امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب

امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب

علی بن ابی طالب (23 عالم الفیل - 40ھ) امام علی و امیرالمومنین کے نام سے مشہور، شیعوں کے پہلے امام، صحابی، راوی، کاتب وحی، اہل سنت کے چوتھے خلیفہ، رسول خداؐ کے چچازاد بھائی و داماد، حضرت فاطمہؑ کے شوہر، امام حسن اور امام حسین کے والد ماجد اور باقی ائمہ کے جد امجد ہیں۔ حضرت ابو طالب آپ کے والد و فاطمہ بنت اسد والدہ ہیں۔ شیعہ و اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔ رسول اللہؐ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے آپ ایمان لے آئے۔ شیعوں کے مطابق آپ بحکم خدا رسول اللہؐ کے بلا فصل جانشین ہیں۔
آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔
آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔
رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔
رسول اللہؐ کے وصال کے بعد سقیفہ میں ایک گروہ نے خلیفہ کے عنوان سے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ قبائلی رقابت، کینہ و حسد کو خلافت کے مسئلہ میں آنحضرت کے فرمان کے مطابق حضرت علی کو خلیفہ نہ ماننے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ آپ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ اس کے بعد خود اصل بیعت اور زمان بیعت کے سلسلہ میں اختلاف بظر پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق، آپ نے صریح طور پر ابوبکر کے ساتھ مناظرہ کیا اور اس میں انہوں نے ابوبکر کی طرف سے واقعہ سقیفہ میں خلاف ورزی کرنے اور اہل بیت پیغمبر کے حق کو نظر انداز کرنے پر مزمت کی۔ شیعہ و بعض سنی منابع کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے حضرت علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ اس میں حضرت فاطمہ زخمی ہوئیں، ان کا بچہ ساقط ہوگیا اور کچھ عرصے کے بعد ان کی شہادت ہوگئی۔ امام علی نے مختلف مواقع اور متعدد اقوال میں واقعہ سقیفہ پر اعتراض کیا اور جانشینی کے مسئلہ میں اپنے حق کو یاد دلایا۔ اس کی مشہور ترین مثال خطبہ شقشقیہ ہے۔
امام علی نے خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور خلافت میں تقریبا سیاسی و حکومتی امور سے دوری اختیار کی اور فقط علمی و سماجی امور میں مشغول رہے۔ جیسے جمع آوری قرآن کریم، جو مصحف امام علی کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں خلفاء کو مشورہ دینا، جیسے قضاوت، انفاق فقراء، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خریدنا، انہیں آزاد کرنا، زراعت و شجرکاری، کنویں کھودنا، مساجد تعمیر کرنا و اماکن و املاک وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تک ذکر ہوئی ہے۔ اسی طرح سے خلفاء آپ سے قضاوت جیسے مختلف حکومتی امور کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے۔
آپ نے خلیفہ سوم کے بعد مسلمانوں کے اصرار پر خلافت و حکومت کو قبول کیا۔ آپ اپنی حکومت میں عدل و انصاف کو بظور خاص اہمیت دیتے تھے۔ آپ نے خلفاء کی اس روش کا مقابلہ کیا، جس میں افراد کے سوابق کے اعتبار سے انہیں بیت المال سے حصہ دیا جاتا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ عرب و عجم، ہر مسلمان کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی خاندان و قبیلہ سے ہو، بیت المال میں سب کا حصہ برابر ہے اور انہوں نے ان تمام زمینوں، جنہیں عثمان نے مختلف افراد کے حوالے کر دیا تھا، بیت المال کو واپس کیا۔
امام علی دینی امور، قانون کے دقیق اجرا اور صحیح طریقے سے حکومت چلانے کے معاملے میں بیحد سنجیدہ و نظر انداز نہ کرنے والے تھے اور یہی سبب تھا جس نے آپ کو بعض افراد کے لئے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ وہ اس راہ میں حتی اپنے نزدیک ترین افراد کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتے تھے۔ امام علی کے مطابق حاکم کا حق اپنی رعیت پر اور رعیت کا حق اپنے حاکم پر، بزرگ ترین حقوق میں سے ہے جسے خداوند عالم نے قرار دیا ہے اور یہ کاملا دو طرفہ ہے اور دونوں طرف سے حقوق کی رعایت بیحد ثمرات کی حامل ہے۔ جس وقت حضرت نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر منصوب کیا تو انہیں تمام لوگوں کے ساتھ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، مہربانی و خوش اخلاقی و انسانی سلوک سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی۔ حضرت کو اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں تین سنگین داخلی جنگوں جمل، صفین اور نہروان کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر کار محرام مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی نامی ایک خارجی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کئے گئے۔ روضہ امام علی شہر نجف میں شیعوں کے مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ جس کی زیارت پر شیعہ توجہ مبذول کرتے ہیں۔ آپ کے روضے میں دیگر مشاہیر بھی مدفون ہیں۔ جن کا تذکرہ بعض مصادر میں حرم امام علی میں مدفون شخصیات کے ضمن میں ہوا ہے۔
نحو، کلام، فقہ و تفسیر جیسے بہت سے اسلامی علوم کا سلسلہ آپؑ تک منتہی ہوتا ہے اور تصوف کے مختلف مکاتب فکر اپنے سلسلہ سند کو آپ ہی سے متصل کرتے ہیں۔ امام علی شیعوں کے یہاں ہمیشہ سے خاص مرتبہ و منزلت رکھتے ہیں اور وہ آنحضرت کے بعد بہترین، با تقوی ترین، عالم ترین انسان اور آپ کے بر حق جانشین ہیں۔ اسی بنیاد پر صحابہ کے ایک گروہ کو پیغمبر اکرم کی حیات سے ہی مطیع و محب علی یعنی شیعہ علی کہا جاتا تھا۔ مشہور کتاب نہج البلاغہ آپ کے خطبات و اقوال و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مکتوبات کی نسبت بھی آپ کی طرف دی گئی ہے جسے رسول خدا نے املا فرمایا اور آپ نے تحریر کیا۔ آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں بہت سی تحریریں لکھی گئیں ہیں۔