امام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام

امام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام

نسب، القاب و اوصاف ظاہری
نسب: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قُصَی بن کلاب، ہاشمی قرشی ہیں۔[1]
والد: آپ کے والد حضرت ابو طالب ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ رسول اللہؐ کے چچا و حامی اور قریش کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔[2]
والدہ: آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔[3]
بھائی: طالب، عقیل اور جعفر ہیں۔
بہنیں: ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء ہیں۔[4]
مورخین کے مطابق، حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد کی شادی پہلی شادی ہے جس میں زوج و زوجہ دونوں ہاشمی ہیں[5] اور اس لحاظ سے امام علی ؑ پہلے فرد ہیں جن کے والد و والدہ دونوں ہاشمی ہیں۔[6]

کنیت، القاب و صفات

کنیت: ابو الحسن،[7] ابو الحسین، ابو السبطین، ابو الریحانتین، ابو تراب و ابو الآئمہ۔[8]
القاب: امیرالمؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، زوج البتول، سیف اللّہ‏ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، الصدّیق الأکبر، ذوالقرنین، الہادی، الفاروق، الداعی، الشاہد، باب المدینة، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ‏ؐ، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین[9]
لقب امیر المؤمنین

تفصیلی مضمون: امیرالمؤمنین (لقب)
امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق یہ لقب حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپؑ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے خلفاء حتی امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔[10]

جسمانی اوصاف

مختلف مصادر کے مطابق آپ کا قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ و کھلی، ابرو کمان کی مانند کھنچے و ملے ہوئے، چہرہ انتہائی خوبصورت و دلکش، چہرے کی رنگت گندمی، داڑھی گھنی اور شانے کشادہ تھے۔[11] بعض منابع کے مطابق رسول اللہ نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مائل تھے لیکن بعض نے اس بطین سے البطین من العلم (علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے۔[12] دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔[13]

آپ کی قدرت بدنی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جس کسی کے ساتھ بھی لڑے اس کو زمین پر دے مارا۔[14] ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: امامؑ کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اورجبکہ ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بڑے پتھر کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد اس میں ناکام ہو چکے تھے۔[15]

----

حوالہ جات
 مفید، الارشاد، ۱:‎ ۱۵۔
 ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15۔
 مفید، ارشاد، ج 1، ص2۔
 مجلسی، ج 19، ص 57۔
 قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۶۸۔
 مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔
 شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۔
 مرعشی نجفی، موسوعة الإمامة، ۱۴۳۰ق، ج۶، ص۱۹۷و ۱۹۸؛ محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ أمیرالمؤمنین ع، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۳۰۸۔
 ابن شہر آشوب، ج 3، ص 321-334۔
 مجلسی، بحار الانوار، ج۳۷، ص۳۳۴؛ حر عاملی، وسائل‌ الشیعہ، ج۱۴، ص۶۰۰۔
 امین، سیره معصومان، ج۲، ص۱۳۔
 طوسی، الأمالی، ص۲۹۳۔
 ر ک: مستدرك‏ الوسائل ج : 18 ص : 152۔
 ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1407ق/1987ء، ص 121۔
 ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21۔