امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ختم قرآن

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ختم قرآن،
[عربی: ختم القرآن]، کے معنی قرآن کریم کی ابتداء سے انتہا تک قرائت کرنے کے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں ختم قرآن کے بہت زیادہ فضائل اور اس کے مادی اور معنوی اثرات ذکر ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ دعا کی استجابت کے مواقع میں سے ایک کو ختم قرآن کے بعد کا وقت قرار دیا گیا ہے۔
ختم قرآن انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے۔ احادیث میں ختم قرآن کے موقع پر پڑھی جانے والی متعدد دعائیں وارد ہوئی ہیں جن میں سب سے اہم دعا صحیفۂ سجادیہ کی بیالیسوں دعا ہے۔

ختم قرآن کا ثواب دوسرے نیک اعمال کے ثواب کے جانچنے کے معیاروں میں سے ایک ہے اور مختلف احادیث میں اعمال کے ثواب کو ختم قرآن کے ذریعے پرکھا گیا ہے، بطور مثال ماہ رمضان میں ایک آیت کی تلاوت کا ثواب[2] یا سال کے دوسرے مہینوں میں تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت[3] یا دوشنبہ کی شب کی خاص نماز[4] میں
 سُبحانَ اللهِ وَالحَمدُ لِلّهِ وَلا إِلهَ إلَّا اللهُ وَاللهُ اَکبر
اور
 "لا حول ولا قوةَ إِلَّا بِاللهِ العَلِیِّ العَظِیمِ"

پڑھے، اس کے لئے ختم قرآن کا ثواب لکھا جاتا ہے۔</ref> ختم قرآن کے برابر قرار دی گئی ہے۔

ختم قرآن کے مختلف محرکات اور مقاصد ہیں جن میں "دین کی معرفت"، "خدا کے ساتھ انسیت"، "مرحومین کی روح کو ایصال ثواب"، حتی کہ "زندگی کے مسائل کا حل" اور "مریضوں کی شفا"، شامل ہیں۔

لغوی معنی
لغت میں لفظ "ختم" کے معنی کسی بھی چیز کے آخر تک پہنچنے کے ہیں۔ ختم کسی چيز پر مہر ثبت کرنا، اور خِتام کے معنی "مہر" کے ہیں اور ختم اور ختام کی جڑ ایک ہی ہے۔[5]۔[6] "ختم قرآن" اصطلاح میں، لغوی معنی سے ہمآہنگ ہے اور اس سے مراد قرآن کی قرائت ہے ابتداء سے انتہا تک۔[7] کلام الہی کی آیات میں "ختم قرآن" کی اصطلاح مذکور نہیں ہے بلکہ اس نے سب کو "ممکنہ حد تک قرا‏ئت" کی دعوت دی ہے:

...فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ۔

ترجمہ: لہٰذا جو آسانی سے (جس حال میں) ممکن ہو پڑھ لیا کرو۔[8]
امام صادقؑ سے منقولہ حدیث کے مطابق "مَا تَیسَّرَ" سے مراد تلاوت کی وہ مقدار ہے جس کو قاری خشوع قلب اور خلوص باطن کے ساتھ پڑھے۔[9] فطری امر ہے کہ اس قسم کی تلاوت و قرائت روح کی نشاط و شادابی کی حالت میں ممکن ہے، نہ کہ سستی، ناخوشی اور تھکاوٹ کی حالت میں، یا اپنے اوپر بوجھ ڈال کر۔ امیرالمؤمنین(ع) فرماتے ہیں:

"...لا يكونن هَمُّ أحَدِكُم آخِرَ السُّورةِ۔

ترجمہ: قاری کی ہمت سورت کا ختم کرنا نہیں ہونی چاہئے۔[10]
"ختم قرآن" کا عنوان اسلام کے صدر اول سے مسلمانوں کے لئے جانا پہچانا عنوان تھا اور پیغمبر اکرمؐ، ائمۂ اہل بیتؑ اور صحابہ نے ختم قرآن کی کیفیت، وقت اور روش و ثواب کے بارے میں سفارشیں کی ہیں۔ ظاہرا لفظ "مجلس ختم قرآن" ـ جو کہ مرحومین کے لئے منعقد کی جاتی ہے ـ اسی "ختم قرآن" سے ماخوذ ہے کیونکہ اس قسم کی مجالس میں رسم یہ ہے کہ کئی مرتبہ قرآن ختم کیا جاتا ہے۔

ختم قرآن کی فضیلت
احادیث میں ختم قرآن کی فضیلت پر تاکید ہوئی اور بعض احادیث میں اس کے لئے بہت سے ثواب اور برکات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث خاص اوقات یا خاص مقامات ـ جیسے ماہ مبارک رمضان اور مکہ مکرمہ ـ سے مقید و مشروط ہیں اور بعض دیگر مطلق اور عام ہیں۔

الکافی میں مروی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:

"مَن خَتَمَ القُرآنَ فَكأَنَّما اُدرِجَتِ النُّبُوَّةُ بَینَ جَنبَيهِ، ولكنَّهُ لا يوحٰی‏ إلَيهِ۔

ترجمہ: جو قرآن کو ختم کرے گویا نبوت کو اس کے دو پہلؤوں کے درمیان [اور اس دل و جان میں] رکھا گیا ہے، لیکن اس کو وحی نہیں ہوتی۔[11]
ختم قرآن کتنی مدت میں؟
ختم قرآن عام حالات میں تین دن یا ایک ہفتے سے کم مدت میں پسندیدہ نہیں ہے[12]، کیونکہ اسلامی سنت میں آیات میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کو تلاوت دہرانے سے زیادہ توجہ دی گئی ہے۔[13].

پیغمبر اکرم(ص) سے منقولہ حدیث میں ہے کہ جو شخص تین روز سے کم مدت میں قرآن ختم کرے وہ فہم آیات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا[14] اور اس قسم کی قرآن خوانی عجلت زدہ تلاوت اور آیات کی طرف عدم توجہ پر منتج ہوتی ہے۔[15].

امام رضا علیہ السلام سے منقولہ حدیث میں ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: "گوکہ میں تین دن سے کم عرصے میں ختم قرآن کرسکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرتا تا کہ میری قرائت تدبر سے خالی نہ ہو۔[16]۔[17]

بہر حال، ماہ رمضان میں تیس سے چالیس مرتبہ ختم قرآن مجاز قرار دیا گیا ہے۔[18]

غزالی کی رائے ہے کہ "عابدوں اور عملی سالکوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ہفتے میں دو سے کم مرتبہ ختم قرآن کریں، تاہم قلبی سالکوں اور فروغ علم میں مصروف افراد کے لئے جائز ہے کہ وہ ہر ہفتے ایک بار قرآن ختم کریں اور تامل و تدبر والے افراد ایک مہینے میں قرآن ختم کرسکتے ہیں تاکہ آیات میں ضروری تدبر و تامل کرسکیں۔[19]

ختم قرآن کے آداب
بہت سی احادیث میں زور دیا گیا ہے کہ قاری قرآن کے معانی اور مفاہیم میں سمجھ بوجھ حاصل کرے اور انہیں اپنی زندگی اور روح میں نافذ کرے۔ جو افراد عربی زبان پر عبور نہیں رکھتے وہ "آیت بہ آیت" کی روش سے استفادہ کرتے ہیں یعنی ابتداء میں ایک آیت کے معنی کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں اور پھر بعد کی آیت کی تلاوت بھی اسی روش سے انجام دیتے ہیں۔

صحیح پڑھنا (جہاں تک کہ قاری [یعنی قرآن پڑھنے والے] کے لئے ممکن ہو) قرائت کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ہے گوکہ تجوید کے تمام قواعد کی رعایت [سب کے لئے] لازم نہیں ہے۔
مستحب ہے کہ سورہ ضحی سے آخر قرآن تک ہر سورت کے خاتمے پڑ قاری مختصر سا توقف کرے اور اللہ اکبر کہہ دے۔
ختم قرآن کے اپنے خاص آداب بھی ہیں؛ منجملہ:

ختم قرآن روز جمعہ کو کیا جائے[20]،
ختم قرآن کے دن روزہ رکھا جائے[21]،
ہر ختم کے بعد ـ خواہ قاری ختم جدید کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو ـ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیتوں کی تلاوت کرے اور ختم قرآن کو فتح قرآن (یعنی تلاوت کے آغاز نو) سے متصل کرے۔[22]
مختلف ممالک میں ختم قرآن کے لئے مختلف النوع آداب قرار دیئے گئے ہیں اور بہت سی جگہوں پر لڑکوں اور لڑکیوں کو پہلے ختم قرآن کے عوض انگشتری یا دیگر تحائف دیئے جاتے ہیں۔

ختم قرآن اور حج

حجاج کرام کو تاکید ہوئی کہ مکہ میں قیام کے دوران ختم قرآن کریں۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص مکہ میں قرآن ختم کرے موت سے پہلے رسول اکرم(ص) کا دیدار کرے گا اور جنت میں اپنے مقام کا مشاہدہ کرے گا۔[23]

بہت سے افراد قرائت قرآن کے ثواب کو انبیاء، ائمہ اور امامزادگان، بزرگان دین، شہداء اور اپنے مرحومین کے لئے بطورہ ہدیہ پیش کرتے ہیں۔

خواتین کے لئے ماہواری عادت کے دوران قرائت اور ختم قرآن مکروہ ہے اور اس کراہت سے مراد یہ ہے کہ انہیں کم ثواب ملتا ہے گوکہ ان ایام میں ان کے لئے قرآن کی آیات کا چھونا یا عزائم (واجب سجدوں کی حامل سورتوں) کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔

ختم قرآن کی مختلف صورتیں
ختم قرآن دو صورتوں میں انجام دیا جاتا ہے: انفراد ختم اور اجتماعی ختم۔ اجتماعی ختم کی مجالس میں عام طور پر تلاوت اور ختم قرآن کا اشتیاق انفراد ختم کی نسبت زيادہ ہوتا ہے۔

اس قسم کی مجالس ماضی میں زیادہ تر گھروں میں منعقد ہوتی تھیں لیکن حالیہ برسوں میں (ایران میں) ـ عام حالات میں ـ مساجد کے اندر نماز جماعت کے بعد قرآن کریم کے کم از کم ایک صفحے کی تلاوت کی جاتی ہے اور ترجمہ بھی سنایا جاتا ہے؛ اور کچھ عرصے میں ختم قرآن بھی انجام پاتا ہے۔ بہت سے امام زادگان کے مزاروں میں ہر روز اجتماعی طور پر ختم قرآن کیا جاتا ہے اور اس کا ثواب صاحب مزار کی روح کو بطور ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔

ختم کی ایک قسم یہ ہے کہ مختصر پیغامات (SMS) کے ذریعے یا پھر انٹرنیٹ کی بعض سائٹوں میں رکنیت حاصل کرکے ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قسم کا ختم عام طور پر امام زمانہ(عج) کی سلامتی، حل مشکلات یا خداوند متعال سے حاجت طلب کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

جو لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ان کے لئے بھی مجالس ترحیم یا مجالس ایصال ثواب کے عنوان سے ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے اور شرکاء میں سے ہر ایک پورا پارہ یا نصف یا ایک چوتھائی پارہ پڑھ لیتا ہے اور بحیثیت مجموعی ایک بار یا کئی بار ختم قرآن انجام پاتا ہے۔ گویا ایصال ثواب کی مجالس کو "مجالس ختم" کے نام دینے کا سبب بھی یہی ہے کہ ان میں اجتماعی طور پر ختم قرآن کا اہتمام ہوتا ہے۔


ختم قرآن کی دعائیں
"ختم قرآن" سے پورے قرآن کی تلاوت مراد ہے؛ لیکن ہر سورہ، حزب یا پارے کے اختتام پر دعائے ختمِ قرآن پڑھی جاسکتی ہے۔[24]

ختم قرآن کی بعض دعاؤں کی جڑیں حدیثوں میں پیوست ہیں اور یہ دعائیں مأثور ہیں اور بعض دیگر دعائیں خوبصورت مضامین پر مشتمل ہونے کے باوجود معصومین سے نقل نہیں ہوئیں اور غیر ماثور دعائیں ہیں۔

ختم قرآن کی دعائیں پڑھتے وقت عام طور پر سامعین ہر ـ دعا کا ہر حصہ سن کر ـ "آمین" یا "الہی آمین" کہتے ہیں اور اپنے اس عمل کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام سے مستند کرتے ہیں۔[25]

بعض ماثور دعائیں
صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین علیہ السلام سے منقولہ بیالیسیوں دعای 42 ختم قرآن کی جامع ترین اور معروف ترین دعا ہے جس کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے:

أَللهُمَّ إنَّكَ أَعَنْتَني عَلی خَتْمِ کِتابِكَ ...۔

دعائے ختم قرآن بمع اردو ترجمہ(مکمل)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ختم قرآن کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:

أَللهمَّ ارْحَمْني بِالقرآنِ ...۔[26]
رسول اللہ(ص) کی دوسری دعا:

أللهمَّ اِنّي أَسْئَلُك اِخْباتَ المُخْبِتينَ ...۔[27]
امام صادق علیہ السلام کی دعا، بوقت ختم قرآن، جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:

أللهمَّ انّي قَدْ قَرَأْتُ ماقَضَيتَ مِنْ کِتابِكَ ...۔[28]
بعض غیر ماثور دعائیں
مختلف النوع مآخذ اور بعض مطبوعہ قرآنی نسخوں میں، مختلف النوع دعائیں مذکور ہیں کہ اگرچہ ان کا کلی مفہوم آیات اور احادیث سے اقتباس لیا گیا ہے لیکن بظاہر یہ دعائیں اچھا ذوق رکھنے والے علماء اور قاریوں نے بیان کی ہیں۔ بطور نمونہ:

صَدَقَ اللهُ العَلي العَظيمُ، وَصَدَقَ رَسُولُهُ النَّبي الكريمُ، وَنَحْنُ عَلی ذلِك مِنَ الشَّاهِدينَ، رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا، اِنَّكَ أنْتَ السَّميعُ العَليمُ، اللهمَّ ارْزُقنا بِكُلِّ حَرْفٍ مِنَ القرآنِ حَلاوَةً، وَبِكُلِّ جُزْءٍ مِنَ القُرآنِ جَزاءً، اللهمَّ ارْزُقنا بِالأَلِفِ أُلْفَةً...
صَدَقَ اللهُ أَعْلَی الصَّادِقينَ وَمنطِقَ جَميعِ النَّاطِقينَ... أللهمَّ انْفَعْنا بِالقرآنِ العظيمِ وَاهْدِنا بِالآياتِ وَالذِّكْرِ الحكيمِ وَ تَقَبَّلْ مِنَّا قِرائَتَهُ...
اللهمَّ، رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا خَتْمَ القرآنِ، وَ تَجاوَزْ عَنْ ما كانَ مِنَّا في تِلاوَتِهِ مِنْ خَطَأٍ أَوْ نُقْصانٍ...
اَللهمَّ اجْعَلِ القرآنَ لَنا فِي الدُّنيا قَريناً، وَ فِي القَبْرِ مُونِساً، وَ فِي القِيامَةِ شَفيعاً...

کتاب کا تعارف
کتاب "‌شناخت نامۂ قرآن؛ قرآن و حدیث کی روشنی میں؛ یہ کتاب دارالحدیث نے شائع کی ہے اور اس کی تیسری جلد کے ایک حصے میں ان احادیث کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا تعلق ختم قرآن کے موضوع سے ہے۔

حوالہ جات
1.   - علامہ مجلسی کہتے ہیں: حرف ظاہر سے مراد شاید وہ حرف ہے جس کو تلاوت کے وقت ادغام نہ کیا جاتا ہو اور کلام درج کرتے ہوئے ساقط نہ ہوسکے۔۔
2.    - ابن بابویہ، عیون اخبارالرضا، ج1، ص296۔
3.    - امالی صدوق، ص86۔
4.  - جو بھی دو شنبہ کی شب دو رکعت نماز بجا لائے اور ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور اس کے بعد سات مرتبہ سورہ توحید، تسبیحات اربعہ
5.   - أحمد بن فارس بن زكريا، مقاییس اللغة، ذیل مادہ "خ ت م"۔
6.  - ابن منظور، لسان العرب: ماده "خ ت م"۔
7.    ↑ شناخت نامه قرآن برپایه قرآن و حدیث ج3 ص383۔
8.    -سورہ مزمل، آیت 20۔
9.    -ما تَیسَرَ لَکم فیهِ خُشُوعُ القَلبِ وَصَفاءُ السِّرِ۔
ترجمہ: جہاں تک خشوع قلب اور خلوص باطن تمہارا ساتھ دے: مجلسی، بحارالانوار، ج84، ص135۔
10.    -بينه بيانا، ولا تهذه (سرعة القراءة) هذ الشعر، ولا تنثره نثر الرمل، ولكن إقرع به القلوب القاسية، ولا يكونن هَمُّ أحَدِكُم آخِرَ السُّورةِ۔
ترجمہ: (رتل القرآن ترتیلا یعنی) اس کو بیان کرو آشکار انداز سے، یوں کہ اس کو شعر کی طرح تیز رفتاری سے نہ پڑھو اور اس کو پراگندہ ریت کی طرح منتشر نہ پڑھو بلکہ یوں پڑھو کہ اس کے ذریعے قساوت سے بھرے دلوں کو جھنجھوڑ سکو اور قاری کی ہمت سورت کا ختم کرنا نہیں ہونی چاہئے:طبرسی، مجمع البیان، ج10 ص162۔
11.  - الکلینی، الکافی، ج2، ص604۔
12.    - الکلینی، الکافی، ج2، ص618ـ619۔
13.    -الکلینی، وہی ماخذ، ج2، ص614۔
14.    -متقی هندی، کنز العمال، ج 1، ص614۔
15.    -الکلینی، الکافی، ج2، ص617۔
16.    -امالی صدوق، ص 660۔
17.    -مجلسی، بحارالانوار، ج 49،ص90۔
18.    -الکلینی، الکافی، ج2، ص618۔
19.    -غزالی، احیائے علوم دین، ج1، ص366۔
20.    -طوسی، مصباح المتهجد، ص322۔
21.    -نووی، شرح المهذب، ج2، ص168۔
22.    -الکلینی، الکافی، ج 2، ص605۔
23.    -الکلینی، الکافی، ج2، ص612۔
24.    -"حُذَیفه"، سے مروی ہے کہ پیغمبر(ص) نے سورہ بقرہ کے اختتام پر یہ دعا پڑھی: "أَللهُمَّ ارْحَمنی بِالقرآن..."؛ محسن فیض کاشانی، قرآن و آداب تلاوت آن، ص43 و 44۔
25.    -امام علی علیہ ‌السلام نے اپنے صحابی زر بن حبیش سے فرمایا: "اے زر! میں دعا کرتا ہوں، تم آمین کہو...": مجلسی، بحارالانوار، ج89، ص206۔
26.    -أَللهمَّ ارْحَمْني بِالقرآنِ وَاجْعَلْهُ لي اِماماً وَنُوراً وَهُدًی وَرَحْمَةً. أَللهمَّ ذَكِّرْني مِنهُ ما نَسيتُ وَعَلِّمْني مِنهُ ما جَهِلْتُ، وَارْزُقْني تِلاوَتَهُ آناءَ اللَّيلِ وَالنَّهارِ، وَاجْعَلْهُ حُجَّةً لي يارَبَّ العالمينَ ...
ترجمہ: بار خدايا! مجھ پر رحم فرما قرآن کی حرمت کے واسطے، اور اس کو میرے لئے راہنما، روشنی اور فلاح و رستگاری اور رحمت قرار دے۔ یا رب! مجھے یاد دلادے وہ جو میں بھول چکا ہوں، اور مجھے سکھا دے جو کچھ میں نہیں جانتا، اور شب و روز کے مختلف اوقات میں مجھے اس کی تلاوت کی توفیق عطا فرما اور اس کو میری حجت و دلیل قرار دے، اے پروردگار عالمین۔
27.    -زرّ بن حبیش نقل کرتے ہیں: میں نے کوفہ کی جامع مسجد میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حضور ابتدائے قرآن سے انتہا تک، تلاوت کی... جب میں "سورہ حم عسق" کی بائیسویں آیت کی تلاوت تک پہنچا تو امیرالمؤمنین(ع) نے گریہ فرمایا؛ یہاں تک آنسو آپ(ع) کے چہرے پر جاری ہوئے؛ بعدازاں آپ(ع) نے سر آسمان کی جانب اٹھایا اور فرمایا:
اَللّهُمَّ اِنِّى اَسْئَلُكَ اِخْباتَ الْمُخْبِتينَ، وَاِخْلاصَ الْمُوقِنينَ، وَمُرافَقَةَ الْأَبْرارِ وَاسْتِحْقاقَ حَقائِقِ الْإيمانِ، وَالْغَنيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلامَةَمِنْ كُلِّ الْأَبْرارِ وَاسْتِحْقاقَ حَقائِقِ الْإيمانِ، وَالْغَنيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلامَةَمِنْ كُلِّ الْأَبْرارِ وَاسْتِحْقاقَ حَقائِقِ الْإيمانِ، وَالْغَنيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلامَةَمِنْ كُلِّ اِثْمٍ وَوُجُوبَ رَحْمَتِكَ، وَعَزآئِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّجاةَ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ: اے اللہ! تجھ سے ـ تیری درگاہ کے خاشعین کا اطمینان و سکون، اہل یقین کا اخلاص، نیک لوگوں کی ہم نشینی اور رفاقت، ایمان کے حقائق کے ادراک کا استحقاق، ہر خیر و نیکی میں سے ایک حصہ، گناہ سے سلامتی، تیری رحمت و مہربانی کا وجوب، تیری مغفرت کے اسباب و موجبات، جنت تک رسائی اور دوزخ سے نجات ـ چاہتا ہوں۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے آخر میں فرمایا: "اے زرّ! جب بھی قرآن کو ختم کرو اس دعا کو پڑھ لو کیونکہ میرے دوست اور میرے محبوب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے مجھے حکم دیا اور سفارش فرمائی ہے کہ ختم قرآن کے وقت ان الفاظ سے دعا کروں":بحارالانوار، ج 89، ص206 و207۔
28.    -

أللهمَّ انّي قَدْ قَرَأْتُ ماقَضَيتَ مِنْ کِتابِكَ الَّذي أَنْزَلْتَهُ عَلي نَبِيكَ الصّادِقِ صلی الله عليه وآله، فَلَكَ الحمدُ رَبَّنا، اللهمَّ اجْعَلْني مِمَّنْ يحِلُّ حَلالَهُ وَ يحَرِّمُ حَرامَهُ وَيؤْمِنُ بِمُحْكْمِهِ وَمُتَشابِهِه، وَاجْعَلْهُ لي اُنْساً في قَبْري وَاُنساً في حَشْري، وَاجْعَلْني مِمَّنْ تُرْقيهِ بِكُلِّ آيةٍ قَرَأَها دَرَجَةً في أَعْلی عِلِّيينَ، بِرَحْمَتِكَ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ۔
خدایا! بےشک میں نے پڑھ لیا وہ جو کچھ تو نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے؛ وہی کتاب جو تو نے اپنے سچے نبی(ص) پر اتاری ہے؛ اے پروردگار! حمد و ثناء تیرے لئے مخصوص ہے۔ خدایا! مجھے اس جماعت کے زمرے میں قرار دے جو قرآن کے حلال کو حلال سمجھتی ہے اور اس کے حرام کو حرام سمجھتی ہے اور اس کے محکم و متشابہ پر ایمان و یقین رکھتی ہے اور قرآن کو میری قبر میں، حشر اور میرے دوبارہ زندہ ہونے کے وقت، میرا مونس و انیس قرار دے، اور نیز مجھے ان لوگوں میں قرار دے جنہیں تو ہر آیت کی تلاوت کے بدلے اعلی ترین بہشتی منازل عطا کرتا ہے اور ان کے درجات میں اضافہ کرتا ہے۔ تیری رحمت کے واسطے اے مہربانوں میں سب سے زيادہ مہربان: مجلسی، بحارالانوار، ج 92، ص207۔
مآخذ
قرآن کریم۔
صحیفه سجادیہ۔
ابن بابویہ، الامالی، قم 1417۔
[ابن بابویہ]، شيخ الصدوق، أبي جعفر محمد بن علي بن الحسين ابن موسى بن بابويه القمي الامالی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم 1368ہجری شمسی۔
ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، چاپ مہدی لاجوردی، قم 1363 ہجری شمسی۔
ابن بابویہ، الامالي، مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة الامالي قم، 1417 ہجری قمری۔
ابن منظور الاف‍ري‍ق‍ی ‌ال‍م‍ص‍ری، ج‍م‍ال ‌ال‍دي‍ن م‍ح‍م‍د ب‍ن‌‌ م‍ك‍رم‌، مقاييس اللغة، دار الجيل للطبع والنشر والتوزيع - بيروت، 1420 ہجری قمری/ 1999 عیسوی۔
أبو الحسين أحمد بن فارس بن زكريا، مقاييس اللغہ، دار الجيل للطبع والنشر والتوزيع - بيروت، سنة النشر: 1420ہجری قمری/ 1999 عیسوی۔
محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجّد، بیروت 1411ہجری قمری/1991 عیسوی۔
جعفر مرتضی عاملی، حقائق هامّة حول القرآن الکریم، قم 1410ہجری قمری۔
الطبرسي، الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، مقدمہ از: السيد محسن الامين العاملي، منشورات مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415 ہجری قمری/ 1995 عیسوی۔
محمد بن محمد غزالی، احیاء علوم الدین، بیروت 1412 ہجری قمری/1992 عیسوی۔
محمد بن یعقوب کلینی، الکافی۔
علی بن حسام الدین متقی، کنز العُمّال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت 1409 ہجری قمری/1989 عیسوی۔
مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، بیروت 1403ہجری قمری/1983 عیسوی۔
مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، دوم، 1363 ہجری شمسی۔
معزّی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشّیعہ فی احکامِ الشریعہ، با پیشنہاد و نظارت آیت اللّه حاج آقا حسین بروجردی۔
یحیی بن شرف نووی، المجموع: شرح المُہذّب، بیروت : دار الفکر۔
مولٰی محسن فیض کاشانی، قرآن و آداب تلاوت آن، ترجمہ دکتر اسدالله ناصح، کانون انتشارات محمدی، تہران۔
محمدی ری شہری، شناخت نامہ قرآن بر پایہ قرآن و حدیث ، دار الحدیث۔
الہيثمي، نور الدين علي بن أبي بكر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، دار الكتب العلميہ بيروت - لبنان 1408 ہجری قمری/ 1988 عیسوی۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک