امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بچوں میں جذباتی توازن کیسے پیدا کریں؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بچوں میں جذباتی توازن کیسے پیدا کریں؟

بچوں میں جذباتی توازن کیسے پیدا کریں؟

جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے جذبات یا ایموشنز کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق جذبات کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے حالات، واقعات، موڈ یا دوسروں کے ساتھ تعلقات سے حاصل ہونے والا ایک شدید احساس۔

ویسے جذبات کی بے شمار قسمیں ہیں۔ یہاں قارئین کی آسانی کیلئے چند اہم جذبات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ مثلا غصہ، خوشی، غم، اداسی، محبت، نفرت، بے چینی، اسٹریس اینڈ اینگزائٹی، حسد، کینہ ، بغض، تکبر وغیرہ۔

جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس  
اب جذباتی ذہانت کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ اپنے جذبات کو سمجھنا، ان کو کنٹرول کرنا اور پھران کو درست طریقے سے استعمال کے قابل ہونا ایموشنل انٹٰیلی جنس یا جذباتی ذہانت کہلاتاہے۔  ایموشنل انٹیلی جنس میں دوسروں کے جذبات کو سمجھنا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔

ایموشنل انٹٰیلی جنس یا جذباتی ذہانت کی اہمیت
جذبات ہمارے وجود کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انسان جذبات کا مرقع اور جذبات  سے بھرپور ایک مخلوق کا نام ہے۔ انسان کے ذہن میں کسی بھی واقعہ سے ایک سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ ہی اس کے اندر احساسات اور جذبات امڈنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ایک ریسرچ کے مطابق سترہزار سوچیں انسان کے دماغ میں روزانہ پیداہوتی ہیں۔ کیونکہ انسانی دماغ سوچوں کا کھیت ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سوچ کے ساتھ ساتھ احساسات اور جذبات بھی انسان کے اندر پیداہوناشروع ہوجاتے ہیں۔ یوں روزانہ بنیادوں پر ہم ہروقت کسی نہ کسی احساس یا جذبات کا تجربہ کررہے ہوتے ہیں۔

کسی زمانے میں آئی کیو یعنی یادداشت اور علمی ذہانت کو ہی کامیابی کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج کی ریسرچ سے بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کی کامیابی کیلئے آئی کیو سے زیادہ اہم جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کا کردار ہوتاہے۔


امریکی یونیورسٹی میں نفسیات کے ایک مشہور پروفیسر ڈینیل گولمین نے 1996 میں اپنی ایک کتاب جس کا نام  ہی ایموشنل انٹیلی جنس ہے، میں نہ صرف یہ انکشاف کیا بلکہ ثابت بھی کیا کہ انسانی کامیابی میں یاد داشت اور ذہانت سے بڑھ کر ایموشنل انٹیلی جنس یا جذباتی ذہانت کا کردار ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان اپنے جذبات کو پوری طرح سمجھ کر ان پر پورا کنٹرول رکھتا ہو اور بڑی عقل مندی سے ان کو مناسب جگہ استعمال کرسکتا ہو۔

بچوں کی جذباتی تربیت اور والدین کی ذمہ داری
انسانی جذبات اور کردار میں تعلق
انسان کے بارے کہاجاتاہے کہ وہ جذبات کی پیداوار ہے۔ جیسے اس کے جذبات ہوتے ہیں ویساہی اس کا کردار اور رویہ  تشکیل پا تاہے۔ انسان کے خوش اخلاق ہونے یا بداخلاق ہونے، نرم مزاج ہونے یا سخت مزاج ہونے، محبت یا نفرت کرنے میں بنیادی کردار اس کے جذبات ہی کا ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر زندگی میں وہ کامیاب ہے یا ناکام اس کا براہ راست تعلق بھی اس کے جذبات سے ہوتا ہے۔ کیونکہ جذبات سے اس کے رویے، کردار اور عادات تشکیل پاتے ہیں۔ جو اس کی منزل کا تعین کرتے ہیں۔

اپنے جذبات پر کام کیجئے۔
کامیابی کیلئے ہمیں اپنے جذبات کو سمجھ کر ان کو بہتربنانے پر کام کرنا پڑتاہے۔ جب تک نفسیات اور جذبات پر کام نہ کیا جائے، ان کو اچھی طرح سمجھ کرمتوازن نہ بنایاجائے۔ تب تک انسان کا ظاہری کرداراور رویہ بھی اعلی اور مثالی نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیاکہ جذبات دراصل خارجی عوامل کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔

بچوں میں جذباتی توازن پیداکرنے اور نفسیات پر کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ماحول کو درست کیا جائے۔ بچے کو جب اچھا ماحول ملتا ہے، محبت ملتی ہے، اعتماد ملتاہے اور احترام ملتاہے تو نتیجے  میں نیک جذبات کی پرورش ہوجاتی ہے۔ اور بچہ میں نفسیاتی طور پر توازن پیدا ہوجاتاہے۔

اوپر جن جذبات  کی نشاندہی کی گئی ،یہ سب فطری طور پر بچے کی جبلت میں پیدائش کے وقت سے موجود ہوتے ہیں۔ ایک مربی کاکام صرف ان میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اچھے جذبات کو پروان چڑھانا اور برے جذبات پر کنٹرول کرنا بچے کو سکھانا پڑتا ہے۔

جب والدین اور مربی بچے کو مناسب ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس بچے کو گھر میں والدین کی طرف سے پیار ملتا ہے محبت ملتی ہے اعتماد ملتا ہے۔ غلطی پر غیر ضروری غصے کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ پیار سے سمجھادیا جاتا ہے۔ تو جذبات میں توازن پیدا ہونا شروع ہوجاتاہے۔


جذبات پر عقل کو حاوی رکھئے۔
جذبات پر عقل کو حاوی رکھنا چاہیے، اور بچے کو بھی یہی کچھ سکھادینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے بچے بھی نفسیاتی اور جذباتی طور پر متوازن ہوجاتے ہیں۔ ان کی نفسیات اور جذبات نارمل انسان کے ہوتے ہیں۔ اس کا ذہنی عمل اور کردار دونوں درست کام کرنے لگتے ہیں۔ بچہ جذبات اور خواہشات کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے جذبات وخواہشات کو عقل کی روشنی میں پرکھنا جانتا ہے۔

مسلمان والدین کا شیوہ یہ ہونا چاہیے، کہ جذبات وخواہشات کو سب سے نیچے رکھ کر عقل کو ان پر حاوی رکھیں۔ جذبات وخواہشات کے تقاضوں کو عقل کی میزان پر پہلے تول لیں پھر اس کے مطابق پر عمل کریں۔ اور عقل پر وحی الہی کو حاکم بنائیں۔ توایک درست تناسب وجود میں آئے گا۔  اسی بات کی توفیق ملنے پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں ۔

کہ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس قابل بنایا کہ میں خواہشات وجذبات کو عقل کی ترازو میں تولتاہوں۔ اور عقل کو وحی الہی کے اصولوں پر پرکھتا ہوں۔یوں زندگی کے فیصلوں اور رویوں  میں سب سے اوپر شریعت ہوتی ہے، پھر عقل اورپھر جذبات وخواہشات کا نمبر آتاہے۔

بچوں کی تربیت میں یہی ترتیب ملحوظ رکھیں۔
والدین اور مربیوں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت میں یہی ترتیب ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی نظرمیں فائنل اتھارٹی شریعت الہی ہے۔ شریعت کے بعد دوسرا نمبر عقل کا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر یہ امتیازی جوہر رکھا ہے۔ جو دیگرمخلوقات سے اس کو ممتاز کردیتا ہے۔

اور اسی کی وجہ سے اس کو جزا ء وسزا کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے  بچوں کو بھی اپنے جذبات وخواہشات کو عقل کے تناظر میں پرکھنا سکھادینا چاہیے۔

جو والدین اپنے بچوں کو یہ ترتیب سکھانے میں کامیاب ہوں وہ یقینا وہ اپنی تربیت میں کامیاب کہلائیں گے۔ جذباتی طور پر بچوں کی متوازن شخصیت کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے ۔کہ والدین ان کو غیر مشروط محبت، احترام اور اعتماد دیں ۔


اپنے بچوں کے ساتھ خوشگوار اور مضبوط تعلقات استوار کریں۔ خود بھی خوش رہیں اور بچوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ بچوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کریں۔ ان کی صلاحتیوں اور کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھنا بچے کی صحت مند نفسیات  کے لئے زہر قاتل ہے۔

والدین خود بھی جذباتی توازن برقراررکھیں۔
والدین کا جذباتی اور نفسیاتی طور پر متوازن رویہ بچوں کے سامنے ایک نمونہ ہوتاہے۔ اس کو دیکھ  کربچے  خود کو بہتر کرسکتے ہیں اورجذباتی طور پرخود کو متوازن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ خدانخواستہ خود والدین جذباتی اور نفسیاتی طور پر نارمل نہ ہوں۔  وہ خود شدید جذباتی اور نفسیاتی بحران کا شکار ہوں۔

وہ بہت جلد غصہ میں آتے ہوں۔غصہ میں آپے سے باہر ہوجاتے ہوں۔کبھی اپنے چہرے سے خوشی کااظہارنہ کرتے ہوں۔ تو یقینا ان کے بچو ں پر اس کا  برا اثر بھی براہ راست اثر پڑے گا ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ والدین خود ابنارمل ہوں اور بچہ کو نارمل ہونا سکھا سکیں ۔

چنانچہ ایسے والدین کے لئے مشورہ ہے کہ وہ اپنے جذبات کی بہتری پر کام کریں۔ اگر بچپن میں کہیں خود ان کی اپنی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں ہوپائی تھی۔ یا وہ کسی بحران کا شکار ہوکر نفسیا تی عارضے یا جذباتی طور پر کسی انحراف کا شکار ہوگئے تھے۔

اب بچے کی نفسیاتی اور جذباتی تربیت کرنا چاہتے ہوں ۔ تو ان کو چاہیے پہلے اپنی نفسیات کی درستگی پر کام کریں۔ اپنے جذبات کو متوازن بنائیں۔گھر اور بچے کا ماحو ل درست ہو تو بچہ خود بخود نارمل اور جذباتی طورپر متوازن  ہوگا۔ انشاء اللہ

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک