معصومین(ع) کی ولادت ہوتی ہے یا ان کا ظہور ہوتا ہے۔؟

آجکل بعض شرپسند ایک ایسی بات کو متنازعہ بنا رہے ہیں جو ہمارے ہاں آج تک اختلافی نہیں رہی۔ ہمارے علمائے کرام اور خود عوام بھی معصومین(ع) کی ولادت کا جشن منایا کرتے تھے اور سبھی فخر سے مولا علی(ع) کو مولود کعبہ کہتے تھے لیکن کچھ عرصے سے شیخیت کی کویتی تبلیغ کی وجہ سے عوام کو اس مسئلے میں الجھایا گیا ہے کہ معصومین(ع) کی ولادت ہوتی ہے یا ان کا ظہور ہوتا ہے۔


سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان شرپسندوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے۔ یہ شرپسند حضرات کہتے ہیں کہ معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے ڈائریکٹ نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔ ان کے باطل عقیدے کی دلیل میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے، البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔ اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس حساب سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں۔

چلیں ہم یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا نزول/ ظہور کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں؟ ان کے لئے ولادت کا لفظ بہتر ہے یا نزول/ ظہور کا لفظ بہتر ہے؟ ہم اپنے ہر مسئلے میں معصومین(ع) کی طرف رجوع کرتے ہیں خاص طور پر جب مسئلے میں اختلاف ہو، بالکل ویسے ہی جیسا کہ معصومین(ع) کے دور میں ہم کرتے تھے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب لوگوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ معصومین(ع) خالق یا رازق ہیں یا نہیں تو امام حسن عسکری(ع) سے پوچھا گیا اور ایک واقعے میں امام زمانہ(عج) سے پوچھا گیا تو معصومین(ع) نے ان لوگوں کی حمایت کی جو کہتے تھے کہ خالق و رازق صرف اللہ کی ذات ہے، اور کی پرزور مذمت کی جو آئمہ(ع) کو خالق و رازق سمجھتے تھے۔

اسی طرح ہم بھی یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ شیخ کلینی نے "اصول کافی" کی دوسری جلد میں باقاعدہ ایک باب بنایا ہے جس کا نام ہے: "بَابُ مَوَالِيدِ الْأَئِمَّةِ" یعنی "کیفیت ولادت آئمہ(ع)"۔ گویا ہمیشہ سے شیعوں میں جو لفظ مستعمل رہا ہے وہ ولادت کا ہی رہا ہے، یہ بعد میں آنے والے اتنے عقلمند ہو گئے جو معرفت کی ایسی باتیں درک کر لیتے ہیں جن کو ان سے قبل کسی نے درک نہیں کیا ہوتا۔

اس باب کی پہلی حدیث ہے جو کافی لمبی چوڑی ہے جس میں ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال امام صادق(ع) کے ساتھ حج کیا تو راستے میں ابواء کے مقام پر امام موسی کاظم(ع) کی ولادت ہوئی۔ اس میں خود ابو بصیر بھی بار بار ولادت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور امام(ع) بھی۔ جب امام صادق(ع) واپس آئے تو اصحاب نے مبارکبادی دی تو امام(ع) نے بتایا کہ جب یہ مولود پیدا ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف رخ کیا، پھر امام(ع) نے بتایا کہ یہ رسول اللہ(ص) اور ان کے تمام جانشینوں کی علامت ہوتی ہے۔ امام(ع) پھر بتاتے ہیں کہ کیسے آئمہ(ع) کا نطفہ قرار پاتا ہے لیکن ہم اس پوری حدیث کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ کافی طولانی حدیث ہے، امام(ع) پھر فرماتے ہیں:

وَ إِذَا سَكَنَتِ النُّطْفَةُ فِى الرَّحِمِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ أُنْشِئَ فِيهَا الرُّوحُ بَعَثَ اللَّهُ تـَبـَارَكَ وَ تـَعـَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ

اور جب امام کا نطفہ رحم مادر میں قرار پائے چار مہینے گزر جاتے ہیں تو اس میں روح پیدا کی جاتی ہے اور اللہ تبارک و تعالی ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہوں جس کا نام حیوان ہے، جو (امام) کے دائیں بازو پر لکھتا ہے "وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" اور جب وہ اپنے ماں کے بطن سے باہر آتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 225 روايت 1

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ اس سے بڑھ کر ولادت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ معصوم معصوم کی گردان کرنے والے، اور معصومین(ع) کی تقلید کا نعرہ بلند کرنے والے کہاں جائیں گے؟ کس ڈھٹائی سے یہ بدبخت معصومین(ع) کے اقول جھٹلاتے ہیں۔

اب ہم اگلی حدیث پڑھتے ہیں:

مـُحـَمَّدُ بـْنُ يـَحـْيـَى عـَنْ مـُحـَمَّدِ بـْنِ الْحـُسـَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقـَاسـِمِ عـَنِ الْحـَسـَنِ بـْنِ رَاشـِدٍ قـَالَ سـَمـِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تـَعـَالَى إِذَا أَحـَبَّ أَنْ يـَخـْلُقَ الْإِمـَامَ أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيهَا أَبـَاهُ فـَمـِنْ ذَلِكَ يـَخـْلُقُ الْإِمـَامَ فـَيـَمـْكـُثُ أَرْبـَعـِيـنَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِى بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِى كـَانَ قـَبـْلَهُ رُفـِعَ لِهـَذَا مـَنـَارٌ مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِه

حسن بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کو کہتے سنا "اللہ تبارک و تعالی جب امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ایک فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ایک شربت عرش کے نیچے سے لے کر امام کے والد کو پلائے۔ پس امام کی (جسمانی) خلقت اس شربت سے ہے۔ پھر چالیس شب و روز (امام) اپنی ماں کے شکم میں ہے اور اس دوران وہ کچھ سن نہیں سکتا، اور پھر ان کے کان سننے کے لئے کھل جاتے ہیں۔ اور جب ولادت ہوتی ہے تو اسی فرشتے کو مقرّر کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے بیچ میں لکھے وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ اور پھر امام کو نور کا ایک مینار عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 228 روايت 2

پھر ہم تیسری اور چوتھی حدیث چھوڑ دیتے ہیں جن کے وہی مطالب ہیں، پھر ہم پانچویں حدیث کی طرف آتے ہیں جس میں درج ہے کہ جب آئمہ(ع) کی والدہ حاملہ ہوتی ہیں تو بیہوشی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں ان کو خوشخبری دی جاتی ہے اور پھر نو ماہ گزرنے کے بعد امام کے گھر پر ایک عجیب سا نور ہوتا ہے جس کو ان کے والد اور والدہ کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا اور پھر ان کی ولادت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں ہم نے بہت سے الفاظ نقل نہیں کئے کیونکہ کافی کھل کر ان کی ولادت کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس کا ذکر بعض الناس کو ناگوار گزرے گا درحالیکہ یہ الفاظ خود امام(ع) کے ہیں۔

لیکن قارئین خود مشاہدہ کریں کہ ان تمام روایتوں میں ولادت کا ہی لفظ جگہ جگہ استعمال ہوا ہے، اور کہیں پر بھی نزول یا ظہور کا لفظ موجود نہیں ہے۔ بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) کی ظاہری جسمانی خلقت ماں کے بطن میں ہی ہوتی ہے اور امام(ع) بھی اسی طرح تخلیق کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ البتہ ان کی ارواح پہلے سے خلق شدہ ہوتی ہیں اور ظاہر روایات سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ ماں کے بطن میں چار ماہ گزرنے کے بعد ان کی روح ان کے جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ ان تمام احادیث سے ظہور یا نزول کا عقیدہ رکھنے والوں کی بے پناہ تردید ہوتی ہے۔

اس باب کے آخر میں ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں امام باقر(ع) امام کی دس علامتیں بیان فرماتے ہیں، جس کی پہلی اور دوسری علامت یوں بیان کی گئی ہے:

عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِى جـَعـْفَرٍ ع قَالَ لِلْإِمَامِ عَشْرُ عَلَامَاتٍ يُولَدُ مُطَهَّراً مَخْتُوناً وَ إِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ وَقَعَ عَلَى رَاحـَتـِهِ رَافـِعـاً صـَوْتـَهُ بـِالشَّهـَادَتَيْنِ

زرارہ امام باقر سے نقل کرتے ہیں: "امام کی دس علامتیں ہوتی ہیں 1) وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے، 2) اور جب دنیا میں آتا ہے تو اپنے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور شہادتین کے اقرار کی آواز بلند کرتا ہے"

اصول كافى جلد 2 صفحه 231 روايت 8

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ یہاں اس روایت میں صاف معصوم(ع) خود فرما رہے ہیں کہ آئمہ(ع) پیدا ہوتے ہیں اور ان کی ولادت ہوتی ہے لیکن ان کی ولادت اور ہمارے ولادت میں فرق ہے، وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں۔

ہم نے دیگر منابع اور کتب میں وارد ہونے والی سینکڑوں احادیث کا ذکر نہیں کیا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن پر مطالب بوجھل نہ ہو جائیں، لیکن عقل والوں اور ہدایت کے متلاشی حضرات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

اب آپ خود ہی انصاف سے فیصلہ کیجئے، کہ معصومین کی سیرت پر چلتے ہوئے ان کے لئے ولادت کا لفظ استعمال کرنا بہتر ہے یا پھر ان شرپسندوں کے قیاس پر چلتے ہوئے ظہور یا نزول کا لفظ استعمال کرنا؟

فیصلہ آپ پر ہے