امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

عمر ابن خطاب نے کہا: علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بَابٌ فِي قَوْلِ سَيِّدِنَا أَبِي بَکْرٍ الصِدِّيْقِ وَ سَيِّدِنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه : عَلِيٌّ مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ

(فرمان صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما : علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں)

۶۵. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا بِغَدِيْرِ خُمٍّ فَنُوْدِيَ فِيْنَا الصَّلَاةَ جَامِعَةً وَ کُسِحَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَليَ الظُّهْرَ وَ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْليَ بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِّنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَأخَذَ بَيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ. قَالَ : فَلَقِيَهُ عمر رضی الله عنه بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ لَهُ : هَنِيْئاً يَا ابْنَ أبِيْ طَالِبٍ! أصْبَحْتَ وَ أمْسَيْتَ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶۵ : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، ۴ / ۲۸۱، وابن أبی شيبة فی المصنف، ۱۲ / ۷۸، الحديث رقم : ۱۲۱۶۷.

۶۶. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ : مَنْ صَامَ يَوْمَ ثَمَانِ عَشَرَةَ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ کُتِبَ لَهُ صِيَامُ سِتِّيْنَ شَهْرًا، وَ هُوَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه، فَقَالَ : أَلَسْتَ وَلِيَّ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : بَخْ بَخْ لَکَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اﷲُ( اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ) رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (۶۰) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶۶ : أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، ۳ / ۳۲۴، و خطيب البغدادی في تاريخ بغداد، ۸ / ۲۹۰، و ابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، ۴۵ / ۱۷۶، ۱۷۷، و ابن کثير في البدايه والنهايه، ۵ / ۴۶۴، و رازی في التفسير الکبير، ۱۱ / ۱۳۹.

۶۷. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه : وَ قَدْ نَازَعَهُ رَجُلٌ فِي مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ : بَيْنِي وَ بَيْنَکَ هَذَا الْجَالِسُ، وَ أَشَارَ إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب رضی الله عنه، فَقَالَ الرَّجُلُ : هَذَا الْأَبْطَنُ! فَنَهَضَ عمر رضی الله عنه عَنْ مَجْلِسِهِ وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ حَتَّی شَالَهُ مِنَ الْأرْضِ، ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرِيْ مَنْ صَغَّرْتَ، مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسَلِمٍ! رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی معاملہ میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔ اسے محب الدین طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶۷ : أخرجه محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، ۳ / ۱۲۸.

۶۸. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه وَ قَدْ جَاءَ هُ أَعْرَابِيَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ رضی الله عنه : إِقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَبَا الْحَسَنِ! فَقَضَی عَلِيٌّ رضی الله عنه بَيْنَهُمَا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا : هَذَا يَقْضِي بَيْنَنَا! فَوَثَبَ إِلَيْهَ عمر رضی الله عنه وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ، وَ قَالَ : وَيْحَکَ! مَا تَدْرِيْ مَنْ هَذَا؟ هَذَا مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ، وَ مَنْ لَمْ يَکُنْ مَوْلَاهُ فَلَيْسَ بِمُؤْمِنٍ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔ اسے محب الدین طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶۸ : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، ۳ / ۱۲۸، و محب الدين احمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، : ۱۲۶.

۶۹. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : عَلِيٌّ مَوْلَی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔ اسے محب الدین طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۶۹ : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، ۳ / ۱۲۸، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ / ۱۷۸.

۷۰. عَنْ سَالِمٍ قِيْلَ لِعُمَرَ : إِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلِيٍّ شَيْئًا مَا تَصْنَعُهُ بِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : إِنَّهُ مَوْلَايَ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.

’’حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا : ( کیا وجہ ہے کہ ) آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔ اسے محب الدین طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۷۰ : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، ۳ / ۱۲۸، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، ۴۵ / ۱۷۸.

۷۱. عَنْ سَعْدٍ قَالَ : لَمَّا سَمِعَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ ذَلِکَ (حَدِيْثَ الْوِلايَةِ) قَالَا : أَمْسَيْتَ يَا بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ المُنَاوِيُّ.

’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں جب حضرت ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہما نے حدیث ولایت سنی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : اے ابن ابی طالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اسے مناوی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۷۱ : أخرجه المناوی فی فيض القدير، ۶ / ۲۱۸.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک