امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حدیث بَضْعَۃ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

چرا پیامبر اکرم (ص) فرمودند فاطمه پاره تن من است؟ – خبرگزاری بین المللی  شفقنا

حدیث بَضْعَۃ، حضرت فاطمہؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی ایک مشہور حدیث ہے

جس میں آپؐ حضرت فاطمہؑ کو "اپنے وجود کا ایک حصہ" قرار دیتے ہوئے ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیتے ہیں۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت دونوں مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ مذکورہ حدیث کو حضرت زہراؑ کی عصمت و پاکدامنی، مسئلہ غصب فدک میں حضرت زہراؑ کی حقانیت اور تعظیم اہل بیتؑ کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔

اہل سنت کے بعض مصادر میں اس حدیث کے صادر ہونے کی وجہ امام علیؑ کے ابو جہل کی بیٹی سے رشتے کو بتایا گیا ہے۔ البتہ شیعہ علماء کے مطابق یہ حدیث جعلی ہے اور اس طرح کی روایات کے راوی جھوٹی حدیث گڑھنے اور جو اہل بیتؑ سے دشمنی سے متہم ہیں۔

متن حدیث اور اس کی اہمیت
حدیث بضعہ [یادداشت 1] کا شمار ان احادیث میں ہوتا ہے جسے سرکار دوعالمؐ نے اپنی دختر فاطمہؑ کے لئے فرمایا ہے کہ: «فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے اسے خوشحال کیا اس نے مجھے خوشحال کیا۔»[1] اس حدیث کا مضمون مختلف شیعہ و اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے۔[2] حضرت علی،[3] ابن عباس،[4] ابوذر غفاری[5] اور خود حضرت زہرا[6] اس حدیث کے راویوں میں ییں۔

اہل سنت مفسر قرآن، جلال الدین سیوطی کے مطابق، یہ حدیث شیعہ و اہل سنت کے یہاں مورد اتفاق ہے۔[7] فخر رازی، اہل سنت مفسر قرآن نے بعض آیات قرآن کی تفسیر میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔[8]

«بَضْعَةٌ مِنِّی» کا جملہ کلام پیغمبر گرامیؐ میں زیادہ تر حضرت زہراؑ کے بارے میں استعمال ہوا ہے[حوالہ درکار] البتہ یہ جملہ دوسری شخصیات جیسے حضرت علیؑ[9] اور امام رضا(ع)[10] کے لئے بھی پیغمبرؐ کے ذریعہ استعمال ہوا ہے۔ «بضعۃ» کے معنی بدن کے ٹکڑے کے ہیں۔[11] «فُلان بَضْعَةٌ مِنِّی» بہت زیادہ قربت و محبت کی وجہ سے متکلم یہ جملہ استعمال کرتا ہے گویا وہ شخص اس کے بدن کا ایک حصہ ہو۔[12]

مسئلۂ کلامی و فقہی میں اس سے استدلال
حدیث بضعہ کو علم کلام کے بعض مباحث کے اثبات کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

عصمت حضرت فاطمہ (س): شیعہ متکلمین حضرت زہراؑ کی عصمت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔[13] آیت اللہ جعفر سبحانی (ولادت: 1308 ش) فرماتے ہیں: حدیث بضعہ میں حضرت زہراؑ کی رضایت اور ناراضگی کو خدا اور اس کے رسول کی رضا اور ناراضگی کا محور اور معیار سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ خدا سوائے نیک اعمال کے خوشنود نہیں ہوتا اور گناہ اور اس کے احکامات کی نافرمانی پر راضی نہیں ہوتا تو اگر حضرت زہراؑ کسی بھی گناہ کی مرتکب ہوتیں یا اس کی فکر بھی اپنے ذہن میں لاتیں تو اس صورت میں وہ ایسی چیز سے خوشنود ہوتیں جس سے خداوند خوشنود نہ ہوتا، جب کہ حدیث بضعہ میں رضایت الہی کو رضایت حضرت زہرا سے متصل کیا گیا ہے۔ لہذا یہ حدیث ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔[14]

حضرت فاطمہ (س) کی خواتین عالم پر برتری: اہل سنت مفسر شہاب الدین آلوسی (1270 ھ)، اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے آیت وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ[؟–؟]،[15] کے ذیل میں دنیا کی تمام خواتین پر چاہے وہ حضرت مریم ہی کیوں نہ ہوں، حضرت زہراؑ کو ممتاز اور برتر قرار دیا ہے۔[16]

مسئلہ فدک میں حضرت فاطمہ کی حقانیت کا اثبات: آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد، حضرت فاطمہ زہرا نے (س) بستر بیماری پر شیخین سے استدلال میں اس حدیث سے استناد کیا تھا۔[17]

اسی طرح سے اہل بیت (ع) کی تعظیم کا وجوب،[18] باپ کے لئے اولاد کی گواہی قبول کرنے سے انکار یا اس کے برعکس،[19] ماؤں اور بیٹیوں کے ساتھ شادی کا حرام ہونا، [20] احترام والدین کا واجب ہونا،[21] نیز خواتین کے قبروں کی زیارت کے جواز کے سلسلہ میں اس روایت سے استناد کیا گیا ہے۔[22]

حدیث بضعہ کا استعمال حضرت علیؑ کے خلاف
بعض جوامع روائی میں حدیث بضعہ کو حضرت علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی عوراء[23] سے خواستگاری کے سلسلہ میں بتایا جاتا ہے۔ ابن حنبل نے عبداللہ بن زبیر سے نقل کیا کہ جب علیؑ اور دختر ابوجہل کی شادی کی خبر سرکار دو عالمؐ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: «اِنّها فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی یُوذینی ما آذَاها؛»[24] بعض دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح کے جملہ سرکار دوعالم سے صادر ہوئے ہیں: خدا کی قسم! دختر پیغمبرؐ اور دشمن خدا ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتے۔[25]

اسی طرح اور جگہ بھی نقل ہوا ہے کہ: جس وقت حضرت علیؑ نے ابوجہل کی بیٹی کے لئے اپنے چچا حارث بن ہاشم کے ذریعہ خواستگاری کی، حارث نے پیغمبر گرامیؑ کو اس مسئلہ سے آگاہ کیا تو آںحضرتؐ نے منع کرتے ہوئے فرمایا: «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی ولا اُحِبُ اَن تَجزَعَ وتَحزَن؛»؛ پھر حضرت علیؑ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں کوئی ایسا کام نہیں کرونگا جس سے فاطمہ ناراض ہوں۔[26] اسی طرح ملتی جلتی روایات دوسری جگہ بھی ہے جہاں آخر میں پیغمبر گرامیؐ نے قسم کجھائی کہ جب تک فاطمہ زندہ ہیں علی یہ کام نہیں کر سکتے۔[27] اور پھر تین مرتبہ فرمایا: میں اس کام کی اجازت نہیں دونگا اور اگر علی نے اس سے شادی کا قصد کر ہی لیا ہے تو پہلے فاطمہ کو طلاق دیں۔[28] ترمذی نے اس روایت کے ضمن میں کہا ہے کہ یہ روایت صحیح السند ہے۔[29]چونکہ امام علیؑ کا ابی جہل کی بیٹی سے شادی کرنا نبیؐ پر ظلم و ستم کا باعث ہے لہذا بعض نے اس شادی کو حرام سمجھا ہے۔[30]

امام علی ؑ کا دختر ابوجہل سے خواستگاری کے بارے میں حدیث بضعہ کے راویوں میں سے ایک ابو ہریرہ ہے اور جس پر جعل حدیث کا اتہام ہے۔[31] امام صادقؑ کی ایک روایت کی بنا پر اس حدیث کو ایک بدبخت انسان نے گڑھا ہے۔[32] بعض دوسری روایتوں کی بنا پر حضرت علیؑ کو جب اپنی شادی کی خبر دختر ابوجہل کے ساتھ ملی تو آپ نے پیغمبر گرامیؑ سے فرمایا: «خدا کہ قسم جس نے آپ کو مبعوث بہ رسالت کیا، نہ فقط یہ کہ میں نے اس کام کو نہیں کیا بلکہ اس طرح کی فکر بھی میرے ذہن میں نہیں آئی»۔[33]

حسین کاربیسی و مسور بن مخرمہ زہری جیسے افراد بھی اس روایت کے راوی ہیں کہ جو علم رجال کی بنا پر ضعیف اور غیر قابل اعتماد ہیں، کاربیسی تو اہل بیتؑ سے انحراف کے طور پر مشہور ہے ان کا دشمن اور ناصبی ہے جس کی بنا پر اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔[34] تاریخ کے محقق جعفر مرتضی عاملی نے متعدد روایت کی بنا پر حضرت علیؑ کی دختر ابوجہل سے خواستگاری کے مسئلہ کی بہت زیادہ نقد اور چھان بین کی ہے۔[35]

نوٹ
 بضعہ لغت عرب میں باء پر فتحہ کے ساتھ (بَضْعَة) اور کسرہ کے ساتھ بھی (بِضْعَة) آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔(ابن‌ منظور، لسان العرب، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۱۲؛ ابن‌ اثیر، النهایة، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۱۳۳.)
حوالہ جات
 شیخ صدوق، الامالی، ۱۴۱۷ق، ص۱۶۵۔
 برای نمونہ نگاه کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۱۰۵؛ شیخ مفید، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۲۶۰؛ شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۲۴؛ ابن‌ مغازلی، مناقب علی بن ابی‌ طالب، ۱۴۲۶ق، ص۲۸۹؛ ابن‌ جبرئیل، الروضة فی فضائل امیرالمؤمنین، ۱۴۲۳ق، ص۱۶۷؛ بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۲۱۰ و ۲۱۹.
 شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۵۷۳؛ فتال نیشابوری، روضة الواعظین، منشورات الشریف الرضی، ص۱۴۹.
 شیخ صدوق، الامالی، ‌۱۴۱۷ق، ص۱۷۵ و ۵۷۵.
 خزار قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۷.
 خزاز قمی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۶۴. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۶، ص۳۰۸.
 سیوطی، الثغور الباسمہ، ۱۴۳۱ق، ص۶۷.
 نگاه کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، چاپ سوم، ج۹، ص۱۶۰، ذیل آیہ ۱۸۹ سوره اعراف، ج۲۷، ص۲۰۰، ذیل آیہ ۱۵ سوره زخرف، ج۳۰، ص۱۲۶، ذیل آیہ ۱۹ سوره معارج.
 فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۴۷۷؛ بحرانی، البرہان، مؤسسۃ البعثۃ، ج۱، ص۲۶۱۔
 شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۲، ص۵۸۳ و ۵۸۸؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، منشورات الشریف الرضی، ص۲۳۳۔
 ابن‌ منظور، لسان العرب، ۱۴۰۵ھ، ج۸، ص۱۲؛ ابن‌ اثیر، النہایۃ، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۱۳۳۔
 راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۲۷ھ، ص۱۲۹؛ سمعانی، تفسیر سمعانی، ۱۴۱۸ھ، ج۳، ص۱۷۔
 نمونہ کے لئے دیکھیں سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۴، ص۹۵؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۳۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۹، ص۳۳۵-۳۳۸۔
 سبحانی، پژوہشی در شناخت و عصمت امام، ۱۳۸۹ش، ص۲۷۔
 سورہ آل عمران، آیہ ۴۲۔
 آلوسی، روح المعانی، بی‌تا، ج۳، ص۱۵۵۔
 ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، مؤسسہ اسماعیلیان، ج۱۶، ص۲۷۸؛ ایجی، المواقف، ۱۴۱۷ھ، ج۳، ص۵۹۷ و ۶۰۷۔
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، چاپ سوم، ج۲۷، ص۱۶۶۔
 ابن‌ عربی، احکام القرآن، دار الفکر، ج۱، ص۶۳۸؛ نگاہ کنید بہ ابن‌ قدامہ، المغنی، دار الکتاب العربی، ج۱۲، ص۶۶۔
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، چاپ سوم، ج۲۷، ص ۲۶۔
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، چاپ سوم، ج۲۰، ص۱۸۵۔
 شہید اول، ذکری الشیعۃ، ۱۴۱۹ھ، ج۲، ص۶۳۔
 نعمان مغربی، شرح الاخبار، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۳۱۔
 ابن‌حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج۴، ص۵۔
 صنعانی، المصنف، منشورات المجلس العلمی، ج۷، ص۳۰۱ و ۳۰۲؛ ابن‌حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج۴، ص۳۲۶؛ ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجہ، دار الفکر، ج۱، ص۶۴۴؛ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ھ، ج۴، ص۲۱۲۔
 نعمان مغربی، شرح الاخبار، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۶۴۔
 ابن‌مغازلی، مناقب علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۶ھ، ص۲۹۲ و ۲۹۳۔
 نیشابوری، صحیح مسلم، دار الفکر، ج۷، ص۱۴۱؛ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ھ، ج۶، ص۱۵۸؛ ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجہ، دار الفکر، ج۱، ص ۶۴۴؛ سجستانی، سنن ابی‌داود، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۴۶۰؛‌ نعمان مغربی، شرح الاخبار، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۶۱؛ ابن‌بطریھ، عمدۃ عیون صحاح الاخبار، ۱۴۰۷ھ، ص۳۸۵۔
 ترمذی، سنن الترمذی، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ص۳۵۹ و ۳۶۰؛ ر۔ ک: حاکم نیشابوری، المستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمن، ج۳، ص۱۵۹۔
 ابن‌شاہین، فضائل سیدۃ النساء، ۱۴۱۱ھ، ص۳۶۔
 ابن‌ شاذان، الایضاح، ۱۳۶۳ش، ص۵۴۱؛‌ تستری، قاموس الرجال، ۱۴۱۹ھ، ج۹، ص۱۱۱۔
 شیخ صدوق، الامالی،‌ ۱۴۱۷ھ، ص۱۶۵۔
 شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۱۸۶۔
 فضلی، اصول الحدیث، ۱۴۲۱ھ، ص۱۳۹۔
 جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ الامام علی، ۱۴۳۰ھ، ج۳، ص۶۱- ۷۴۔
مآخذ
ابن‌ ابی‌ الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بی جا، دار احیاء الکتب العربیہ، بےتا۔
ابن‌ اثیر، مجدالدین، النّہایۃ فی غریب الحدیث والأثر، تحقیق محمود محمد طناحی، قم، اسماعلیلیان، چاپ چہارم، ۱۳۶۴ہجری شمسی۔
ابن‌ بطریھ، یحیی، عمدۃ عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار، قم، النشر الاسلامی، ۱۴۰۷ق۔
ابن‌ حنبل، احمد، مسند احمد، بیروت، دار صادر، بےتا۔
ابن‌ سجستانی، سلمان، سنن ابی‌ داود، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۰ق۔
ابن‌ شاذان، فضل، الایضاح، تحقیق جلال‌ الدین حسینی، تہران، مؤسسۃ انتشارات، ۱۳۵۱ہجری شمسی۔
ابن‌ شاہین، عمر، فضائل سیدۃ النساء، تحقیق ابواسحاھ، القاہرۃ، مکتبۃ التربیۃ الاسلامیۃ، ۱۴۱۱ق۔
‌ ابن‌ شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب (ع)، قم، علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔
ابن‌ عربی، محمد، احکام القرآن، بیروت، دار الفکر، بےتا۔
ابن‌ قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، بیروت، دار الکتاب العربی، بےتا۔
ابن‌ ماجہ، محمد، سنن ابن‌ ماجۃ، تحقیق محمد فؤاد، بی‌جا، دار الفکر، بےتا۔
ابن‌ مغازلی، علی، مناقب علی بن ابی‌ طالب، بی‌جا، انتشارات سبط النبی، ۱۴۲۶ق۔
ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، بےتا۔
ایجی، المواقف، تحقیق عبدالرحمن عمیرۃ، بیروت، دار الجلیل، ۱۴۱۷ق۔
بحرانی، ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثۃ، بےتا۔
بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۱ق۔
ترمذی، محمد، سنن الترمذی، بیروت: دار الفکر، ۱۴۱۴ق۔
تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تحقیق مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم: النشر الاسلامی، ۱۴۲۸ق۔
حاکم نیشابوری، ابوعبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق یوسف عبدالرحمن، بیروت، دار المعرفۃ، بےتا۔
خزاز قمی، علی، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمّۃ الاثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی، قم، بیدار، ۱۴۰۱ق۔
راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان داوودی، بی‌جا، طلیعۃ النور،۱۴۲۶ق۔
سبحانی، جعفر، پژوہشی در شناخت و عصمت امام، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، ۱۳۸۹ش (نسخہ الکترونیک کتابخانہ قائمیہ)۔
سمعانی، منصور، تفسیر سمعانی، تحقیق یاسر بن ابراہیم و غنیم بن عباس، الریاض، دار الوطن، ۱۴۱۸ق۔
سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامۃ، تہران، مؤسسہ الصادق(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۰ق۔
سیوطی، جلال‌ الدین، الثغور الباسمہ فی مناقب السیدۃ فاطمۃ، جمعیۃ الآل والاصحاب، چاپ اول، ۱۴۳۱ق۔
شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشّیعۃ فی احکام الشّریعۃ، تحقیق مؤسسۃ آل البیت، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۱۹ق۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، تحقیق عصام عبدالسید، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، ۱۴۱۷ق۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق علی‌اکبر غفاری، بی‌جا، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیہ، بےتا۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، الحیدریۃ، ۱۳۸۵ق۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تحقیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۴۰۴ق۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۰۴ق۔
شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ق۔
شیخ مفید، محمد بن محمد، الامالی، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ق۔
صنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق حبیب الرّحمن الاعظمی، بی‌جا، المجلس العلمی، بےتا۔
فتال نیشابوری، محمد، روضۃ الواعظین، قم، منشورات الرضی، بےتا۔
فخر رازی، التفسیر الکبیر، تہران، دار الکتب العلمیۃ، بےتا۔
فضلی، عبدالہادی، اصول الحدیث، بیروت، مؤسسۃ ام القری للتحقیق والنشر، چاپ سوم، ۱۴۲۱ق۔
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۳ق۔
مرتضی عاملی، جعفر، الصحیح من سیرۃ الإمام علی، قم، ولاء المرتضی، ۱۴۳۰ق۔
مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بےتا۔
نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دار الفکر، بےتا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک