امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ولادت، نزول یا ظہور؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے احادیث آئمہ اہلبیت علیہم السلام پر مشتمل اپنی انسائیکلوپیڈیا کتاب بحار الانوار لکھی ہے۔

تحقیق و تفکر - ولادت یا ظہور؟ معصومین(ع) کی نظر میں٭ آجکل بعض شرپسند ایک  ایسی بات کو متنازعہ بنا رہے ہیں جو ہمارے ہاں آج تک اختلافی نہیں رہی۔ ہمارے  علمائے

جو اس وقت 110 جلدوں میں چھپی ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم حصہ امامت اور حجت کے متعلق ہے۔ جلد 25 میں آپ نے پہلے باب کا عنوان یہ رکھا ہے: أبواب خلقهم و طينتهم و أرواحهم صلوات الله عليهم‏ ان کے خلق ہونے کے ابواب ان کی طینت اور ارواح کے متعلق۔ باب 1بدو أرواحهم و أنوارهم و طينتهم ع و أنهم من نور واحد پہلا باب ان کے ارواح، انوار اور طینت کی شروعات اور یہ کہ آپ نور واحد ہیں۔ اس باب میں علامہ مجلسی نے محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولادت نوری کا ذکر کیا ہے جو کہ تمام مخلوق سے اول ہے۔ علامہ مجلسی نے دوسرا باب انکی جسمانی اور دنیوی ولادت کا بنایا ہے اور اس کا نام ہے: باب 2 أحوال‏ ولادتهم‏ عليهم السلام و انعقاد نطفهم و أحوالهم في الرحم و عند الولادة و بركات ولادتهم صلوات الله عليهم و فيه بعض غرائب علومهم و شئونه احوال۔ ان (ع) علیہم السلام کی ولادت کا، ان کے نطفے کے انعقاد کا رحم مادر میں اور ولادت کے وقت ان کے حالات اور ان کی ولادت کی برکات۔

کیونکہ آج کا پرآشوب دور ہے اور اہلبیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے عقاید پر ہر طرف سے حملہ ہے۔ کچھ افراد توحید کے نام پر محمد و آل محمد علیہم السلام کے کچھ نوری مقامات کا انکار کرتے ہیں تو کچھ غالی ان کی ہر انسانی صفت کے منکر ہیں اور اسی کے ذیل میں ولادت کے ہی منکر ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وہی عقیدہ رکھیں جو آئمہ اہلبیت علیہم السلام نے ہمیں سکھایا ہے۔ عشق و محبت میں ان کے بتائے ہوئے راستے سے آگے نکلنا ہی غلو ہے۔ شیعہ ہمیشہ امام کے پیچھے چلتا ہے اور غالی ہمیشہ امام کے آگے چلتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: إِنَّهُ شَرٌّ عَلَيْكُمْ أَنْ تَقُولُوا بِشَيْ‏ءٍ مَا لَمْ تَسْمَعُوهُ مِنَّا۔ یہ تمہاری انتہائی بری بات ہوگی کہ تم وہ عقیدہ رکھو جو تم نے ہم سے نہیں سنا۔ (اصول کافی۔ کتاب: الایمان و الکفر باب: الضلال حدیث: 1)
 
علامہ مجلسی نے اس ولادت امام کے حالات کے احوال میں 22 احادیث جمع کی ہیں، ہم انکا ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ ہماری ہدایت کا سبب بنے۔
1- ما، الأمالي للشيخ الطوسي الْمُفِيدُ عَنِ ابْنِ قُولَوَيْهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عِيسَى عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي يُولَدُ فِيهَا الْإِمَامُ لَا يُولَدُ فِيهَا مَوْلُودٌ إِلَّا كَانَ مُؤْمِناً وَ إِنْ وُلِدَ فِي أَرْضِ الشِّرْكِ نَقَلَهُ اللَّهُ إِلَى الْإِيمَانِ بِبَرَكَةِ الْإِمَامِ‏۔
ابو بصیر کہتا ہے میں نے سنا امام جعفر صادق علیہ السلام فرما رہے تھے: جس رات میں امام کی ولادت ہوتی ہے اس رات پیدا ہونے والا ہر بچہ مومن ہوتا ہے اگر وہ سرزمین شرک میں پیدا ہو تو امام کی برکت سے اللہ تبارک و تعالٰی اسے ایمان کی طرف منتقل کرتا ہے۔
 
2- فس، تفسير القمي أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا خَلَقَ اللَّهُ الْإِمَامَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ يَكْتُبُ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاًوَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالٰی امام کو ان کی ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے تو اس کے دائیں بازو پر لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔
 
3- وَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ حُمَيْدِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ أَنْ يَخْلُقَ‏ الْإِمَامَ أَخَذَ شَرْبَةً مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ فَأَعْطَاهَا مَلَكاً فَسَقَاهَا إِيَّاهَا فَمِنْ ذَلِكَ يَخْلُقُ الْإِمَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ اللَّهُ ذَلِكَ الْمَلَكَ إِلَى الْإِمَامِ فَكَتَبَ‏ بَيْنَ عَيْنَيْهِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا مَضَى ذَلِكَ الْإِمَامُ الَّذِي قَبْلَهُ رَفَعَ لَهُ مَنَاراً يُبْصِرُ بِهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ فَلِذَلِكَ يَحْتَجُّ بِهِ عَلَى خَلْقِهِ‏۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالٰی امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو عرش کے نیچے سے شربت لیتا ہے اور فرشتے کو عطا کرتا ہے۔ وہ اس کو (امام کی والدہ یا والد) کو پلاتا ہے۔ اس سے اللہ امام کو خلق کرتا ہے۔ جب اس (امام)  کی ولادت ہوتی ہے تو اللہ اس فرشتے کو بھیجتا ہے جو ان کی آنکھوں کے بیچ میں لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، وہ سننے والا علیم ہے۔  پھر جب وہ امام جو پہلے تھا وفات پاتا ہے تو نئے کے لئے نور کا ایک مینار بلند ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔ اسی کے ذیعے اللہ اپنی مخلوق پر حجت قائم فرماتا ہے۔ بيان: قوله ع إياها أي أُم الإمام ع و في بعض النسخ إياه كما في الكافي و في بعضها أباه بالموحدة و مفادهما واحد قوله فلذلك في بعض النسخ فبذلك أي يرفع المنار حيث يطلعه على أعمالهم فيصير شاهدا عليهم يحتج به يوم القيامة عليهم و في الكافي و فيما سيأتي و بهذا يحتج الله على خلقه أي بمثل هذا الرجل المتصف بتلك الأوصاف يحتج الله على خلقه و يوجب على الناس طاعته۔
 
4- ير، بصائر الدرجات عَبَّادُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ نُطْفَةَ الْإِمَامِ مِنَ الْجَنَّةِ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ إِلَى الْأَرْضِ وَقَعَ وَ هُوَ وَاضِعٌ يَدَهُ إِلَى الْأَرْضِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ لِمَ ذَاكَ قَالَ ع لِأَنَّ مُنَادِياً يُنَادِيهِ مِنْ جَوِّ السَّمَاءِ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ مِنَ الْأُفُقِ الْأَعْلَى يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ اثْبُتْ فَإِنَّكَ صَفْوَتِي مِنْ خَلْقِي وَ عَيْبَةُ عِلْمِي وَ لَكَ وَ لِمَنْ تَوَلَّاكَ أَوْجَبْتُ رَحْمَتِي وَ مَنَحْتُ جِنَانِي وَ أُحِلُّكَ جِوَارِي ثُمَّ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَأُصْلِيَنَّ مَنْ عَادَاكَ أَشَدَّ عَذَابِي وَ إِنْ أَوْسَعْتُ عَلَيْهِمْ فِي دُنْيَايَ مِنْ سَعَةِ رِزْقِي قَالَ فَإِذَا انْقَضَى صَوْتُ الْمُنَادِي أَجَابَهُ هُوَ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لاإِلهَ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قائِماً بِالْقِسْطِ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ‏ فَإِذَا قَالَهَا أَعْطَاهُ اللَّهُ الْعِلْمَ الْأَوَّلَ وَ الْعِلْمَ الْآخِرَ وَ اسْتَحَقَّ زِيَادَةَ الرُّوحِ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام کا نطفہ جنت سے ہے۔ پھر جب امام  ماں کے پیٹ سے زمین پر وارد ہوتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتا ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا، میں آپ پر فدا ہوں ایسا کیوں ہے؟ تو آپ (ع) نے فرمایا، کیونکہ افق اعلٰی پر عرش کے قلب سے آسمانوں کی فضا میں پکارنے والا پکارتا ہے، اے فلاں بن فلاں ثابت قدم رہ بے شک تو مخلوق  میں میرا برگزیدہ ہے، میرے علم کا ظرف ہے۔ تمارے لئے اور جو تمہاری ولایت رکھے گا اس کے لئے میرے اوپر رحمت واجب ہے۔ آپ کے لئے میری جنت اور میرا قرب حلال ہے۔ پھر مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تجھ سے دشمنی کرنے والے کو اپنے سخت عذاب سے سزا دونگا چاہے ان کو دنیا میں وسعت رزق  دوں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا، جب یہ منادی ختم ہوتی ہے تو امام ا س کا جواب دیتا ہے شھد اللہ انہ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور علم والوں نے انصاف کے ساتھ گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس کے سوا کسی کی بندگی جائز نہیں۔ وہ زبردست (اور ) حکمت والا ہے۔ جب امام کہہ چکا ہوتا ہے تو اللہ اسے علم اول و علم آخر عطا کرتا ہےاور شب قدر میں روح کے اضافے کا مستحق ہو جاتا ہے۔
بيان: قال الجزري فيه ينادي مناد من بطنان العرش أي من وسطه و قيل من أصله و قيل البطنان جمع بطن و هو الغامض من الأرض يريد من دواخل العرش أقول لعل المراد بالعلم الأول علوم الأنبياء و الأوصياء السابقين و بالعلم الآخر علوم خاتم الأنبياء أو بالأول العلم بأحوال المبدإ و أسرار التوحيد و علم ما مضى و ما هو كائن في النشأة الأولى و الشرائع و الأحكام و بالآخر العلم بأحوال المعاد و الجنة و النار و ما بعد الموت من أحوال البرزخ و غير ذلك و الأول أظهر۔
 
5- ير، بصائر الدرجات مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِي دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ الْإِمَامَ أَنْزَلَ قَطْرَةً مِنْ مَاءِ الْمُزْنِ فَيَقَعُ عَلَى كُلِّ شَجَرَةٍ فَيَأْكُلُ مِنْهُ ثُمَّ يُوَاقِعُ فَيَخْلُقُ اللَّهُ مِنْهُ الْإِمَامَ فَيَسْمَعُ الصَّوْتَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ رُفِعَ لَهُ مَنَارٌ مِنْ نُورٍ يَرَى أَعْمَالَ الْعِبَادِ فَإِذَا تَرَعْرَعَ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: بے شک جب اللہ کا ارادہ امام کے خلق کرنے کا ہوتا ہے تو مزن  (عرش سے) سے ایک قطرہ نازل فرماتا ہے وہ شجر پر پڑتا ہے۔ اس میں سے (امام کا والد) کھاتا ہے پھر وہ معاملہ ہوتا ہے اور اللہ اس سے امام کو خلق کرتا ہے۔ وہ ماں کے پیٹ میں آواز سنتا ہے۔ جب زمین پر وارد ہوتا ہے تو اس کے لئے نور کا ایک مینار بلند ہوتا ہےجس کے ذریعہ وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔ پھر جب حرکت کرتا ہے تو اس دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے، تمت کلمت ربک۔۔۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ بيان: الأكثر فسروا المزن بالسحاب أو أبيضه أو ذي الماء و يظهر من الأخبار أنه اسم للماء الذي تحت العرش.
 
6- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع‏ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ عَلَى الْإِمَامِ فَلْيَنْظُرْ مَا يَتَكَلَّمُ بِهِ فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْمَعُ الْكَلَامَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا هِيَ وَضَعَتْهُ سَطَعَ لَهَا نُورٌ سَاطِعٌ إِلَى السَّمَاءِ وَ سَقَطَ وَ فِي عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ مَكْتُوبٌ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا هُوَ تَكَلَّمَ رَفَعَ اللَّهُ لَهُ عَمُوداً يُشْرِفُ‏ بِهِ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ يَعْلَمُ بِهِ أَعْمَالَهُمْ‏۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی امام کے پاس حاضر ہو تو خیال رکھے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ بیشک امام ماں کے پیٹ میں کلام کو سنتا ہے۔ جب وہ اسے ولادت دیتی ہے تو امام کے لئے ایک نور کا مینار آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے۔ ولادت کے وقت  اسکے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب وہ بولتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے لیے (نور کا) ایک مینار بلند کرتا ہےجس میں وہ اہل ارض کو دیکھتا ہےاور ان کے اعمال سے واقف ہوتا ہے۔
 
7- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ الْإِمَامُ يَسْمَعُ الصَّوْتَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا سَقَطَ إِلَى الْأَرْضِ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا تَرَعْرَعَ نَصَبَ لَهُ عَمُوداً مِنْ نُورٍ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ يَرَى بِهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام ماں کے پیٹ میں آواز سنتا ہے۔ جب زمین پر اس کی ولادت ہوتی ہے تو اس کے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے، تمت کلمت۔۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ جب حرکت کرتا ہے تو اس کے لئے آسمان سے زمین تک نور کا ایک مینار بلند کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔
 
8- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ الْهَمَدَانِيِّ وَ غَيْرِهِ رَوَاهُ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْبِضَ رُوحَ إِمَامٍ وَ يَخْلُقَ مِنْ بَعْدِهِ إِمَاماً أَنْزَلَ قَطْرَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ إِلَى الْأَرْضِ فَيُلْقِيهَا عَلَى ثَمَرَةٍ أَوْ عَلَى بَقْلَةٍ فَيَأْكُلُ تِلْكَ الثَّمَرَةَ أَوْ تِلْكَ الْبَقْلَةَ الْإِمَامُ الَّذِي يَخْلُقُ اللَّهُ مِنْهُ نُطْفَةَ الْإِمَامِ الَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ قَالَ فَيَخْلُقُ اللَّهُ مِنْ تِلْكَ الْقَطْرَةِ نُطْفَةً فِي الصُّلْبِ ثُمَّ يَصِيرُ إِلَى الرَّحِمِ فَيَمْكُثُ فِيهَا أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فَإِذَا مَضَى لَهُ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً سَمِعَ الصَّوْتَ فَإِذَا مَضَى لَهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا خَرَجَ إِلَى الْأَرْضِ أُوتِيَ الْحِكْمَةَ وَ زُيِّنَ بِالْعِلْمِ وَ الْوَقَارِ وَ أُلْبِسَ الْهَيْبَةَ وَ جُعِلَ لَهُ مِصْبَاحٌ مِنْ نُورٍ يَعْرِفُ بِهِ الضَّمِيرَ وَ يَرَى بِهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ۔
ير، بصائر الدرجات أحمد بن محمد عن الأهوازي عن مقاتل عن الحسين بن أحمد عن يونس بن ظبيان‏ مثله‏- ير، بصائر الدرجات محمد بن عبد الجبار عن ابن أبي نجران عن ابن محبوب عن مقاتل‏ مثله‏۔ بتغيير ما أوردناه في باب صفات الإمام ع شي، تفسير العياشي عن يونس‏ مثله‏۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ چاہتا ہے کہ امام کی روح قبض کرے اور اس کے بعد کے امام کو خلق کرے تو عرش کے نیچے سے ایک قطرہ زمین پر نازل کرتا ہے۔ وہ کسی میوے یا سبزی  پر پڑتا ہے۔ پھر (امام کا والد) اس میوے یا سبزی کو کھاتا ہے جس سے اللہ آنے والے امام کا نطفہ خلق کرتا ہے۔ آپ (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس قطرہ سے صلب امام میں نطفہ خلق کرتا ہے۔ پھر وہ نطفہ رحم میں جاتا ہے۔ وہاں پر وہ چالیس رات رہتا ہے۔ جب اس پر چالیس شب گذر جاتی ہیں تو وہ آواز کو سنتا ہے۔ جب چار مہینے گذرتے ہیں تو اس کے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے تمت کلمت ربک ۔۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب زمین کی طرف باہر آتا ہے تو اسے حکمت عطا کی جاتی ہے، اسے علم اور وقار سے آراستہ کیا جاتا ہے اور اسے ہیبت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔اسکے لیے نور کا ایک چراغ فراہم کیا جاتا ہے جس سے وہ چھپی چیزیں جانتا ہےاور اس سے بندوں کے اعمال کو دیکھتا ہے۔
 
9- ير، بصائر الدرجات مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِذَا أَحَبَّ أَنْ‏يَخْلُقَ الْإِمَامَ أَمَرَ مَلَكاً أَنْ يَأْخُذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيَهَا إِيَّاهُ فَمِنْ ذَلِكَ يَخْلُقُ الْإِمَامَ وَ يَمْكُثُ أَرْبَعِينَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِي بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِي كَانَ مِنْ قَبْلِهِ رَفَعَ لِهَذَا مَنَاراً مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِهِ‏۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ امام کو خلق کرے تو فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ عرش کے نیچے سے شربت لے اور (امام کے والد کو جا کر) پلائے۔ اس سے امام کو خلق کیا جاتا ہے۔ پھر چالیس روز و  شب وہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے تو پہلے آواز نہیں سنتا لیکن اب سنتا ہے۔۔ جب اس کی ولادت ہوتی ہے اللہ اس فرشتے کو بھیجتا ہےجو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھتا ہے تمت کلمت ربک اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب اس امام کی وفات ہوتی ہے جو پہلے تھا تو  اس (نئے ) کے لئے نور کا مینار بلند ہوتا ہےجس کے ذریعہ وہ مخلوق کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ پھر اللہ اس کے ذریعہ اپنی مخلوق پر حجت تمام کرتا ہے۔
 
10- ير، بصائر الدرجات الْهَيْثَمُ بْنُ أَبِي مَسْرُوقٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ إِنَّ الْإِمَامَ مِنَّا يَسْمَعُ الْكَلَامَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ بَعَثَ اللَّهُ مَلَكاً فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ ثُمَّ يُرْفَعُ لَهُ عَمُودٌ مِنْ نُورٍ يَرَى بِهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا، ہم (امام) ماں کے پیٹ میں کلام سنتے ہیں۔ جب زمین پر ولادت ہوتی ہے تواللہ تعالی ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کے بازو پر لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر اس کے لئے نور کا مینار بلند ہوتا ہےجس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔
 
11- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْحُصَيْنِ الْحُصَيْنِيِّ وَ الْمُخْتَارِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي سُكَيْنَةَ عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أُوَدِّعُهُ فَقَالَ اجْلِسْ شِبْهَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ يَا إِسْحَاقُ كَأَنَّكَ تَرَى أَنَّا مِنْ هَذَا الْخَلْقِ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِمَامَ مِنَّا بَعْدَ الْإِمَامِ يَسْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَضَعَتْهُ أُمُّهُ كَتَبَ اللَّهُ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا شَبَّ وَ تَرَعْرَعَ نُصِبَ لَهُ عَمُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْعِبَادِ۔ بيان: شب أي صار شابا و ترعرع الصبي تحرك و نشأ.و اعلم أنه لا تنافي بين تلك الأخبار إذ يحتمل أن تكون الكتابة في جميع المواضع و الأوقات المذكورة إما حقيقة أو تجوزا كناية عن جعله مستعدا للإمامة و الخلافة و محلا لإفاضة العلوم الربانية و مستنبطا منه آثار العلم و الحكمة من جميع جهاته و حركاته و سكناته و كذا عمود النور إما المراد به النور حقيقة بأن يخلق الله تعالى‏له نورا يظهر فيه أعمال العباد أو هو كناية عن روح القدس كما سيأتي في الخبر أو ملك يأتي بالأخبار إليه كما دلت رواية عليه أو جعله محلا للإلهامات الربانية و الإفاضات السبحانية و الله يعلم.
اسحاق بن عمار کہتا ہے: میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے الوداع کہنے گیا۔ آپ (ع) نے غصہ کی کیفیت مین فرمایا، بیٹھ جاؤ۔  پھر فرمایا: اے اسحاق! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں اس مخلوق کی طرح ہوں؟ کیا نہیں جانتے کہ ہم میں سے جو  امام کے بعد امام  ہوتا ہے وہ اپنی ماں کے پیٹ میں سنتا ہے۔ جب اس کی ماں اسکو ولادت دیتی ہے تو اس کے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب وہ جوان ہوتا ہے اور حرکت کرتا ہے تو اسکے لئے آسمان سے زمین تک نور کا ایک مینار نصب  ہوتا ہےجس سے بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔
 
12- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَحْمَدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ يُونُسَ‏ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ خَلْقَ إِمَامٍ أَنْزَلَ قَطْرَةً مِنْ تَحْتِ عَرْشِهِ عَلَى بَقْلَةٍ مِنْ بَقْلِ الْأَرْضِ أَوْ ثَمَرَةٍ مِنْ ثِمَارِهَا فَأَكَلَهَا الْإِمَامُ الَّذِي يَكُونُ مِنْهُ الْإِمَامُ فَكَانَتِ النُّطْفَةُ مِنْ تِلْكَ الْقَطْرَةِ فَإِذَا مَكَثَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْماً سَمِعَ الصَّوْتَ فَإِذَا مَضَى أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا سَقَطَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ أُوتِيَ الْحِكْمَةَ وَ جُعِلَ لَهُ مِصْبَاحٌ يَرَى بِهِ أَعْمَالَهُمْ‏۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالٰی امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک قطرہ زمین کی کسی سبزی پر یا کسی میوہ پر نازل کرتا ہے۔ وہ امام کھاتا ہے جس سے امام وجود میں آنا ہوتا ہے۔ وہ قطرہ نطفہ بن جاتا ہے۔ پھر جب ماں کے پیٹ میں چالیس دن رہتا ہے تو آواز سنتا ہے۔ جب چار مہینے گذر جاتے ہیں تو اسکے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے تمت کلمت ربک۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب مان کے پیٹ سے ولادت پاتا ہے تو اسے حکمت عطا کی جاتی ہے اور اس کے لئے ایک چراغ مہیا کیا جاتا ہے جس سے بندوں کے اعمال کو دیکھتا ہے۔

13- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ خَالِدٍ الْجَوَّانِ عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ: إِنَّ الْإِمَامَ لَيَسْمَعُ الصَّوْتَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا فُصِلَ مِنْ أُمِّهِ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا أُفْضِيَتْ إِلَيْهِ الْأُمُورُ رُفِعَ لَهُ عَمُودٌ مِنْ نُورٍ يَرَى بِهِ أَعْمَالَ الْخَلَائِقِ‏۔
صادقین (ع) میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ فرمایا امام اپنی ماں کے پیٹ میں آواز سنتا ہے۔ پھر جب ماں سے ولادت پاتا ہے تو اس کے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب امور امامت اس کے سپرد ہوتے ہیں تو اس کے لئے نور کا ایک مینار بلند ہوتا ہےجس سے وہ مخلوق کے اعمال دیکھتا ہے۔
 
14- ير، بصائر الدرجات عَمَّارُ بْنُ يُونُسَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ نُوحٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَامِرٍ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُسْلِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الْإِمَامَ يَسْمَعُ الصَّوْتَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وُلِدَ خُطَّ عَلَى مَنْكِبَيْهِ خَطٌّ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا، اے محمد! یہ حقیقت  ہے کہ امام اپنی ماں کے پیٹ میں آواز سنتا ہے۔ جب اس کی ولادت ہوتی ہے تو اسکے دونوں شانوں پر لکھا جاتا ہے تمت کلمت ربک۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔
 
15- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْخَزَّازِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَحْمَدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُحْبَلَ بِإِمَامٍ أُوتِيَ بِسَبْعِ وَرَقَاتٍ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَكَلَهُنَّ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ فَإِذَا وَقَعَ فِي الرَّحِمِ سَمِعَ الْكَلَامَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَضَعَتْهُ رُفِعَ لَهُ عَمُودٌ مِنْ نُورٍ فِيمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ كَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏۔ بيان: أوتي أي أبوه بقرينة المقام أو يكون الإسناد فيه و في الأكل على المجاز فإنه لما كان مادة له فكأنه أكله و يمكن الجمع بينه و بين سائر الأخبار الواردة في مادة نطفة الإمام بتحقق جميع تلك الأمور و انعقادها منها جميعا أو بأنه لا بد من تحقق أحدها و الأول أظهر
جب اللہ تبارک و تعالی کا ارادہ ہوتا ہے کہ (مادر امام) امام سے حاملہ ہو تو جنت کے سات پتے لائے جاتے ہیں اور ہمبستری سے پہلے (امام کے والد کو) کھلائے جاتے ہیں۔ پھر جب امام اپنی ماں کے رحم میں آتا ہے تو آواز سنتا ہے۔ جب اس کی ولادت ہوتی ہے تو اس کے لیے نور کا ایک مینار زمین اور آسمان کے درمیان بلند ہوتا ہے اور اس کے دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے، تمت کلمت ربک۔۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔
 
16- ير، بصائر الدرجات عَبَّادُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا اسْتَقَرَّتْ نُطْفَةُ الْإِمَامِ فِي الرَّحِمِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً نَصَبَ اللَّهُ لَهُ عَمُوداً مِنْ نُورٍ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا تَمَّ لَهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَتَاهُ مَلَكٌ يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَيَكْتُبُ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جب امام کا نطفہ اس کی ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے اور چالیس دن گذرتے ہیں تو اللہ تعالی اس کے لئے نور کا ایک مینار بلند  فرماتا ہے۔ پھر اسے اپنی ماں کے پیٹ میں جب چار مہینے گذرتے ہیں تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جسے حیوان کہا جاتا ہے وہ اس کے دائیں بازو پر لکھتا ہے۔۔تمت کلمت ربک۔۔ اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔
 
17- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمٍ‏ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي السَّنَةِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا ابْنُهُ مُوسَى ع فَلَمَّا نَزَلْنَا الْأَبْوَاءَ وَضَعَ لَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع الْغَدَاءَ وَ لِأَصْحَابِهِ وَ أَكْثَرَهُ وَ أَطَابَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ نَتَغَدَّى إِذْ أَتَاهُ رَسُولُ حَمِيدَةَ أَنَّ الطَّلْقَ قَدْ ضَرَبَنِي وَ قَدْ أَمَرْتَنِي أَنْ لَا أَسْبِقَكَ بِابْنِكَ هَذَا فَقَامَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَرِحاً مَسْرُوراً فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ عَادَ إِلَيْنَا حَاسِراً عَنْ ذِرَاعَيْهِ ضَاحِكاً سِنُّهُ فَقُلْنَا أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ وَ أَقَرَّ عَيْنَكَ مَا صَنَعَتْ حَمِيدَةُ فَقَالَ وَهَبَ اللَّهُ لِي غُلَاماً وَ هُوَ خَيْرُ مَنْ بَرَأَ اللَّهُ وَ لَقَدْ خَبَّرَتْنِي عَنْهُ بِأَمْرٍ كُنْتُ أَعْلَمَ بِهِ مِنْهَا قُلْتُ‏جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا خَبَّرَتْكَ عَنْهُ حَمِيدَةُ قَالَ ذَكَرَتْ أَنَّهُ لَمَّا وَقَعَ مِنْ بَطْنِهَا وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَأَخْبَرْتُهَا أَنَّ تِلْكَ أَمَارَةُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ أَمَارَةُ الْإِمَامِ مِنْ بَعْدِهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا تِلْكَ مِنْ عَلَامَةِ الْإِمَامِ فَقَالَ إِنَّهُ لَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُلِقَ بِجَدِّي فِيهَا أَتَى آتٍ جَدَّ أَبِي وَ هُوَ رَاقِدٌ فَأَتَاهُ بِكَأْسٍ فِيهَا شَرْبَةٌ أَرَقُّ مِنَ الْمَاءِ وَ أَبْيَضُ مِنَ اللَّبَنِ وَ أَلْيَنُ مِنَ الزُّبْدِ وَ أَحْلَى مِنَ الشَّهْدِ وَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ فَسَقَاهُ إِيَّاهُ وَ أَمَرَهُ بِالْجِمَاعِ فَقَامَ فَرِحاً مَسْرُوراً فَجَامَعَ فَعُلِقَ فِيهَا بِجَدِّي وَ لَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُلِقَ فِيهَا بِأَبِي أَتَى آتٍ جَدِّي فَسَقَاهُ كَمَا سَقَى‏ جَدَّ أَبِي وَ أَمَرَهُ بِالْجِمَاعِ فَقَامَ فَرِحاً مَسْرُوراً فَجَامَعَ فَعُلِقَ بِأَبِي وَ لَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُلِقَ بِي فِيهَا أَتَى آتٍ أَبِي فَسَقَاهُ وَ أَمَرَهُ كَمَا أَمَرَهُمْ فَقَامَ فَرِحاً مَسْرُوراً فَجَامَعَ فَعُلِقَ بِي وَ لَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُلِقَ فِيهَا بِابْنِي هَذَا أَتَانِي آتٍ كَمَا أَتَى جَدَّ أَبِي وَ جَدِّي وَ أَبِي فَسَقَانِي كَمَا سَقَاهُمْ وَ أَمَرَنِي كَمَا أَمَرَهُمْ فَقُمْتُ فَرِحاً مَسْرُوراً بِعِلْمِ اللَّهِ‏ بِمَا وَهَبَ لِي فَجَامَعْتُ فَعُلِقَ بِابْنِي وَ إِنَّ نُطْفَةَ الْإِمَامِ مِمَّا أَخْبَرْتُكَ فَإِذَا اسْتَقَرَّتْ فِي الرَّحِمِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً نَصَبَ اللَّهُ لَهُ عَمُوداً مِنْ نُورٍ فِي بَطْنِ أُمِّهِ يَنْظُرُ مِنْهُ مَدَّ بَصَرِهِ فَإِذَا تَمَّتْ لَهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ أَتَاهُ مَلَكٌ يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ وَ كَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ فَإِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا وَضَعَ يَدَهُ إِلَى الْأَرْضِ فَإِنَّهُ يَقْبِضُ كُلَّ عِلْمٍ أَنْزَلَهُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَ أَمَّا رَفْعُهُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِنَّ مُنَادِياً يُنَادِي مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ مِنْ قِبَلِ رَبِّ الْعِزَّةِمِنَ الْأُفُقِ الْأَعْلَى بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِيهِ يَقُولُ يَا فُلَانُ اثْبُتْ ثَبَّتَكَ اللَّهُ فَلِعَظِيمٍ مَا خَلْقُكَ‏أَنْتَ صَفْوَتِي مِنْ خَلْقِي وَ مَوْضِعُ سِرِّي وَ عَيْبَةُ عِلْمِي لَكَ وَ لِمَنْ تَوَلَّاكَ أَوْجَبْتُ رَحْمَتِي وَ أَسْكَنْتُ جَنَّتِي وَ أَحْلَلْتُ جِوَارِي ثُمَّ وَ عِزَّتِي لَأُصْلِيَنَّ مَنْ عَادَاكَ أَشَدَّ عَذَابِي وَ إِنْ أَوْسَعْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سَعَةِ رِزْقِي فَإِذَا انْقَضَى صَوْتُ الْمُنَادِي أَجَابَهُ الْوَصِيُ‏ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ إِلَى آخِرِهَا فَإِذَا قَالَهَا أَعْطَاهُ اللَّهُ عِلْمَ الْأَوَّلِ وَ عِلْمَ الْآخِرِ وَ اسْتَوْجَبَ زِيَارَةَ الرُّوحِ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَيْسَ الرُّوحُ جَبْرَئِيلَ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَ الرُّوحُ خَلْقٌ أَعْظَمُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَ لَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ‏ تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَ الرُّوحُ‏۔
 ابوبصیر کہتا ہے میں امام جعفر صادق  (ع) کے ساتھ تھا جس سال آپ کے بیٹے امام موسٰی کاظم کی ولادت ہوئی۔ جب ہم (حج پر جاتے ہوئے) ابواء کے مقام پر اترے تو امام صادق علیہ السلام نے ہمارے لئے وسیع اور لذیذ ناشتے کا اہتمام کیا۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں حمیدہ خاتون کا پیغام لے کر کوئی آیا کہ ولادت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں اور آپ نے حکم دیا تھا کہ میں اس بیٹے کی ولادت میں آپ سے سبقت کرکے کوئی کام نہ کروں۔ امام علیہ السلام مسرت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ تھوڑی دیر گذری کہ آپ  واپس آئے آپ نے آستینیں اٹھائی ہوئی تھیں اور ہنس رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا، اللہ تعالٰی آپ کو ہنستا مسکراتا اور خوش رکھے حمیدہ خاتون سے کیا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا، مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا ہے، جو بہترین خلق خدا ہے۔ اس کی ماں نے مجھے اس کے متعلق  ایسی بات بتائی کہ جسے میں ان سے زیادہ جانتا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب یہ بچہ  ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے اور سر آسمان کی طرف بلند کئے ہوئے  تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ رسول اللہ اور ان کے بعد کے امام کی نشانی ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا، مولا یہ چیز امام کی نشانی کیسے ہے؟  آپ (ع)  نے فرمایا، جس رات میرے دادا کا نطفہ ٹھہرا اس رات میرے بابا کے دادا کے پاس خواب میں آنے والا آیا جس نے ایک ظرف پیش کیا، جس میں پانی سے زیادہ نرم، دودھ سے زیادہ سفید، مکھن سے زیادہ ملائم، شہد سے زیادہ شیریں اور برف سے زیادہ ٹھنڈا مشروب تھا اور انکو پلایا۔ پھر ان کو جماع کا حکم دیا آپ خوش خوش اٹھے اور جماع کیا اور اس سے میرے دادا کا نطفہ ٹھہرا۔ جس رات میرے بابا کا نطفہ ٹھہرا آنے والا میرے دادا کے پاس آیا اور اسے ویسا ہی شربت پلایا جیسا میرے دادا کے بابا کو پلایا تھا۔ پھر انہیں جماع کا حکم دیا۔ میرے دادا خوشی خوشی اٹھے اور جماع کیا اور میرے بابا کا نطفہ ٹھہرا۔ جس رات میرا نطفہ ٹھہرا آنے والا میرے بابا کے پاس آیا اور ویسا ہی شربت لایا اور وہی حکم دیا۔ میرے بابا خوشی خوشی اٹھے اور جماع کیا اور میرا نطفہ ٹھہرا۔ جس رات میرے اس بیٹے کا نطفہ ٹھہرا ویسا ہی ہوا جیسے میرے پردادا، دادا اور میرے بابا کے ساتھ پیش آیا تھا مجھے ویسا شربت پلایا گیا اور وہی حکم دیا۔ میں خوشی خوشی اٹھا اور مجھے معلوم تھا کہ مجھے اللہ تعالٰی نے کیا عطا فرمایا ہے۔ میں ہمبستر ہوا اور میرے اس بیٹے کا نطفہ ٹھہرا۔ امام کا نطفہ اسی سے ٹھہرتا ہے جسے میں نے بیان کیا ہے۔
 
جب چالیس دن تک اپنی ماں کے پیٹ میں رہتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے لئے رحم مادر میں نور کا ایک مینار بلند فرماتا ہے جس سے وہ (بندوں کے اعمال)  آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ پھر جب اسے ماں کے پیٹ میں چار مہینے گذرتے ہیں تو ایک فرشتہ جسے حیوان کہا جاتا ہے آتا ہے اور انکے دائیں بازو پر لکھتا ہے، تمت کلمت ربک۔۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ پھر جب ماں کے پیٹ سے وارد ہوتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور سر آسمان کی طرف بلند کرتا ہے۔ جب وہ زمین پر ہاتھ رکھتا ہے تو جو علم اللہ تعالٰی زمین پر نازل کر چکا ہوتا ہے اسےحاصل کر لیتا ہے اور آسمان کی طرف سربلند کرتا ہے کیونکہ عرش کے قلب سے، افق اعلٰی پر رب العزت کی طرف سے منادی ندا کرتی ہے اس کا اور اس کے بابا کا نام لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے اے فلان ثابت قدم رہ اللہ تمہیں ثابت قدم رکھے۔ تیری عظیم خلقت کے سبب تو مخلوق میں میرا برگزیدہ ہے، تو میرے راز کا رازدان اور علم کا ظرف ہے۔ تو اور تیرا محب میری رحمت کا حقدار ہے، جنت میں ساکن اور میرے قرب میں رہے گا۔ مجھے اپنی عزت کی قسم ! پھر جو تم سے دشمنی کرے گا اسے اپنے شدید عذاب سے سزا دونگا چاہے اسے دنیا میں رزق کی وسعت دوں۔ جب یہ منادی مکمل ہوتی ہے تو امام جواب دیتا ہے، شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ إِلَى آخِرِهَا، "اللہ تعالٰی، فرشتوں اور علم والوں نے انصاف کے ساتھ گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس کے سوا کسی کی بندگی جائز نہیں۔ وہ زبردست (اور ) حکمت والا ہے"۔ جب امام  یہ آیت تلاوت کرتا ہے تو اللہ اسے علم اول و علم آخر عطا فرماتا ہے اور وہ شب قدر میں زیارت روح کا حقدار بنتا ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا، کیا جبرائیل ہی روح نہیں ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا، جبرائیل ملائکہ میں سے ہے جبکہ روح  تمام ملائکہ سے عظیم مخلوق ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَ الرُّوحُ‏ ملائکہ اور روح نازل ہوتا ہے۔
 
18- ير، بصائر الدرجات الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُعَلَّى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ إِنَّ الْإِمَامَ يَعْرِفُ نُطْفَةَ الْإِمَامِ الَّتِي يَكُونُ مِنْهَا إِمَامٌ بَعْدَهُ‏۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا، امام اس نطفے کو جانتا ہے جس سے بعد والا امام پیدا ہوتا ہے۔
 
19- ك، إكمال الدين ابْنُ عُبْدُوسٍ عَنِ ابْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ حَمْدَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى ع يَقُولُ‏ لَمَّا وُلِدَ الرِّضَا ع إِنَّ ابْنِي هَذَا وُلِدَ مَخْتُوناً طَاهِراً مُطَهَّراً وَ لَيْسَ مِنَ الْأَئِمَّةِ أَحَدٌ يُولَدُ إِلَّا مَخْتُوناً طَاهِراً مُطَهَّراً وَ لَكِنَّا سَنُمِرُّ الْمُوسَى لِإِصَابَةِ السُّنَّةِ وَ اتِّبَاعِ الْحَنِيفِيَّةِ۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے فرمایا،جب میرے اس بیٹے رضا کی ولادت ہوئی تو ختنہ شدہ، طاہر، مطہر پیدا ہوا۔ آئمہ میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو ختنہ شدہ، طاہر اور مطہر پیدا نہ ہو، لیکن ہم تیغ کو استعمال کرتے ہیں سنت اور حنیفیت کی خاطر۔
 
20- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنِ الْخَيْبَرِيِّ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏ ثُمَّ قَالَ هَذَا حَرْفٌ فِي الْأَئِمَّةِ خَاصَّةً ثُمَّ قَالَ يَا يُونُسُ إِنَّ الْإِمَامَ‏يَخْلُقُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ لَا يَلِيهِ أَحَدٌ غَيْرُهُ وَ هُوَ جَعَلَهُ يَسْمَعُ وَ يَرَى فِي بَطْنِ أُمِّهِ حَتَّى إِذَا صَارَ إِلَى الْأَرْضِ خَطَّ كَتِفَيْهِ‏وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ‏ الْآيَةَ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے"۔ پھر آپ نے فرمایا، یہ حرف مخصوص ہے آئمہ کے ساتھ۔ پھر فرمایا، اے یونس! اللہ اسے اپنے ہاتھ سے خلق فرماتا ہے اور یہ کام کسی اور کے حوالے نہیں کرتا ہے۔ وہی اسے ماں کے پیٹ میں سننے اور دیکھنے والا بناتا ہے۔ پھر جب زمین پر آتا ہے تو اس کے دونوں شانوں پر لکھا جاتا ہے۔ تمت کلمت ربک۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔
 
21- ير، بصائر الدرجات أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ رَوَاهُ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع‏ لَا تَكَلَّمُوا فِي الْإِمَامِ فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْمَعُ الْكَلَامَ وَ هُوَ جَنِينٌ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَضَعَتْهُ كَتَبَ الْمَلَكُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ‏ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ‏ فَإِذَا قَامَ بِالْأَمْرِ رَفَعَ اللَّهُ لَهُ فِي كُلِّ بَلَدٍ مَنَاراً يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ‏۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا، امام (کو نصب کرنے) کے متعلق کلام نہ کرو امام تو اس وقت کلام سنتا ہے جب ماں کے پیٹ میں ہو۔ پھر جب اہنی ماں  سے ولادت پاتا ہے فرشتہ اس کے دونوں آنکھوں کے درمیان لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔اللہ کی تخلیق صداقت اور عدالت کے ساتھ تمام ہوئی اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے وہ سننے والا علیم ہے۔ جب امامت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے لئے ہر شہر سے ایک (نور کا) مینار بلند فرماتا ہےجس سے مخلوق کے اعمال کو دیکھتا ہے۔
ير، بصائر الدرجات أحمد بن الحسين عن الحسين بن سعيد عن علي بن حديد مثله- كا، الكافي العدة عن أحمد بن محمد عن ابن حديد عن جميل بن دراج قال روى غير واحد من أصحابنا أنه قال لا تتكلموا و ذكر مثله‏
بيان قوله ع لا تتكلموا أي في نصب الإمام و تعيينه بآرائكم أو في توصيفه لأن أمره عجيب لا تصل إليه أحلامكم۔
 
22- كا، الكافي الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُعَلَّى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ جَعْفَرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ‏ الْأَوْصِيَاءُ إِذَا حَمَلَتْ بِهِمْ أُمَّهَاتُهُمْ أَصَابَهَا فَتْرَةٌ شِبْهُ الْغَشْيَةِ فَأَقَامَتْ فِي ذَلِكَ يَوْمَهَا ذَلِكَ إِنْ‏كَانَ نَهَاراً أَوْ لَيْلَتَهَا إِنْ كَانَ لَيْلًا ثُمَّ تَرَى فِي مَنَامِهَا رَجُلًا يُبَشِّرُهَا بِغُلَامٍ عَلِيمٍ حَلِيمٍ فَتَفْرَحُ لِذَلِكَ ثُمَّ تَنْتَبِهُ مِنْ نَوْمِهَا فَتَسْمَعُ مِنْ جَانِبِهَا الْأَيْمَنِ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ صَوْتاً يَقُولُ حَمَلْتِ بِخَيْرٍ وَ تَصِيرِينَ إِلَى خَيْرٍ وَ جِئْتِ بِخَيْرٍ أَبْشِرِي بِغُلَامٍ عَلِيمٍ حَلِيمٍ وَ تَجِدُ خِفَّةً فِي بَدَنِهَا لَمْ تَجِدْ بَعْدَ ذَلِكَ امْتِنَاعاً مِنْ جَنْبَيْهَا وَ بَطْنِهَا فَإِذَا كَانَ لِتِسْعٍ مِنْ شَهْرِهَا سَمِعَتْ فِي الْبَيْتِ حِسّاً شَدِيداً فَإِذَا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي تَلِدُ فِيهَا ظَهَرَ لَهَا فِي الْبَيْتِ نُورٌ تَرَاهُ لَا يَرَاهُ غَيْرُهَا إِلَّا أَبُوهُ فَإِذَا وَلَدَتْهُ وَلَدَتْهُ قَاعِداً وَ تَفَتَّحَتْ لَهُ حَتَّى يَخْرُجَ مُتَرَبِّعاً ثُمَّ يَسْتَدِيرُ بَعْدَ وُقُوعِهِ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يُخْطِئُ الْقِبْلَةَ حَتَّى كَانَتْ‏ بِوَجْهِهِ ثُمَّ يَعْطِسُ ثَلَاثاً يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ بِالتَّحْمِيدِ وَ يَقَعُ مَسْرُوراً مَخْتُوناً وَ رَبَاعِيَتَاهُ مِنْ فَوْقٍ وَ أَسْفَلَ وَ نَابَاهُ وَ ضَاحِكَاهُ وَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِثْلُ سَبِيكَةِ الذَّهَبِ نُورٌ وَ يُقِيمُ يَوْمَهُ وَ لَيْلَتَهُ تَسِيلُ يَدَاهُ ذَهَباً وَ كَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ إِذَا وُلِدُوا وَ إِنَّمَا الْأَوْصِيَاءُ أَعْلَاقٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا، جب اوصیاء کی مائیں ان سے حاملہ ہوتی ہیں تو ان پر غشی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اگر یہ کیفیت دن میں ہو تو پورا دن رہتی ہے اگر رات میں ہو تو پوری رات رہتی ہے۔ پھر وہ خواب میں ایک آدمی کو دیکھتی ہے، جو اسے ایک علیم و حلیم بیٹے کی بشارت دیتا ہے تو وہ مسرور ہو جاتی ہے۔ جب بیدار ہوتی ہے تو گھر کے دائیں طرف سے آواز سنتی ہے جو کہتا ہے، خیر سے حاملہ ہوئی ہو اور خیر گذرے گی تمہیں علیم و حلیم بیٹے کی بشارت ہو۔ تو وہ ایک ہلکا پن محسوس کرتی ہے اور پھر اسے بچے اور پیٹ کی طرف سے کوئی گرانی نہیں ہوتی۔ جب نو ماہ گذرتے ہیں تو گھر میں ایک شدید آواز سنتی ہے۔ پھر جب وہ رات آتی ہے جس میں ولادت ہونی ہے تو گھر میں ایک نور ظاہر ہوتا ہے جسے صرف وہ دیکھتی ہے اور امام کے باپ کے علاوہ کوئی نہیں دیکھتا۔ وہ نشستہ حالت میں امام کو ولادت دیتی ہے اور اتنی کشادگی ہوتی ہے کہ بچہ چہار زانو باہر نکلتا ہے۔ ولادت کے بعد امام اپنا رخ بدلتا ہے تاکہ قبلہ رخ ہو۔ پھر تین بار چھینکتا ہے اور اپنی انگلی کے اشارے سے سے حمد کرتا ہے۔ ناف بریدہ اور ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے۔ سامنے کے اوپر نیچے والے دانت، اناب اور ضواحک ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ آگے سے نکھرے ہوئے سونے کی طرح چمکتا ہے۔ وہ پورا دن ہو یا رات ان کے دونوں ہاتھوں سے سونا جھڑتا رہتا ہے۔ اسی طرح سے انبیاء ہیں۔ اوصیاء بھی انبیاء (کی طینت) سے تعلق رکھتے  ہیں۔

توضيح قوله حتى كانت كأنه غاية للاستدارة أي يستدير حتى تصير القبلة محاذية لوجهه و في بعض النسخ حيث كانت فقوله بوجهه متعلق بقوله لا يخطئ أي لا يخطئ القبلة بوجهه حيث كانت القبلة۔ قوله ع و رباعيتاه لعل نبات خصوص تلك الأسنان لمزيد مدخليتها في الجمال مع أنه يحتمل أن يكون المراد كل الأسنان و إنما ذكرت تلك على سبيل المثال قوله مثل سبيكة الذهب أي نور أصفر أو أحمر شبيه بها و المسرور مقطوع السرة و الأعلاق جمع علق بالكسر و هو النفيس من كل شي‏ء أي أشرف أولادهم أو من أشرف أجزائهم و طينتهم۔ أقول أثبتنا بعض الأخبار المناسبة لهذا الباب في باب صفات الإمام و باب أنهم كلمات الله و أبواب علمهم و باب ولادة كل منهم ع۔
 (تمام شد)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک