے ۔

نیز  صحیح  سند  کے ساتھ ابراہیم  سے نقل کیا ہے کہ جو شخص نماز  کی حالت  میں آیت ِسجدہ سنے اسے سجدہ کرنا چاہیے ۔

علاوہ ازیں  (ابن ابی شیبہ نے) شعبی سے روایت کی ہے  کہ جب عبد اللہ  کے ساتھی آیتِ سجدہ  سنتے تھے تو سجدہ  کرتے تھے خواہ وہ نماز میں  مشغول ہوں یا کسی اور کام میں ۔

شعبہ کہتا ہے : میں نے حماد سے اس شخص کے بارے میں  پوچھا جو نماز  کی حالت میں آیتِ سجدہ  سنے ۔حماد  نے کہا : وہ سجدہ کرے گا ۔حکم نے بھی  اسی طرح  کہا ہے ۔

ہشیم  نے ہم سے کہا : مغیرہ نے ہمیں  خبردی کہ ابراہیم  جنابت کی حالت میں آیت ِسجدہ سننے والے  کے بارے میں  کہتا تھا کہ  وہ غسل کرے گا پھر اسے پڑھے گا اور سجدہ کرے گا  ۔اگر وہ اسے اچھی طرح  نہ پڑھ سکتا ہو تو کچھ اور پڑھے  پھر سجدہ کرے  ۔

حفص نے ہم سے نقل کیا  کہ  حجاج نے فضیل  سے اور اس نے  ابراہیم  ،حماد اور سعید بن جبیر سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا : جب  مجنب  آیتِ سجدہ   سنے تو  اسے چاہیے کہ غسل کرے پھر سجدہ کرے  ۔

عبید اللہ  بن موسی نے ہمیں  خبر دی کہ ابان عطار  نے قتادہ سے اور اس نے  سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان  نے حیض کی حالت میں آیتِ سجدہ سننے والی عورت کے بارے میں  کہا :

وہ اپنے  سر کے ذریعے اشارہ کرے گی  اور کہے گی  : اللّٰھم لک سجدتُ ۔

مروی ہے کہ حسن  نے ایک ایسے شخص کے بارے میں  جو نماز کی ابتدا میں  سجدہ کرنا  بھول  جائے اور آخری رکعت میں اسے یاد آجائے  کہا : وہ اس رکعت میں تین  سجدے کرے گا ۔اگر اسے پھر بھی یاد  نہ آئے یہاں تک  کہ اس  کی نماز ختم ہو  جائے لیکن  ہنوز اس  نے سلام  نہ کہا ہو تو اگر اس  نے بات نہ کی ہو تو ایک سجدہ کرے لیکن اگر بات کی ہو تو نماز کو دہرائے ۔

ابراہیم سے مروی ہے کہ  جب نمازی سجدہ بھول جائے  تو وہ  نماز میں  جہاں یاد آئے سجدہ کرے ۔

مجاہد  سے  ایک ایسے نمازی کے بارے میں سوال ہوا جسے بیٹھے ہوئے شک ہوجائے کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے   یا نہیں  ۔مجاہد نے کہا :  اگر تو چاہے تو   اس  سجدے کو  بجالااور جب تو نماز  ختم  کرے تو بیٹھ  کر دو سجدے بجا لا اور اگر  تو چاہے تو (نماز میں )  اس سجدے کو انجام  نہ دے لیکن جب تیری نماز ختم ہوجائے تو  بیٹھ کر دو سجدے بجا لا ۔( دیکھیےعمدۃ القاری ،۷/ ۹۵،مطبوعہ دار الفکر ۔)

یہاں ہم  پہلے تمہیدی  نکتے  (واجب  سجدوں  والی آیات پڑھنے کی صورت میں  سجدۂ تلاوت کے واجب ہونے ) کے بارے میں  اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں۔

اب  ہم  دوسرے تمہیدی نکتے کی طرف  آتے ہیں  جو اس بات سے عبارت ہے کہ نماز  میں سجدۂ تلاوت بجالانے سے نماز باطل ہوتی ہے۔ یہ  روز روشن کی طرح  واضح ہے کیونکہ  جب نمازی اپنے اختیار سے واجب  سجدے والی سورت پڑھتا ہے تو وہ اس سجدے کو اپنی مرضی سے اپنے اوپر لازم قرار دیتا ہے ۔یوں  وہ نماز کی ماہیت سے خارج ایک اضافی عمل  انجام  دیتا ہے جبکہ فقہائے اسلام  کا فیصلہ ہے کہ نماز کے اندر اضافی فعلِ کثیر  انجام دینے سے نماز باطل  ہوجاتی ہے۔  جزری  اپنی کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ  میں رقمطراز ہیں  : اس عمل کثیر سے نماز  باطل ہوتی ہے  جو نماز  کی ساخت سے بیگانہ ہو ۔

اس سے مراد  نمازی کا ہر وہ فعل  ہے جسے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ نمازی  مشغول ِنماز نہیں ہے ۔ اگر نمازی ایسا عمل انجام دے  جو نماز کی  مطلوبہ کیفیت  سے زائد ہو  مثلا  زائد رکوع  اور سجود  انجام دے  تو اگر اس  نے عمداً   ایسا کیا ہے تو نماز  باطل ہے  خواہ وہ  عمل قلیل  ہو یا کثیر۔  لیکن  اگر سہواً  انجام دے تو نماز  مطلقا  باطل نہیں  ہوتی ۔( دیکھیےالفقہ علی المذاہب الاربعہ  و مذہب اہل البیت ،۱/۴۳۰ نیز دیکھئے شیخ محمد جواد مغنیہ کی  الفقہ علی المذاہب الخمسہ ،ص۱۴۵)

اسی لئے شافعی کہتے ہیں  کہ اگر  نمازی  نماز میں  اس ارادے سے آیاتِ سجدہ پڑھے کہ وہ سجدۂ  تلاوت کرے گا  تو اس کی  نماز باطل  ہے ۔( دیکھیےالفقہ علی المذاہب الاربعہ  و مذہب اہل البیت ۱/۶۰۲)

یہ فقہ جعفریہ کے  قول  کے قریب ہے  ۔سید کاظم  یزدی رضوان اللہ  علیہ  اپنی کتاب العروۃ الوثقی  میں کہتے ہیں  : نماز میں سجدہ والی سورتوں  میں سے کسی  کو پڑھنا جائز  نہیں ہے  ۔اگر کوئی عمداً   اسے  پڑھے تو  وہ اپنی نماز  دوبارہ پڑھے  گا ۔( دیکھیےالعروۃ الوثقیٰ ،۱/ ۶۴۴، فصل ۲۴ ،فی القراءۃ)

البتہ ان دو اقوال میں  دو زاویوں  سے فرق پایا جاتا ہے جو یہ ہیں :

پہلا زاویہ :  شافعی اس شخص کی نماز  کوباطل  قرار دیتے ہیں  جو سجدۂ تلاوت  کرنے  کی  نیت سے آیتِ سجدہ پڑھے  جبکہ شیعہ فقہاء  اس شخص کی  نماز کو باطل  سمجھتے ہیں   جو عمداً  سجدے والی سورت پڑھے  یعنی وہ  اس  کے حکم سے  لاعلم  نہ ہو  اور  اسے بھولا بھی  نہ ہو  بلکہ  علم  اور توجہ  کے باوجود   جان بوجھ کر  اسے پڑھے  اگرچہ  وہ سجدہ ٔتلاوت  کا ارادہ  نہ رکھتا ہو  ۔

دوسرا زاویہ :  فقہ شافعی  کی نظر میں   اس شخص  کی نماز باطل  ہے جو  عمداً  سجدۂ تلاوت کرے  ۔اگر کوئی سجدۂ تلاوت  نہ کرے تو  کوئی حرج نہیں  ہوگا  ۔

اس صورت میں  مکتب ِامامیہ  اور مکتبِ  شافعیہ کے درمیان  نماز  کی درستی  کے حکم  میں   اتفاق نظر  ہوگا  لیکن  ان کی نظر میں  وہ نمازی گنہگار ہوگا  ہاں  بعض شیعہ فقہاء  کی نظر میں  احتیاط واجب  کے طور پر (دیکھئے سید خوئی  کی منہاج الصالحین ،۱/ ۱۶۴)اور بعض کی نظر  میں  بطور  استحباب  نماز کو دہرانا  ہوگا ۔( دیکھئے سید سیستانی کی منہاج الصالحین ،۱/۲۰۶)

اس مسئلے میں احناف کی مخالفت بہت عجیب ہے  کیونکہ  جو شخص نماز میں  آیتِ سجدہ پڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو  دو باتوں  کے درمیان  پھنسا لیتا ہے جو آپس میں  تزاحم  رکھتی ہیں  ۔وہ یہ ہیں  :

 الف ۔ نماز کو باطل  کیے بغیر مکمل کرنے کا وجوب ۔

ب۔ نماز کے دوران  سجدۂ  تلاوت کی فوری بجاآوری ۔

پس  جب احناف  یہ بات تسلیم  کرتے ہیں  کہ تلاوت کا سجدہ واجب ہے تو وہ نماز میں  آیت ِسجدہ کی تلاوت کو کیسے جائز قرار دیتے ہیں  جو نماز  کو باطل کرنے پر منتج ہوتا ہے؟ کیا نماز میں آیت سجدہ پڑھنا مصلی کی طرف سے نماز کو باطل  کرنے کا  عملی  اقدام  نہیں  ہے ؟ کیا نمازی اس حکم  کا پابند نہیں ہے کہ  وہ اپنی نماز  کو باطل نہ کرے ؟  احناف کا یہ  نظریہ احکام شریعت کے درمیان  تزاحم اورٹکراؤ  پر منتج ہوتا ہے  ۔یہ امر  ان کے فقہی  موقف میں واضح  خلل کا آئینہ دار ہے ۔

واضح ہے کہ یہ  تزاحم اور ٹکراؤ  فقہ حنفی ( جو نماز  کے دوران  سجدۂ تلاوت کو  واجب  قرار دیتا ہے )  کے دائرے تک محدود نہیں رہتا  بلکہ اہل سنت کے دیگر  مذاہب (جو نماز  کے دوران  سجدۂ تلاوت  کو جائز  سمجھتے ہیں )  کی فقہ  کو بھی  اپنی لپیٹ میں  لیتا ہے  (اگر چہ فقہ حنفی  اس تزاحم کے بلند ترین  درجے  کا حامل ہے )  کیونکہ نماز میں  سجدۂ تلاوت  کو جائز  سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ  شریعت نے ایک طرف  سے سجدۂ تلاوت  سے منع کیا ہے کیونکہ  یہ نماز کی مطلوبہ  ہیئت  سے متصادم  ایک اضافی عمل ہے    اور دوسری طرف سے اس کی اجازت دی ہے ۔ یہ ایک نامعقول نقطہ نظر ہے جو  ان کی فقہی موقوف کی کمزوری کا آئینہ دار ہے جس کے طفیل اس قسم کے نتائج  کا استنباط  ہوتا ہے اور اسے شریعت سے منسوب کیا جاتاہے۔  زرارہ  نے امام باقر  یا امام صادق  علیہما السلام سے نقل کیا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک  نے  فرمایا :

واجب  نماز میں سجدے والی سورتوں  میں سے  کچھ  بھی نہ پڑھو  کیونکہ تلاوت کا سجدہ واجب نماز میں ایک اضافی عمل ہے ۔

( الوسائل ۴/۷۷۹،باب ۴۰ ، ابواب القرائۃ فی الصلاۃ ،ح۱)

 اس حدیث میں امام  علیہ السلام نے شریعت کی اصل حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔

خلاصہ بحث :

 سجدۂ تلاوت کے بارے میں اسلامی مذاہب کے درمیان تین نظریات پائے جاتے ہیں :

پہلا نظریہ : یہ مذہبِ حنفیہ کا نظریہ ہے جس کی رو سے نماز  میں آیتِ سجدہ پڑھنا  جائز ہے  اور سجدۂ تلاوت واجب ہے ۔

دوسرا نظریہ : یہ باقی اہل سنت کا نظریہ ہے  جس کی رو سے  نماز میں آیتِ سجدہ  پڑھنا  اور اس پر  سجدہ کرنا  دونوں جائز ہیں ۔

تیسرا نظریہ :  یہ مکتب اہل بیت کا نظریہ ہے جس کی رو سے نماز میں  سجدوں والی  چار سورتیں پڑھنا حرام ہے اور  اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔

مکتب اہل بیت کا قول دو تمہیدی نکات  پر مبنی ہے ۔ پہلا نکتہ یہ کہ آیاتِ سجدہ پڑھنے سے سجدہ واجب ہوتا ہے ۔ دلائل سے ثابت ہوا کہ یہ قول مکمل طور  پر  درست ہے  اور  اس کے برخلاف  لائے جانے والے دلائل  اور اعتراضات  درست نہیں ہیں ۔  دوسر ا تمہیدی نکتہ یہ ہے کہ نماز میں  سجدۂ  تلاوت بجا لانے سے نماز ٹوٹ   جاتی ہے کیونکہ اس طرح  نمازی اپنے آپ کو عمدا دو باتوں کے درمیان پھنسا لیتا ہے جو آپس میں تزاحم  رکھتے ہیں ۔ ایک یہ کہ سجدۂ تلاوت  بجا لاکر  اپنی نماز کو باطل کرے جو حرام ہے اور دوسری یہ کہ تلاوت کا سجدہ کرے جو واجب ہے ۔

ان حقائق  کی رو سے نماز میں سجدے والی سورتوں کو پڑھنے کی حرمت  کو مانے  بغیر  کوئی چارہ نہیں رہتا ۔

تمت بالخیر ۔جامعۃ النجف سکردو۔  ۱۵۔۱۲۔ ۲۰۱۷

نام کتاب:نماز میں  سجدے والی سورتوں  کو پڑھنے کا مسئلہ

مولف :حجۃ الاسلام شیخ عبد الکریم بہبہانی۔ تحقیقی کمیٹی 

مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی،نظرثانی: حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین

کمپوزنگ: حجۃ الاسلام شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام

جملہ حقوق محفوظ ہیں