پیغمبرؐ کا وصیت لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم طلب کرنا

ان الرجل لیهجر ؛ توهین عمر بن خطاب به پیامبر ان الرجل لیهجر

چوبیس یاپچیسواں صفر المظفر کے دن پیغمبرؐ کا وصیت لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم طلب کرنا (11ھ)

سنہ 11 ہجری کے ابتدائی مہینوں میں رسول اللہؐ بیمار ہوئے اور اسی بیماری کی حالت میں شہید ہوگئے۔ جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو منبر پر رونق افروز ہوئے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کی سفارش فرمائی اور فرمایا: اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ مجھ سے وصول کرے یا بخش دے اور میں نے کسی کو آزردہ کیا ہے تو میں تلافی کے لئے تیار ہوں۔
(ابن سعد، ج2، ص255۔)
حدیث قرطاس
صحیح بخاری کی نقل کے مطابق رسولخدا کے آخری ایام میں آپ کے اصحاب عیادت کیلئے موجود تھے ۔آپ نے ان سے فرمایا : قلم اور کاغذ لاؤ تا کہ میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کی برکت سے تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔حاضرین میں سے بعض نے کہا :بیماری نے پیغمبر پر غلبہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہذیان کہہ رہے ہیں۔ہمارے پاس قرآن ہے اور وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا اور شور وغوغا بلند ہوا بعض کہہ رہے تھے کاغذ اور قلم لائیں بعض نفی کر رہے تھے ۔ یہانتک کہ رسول اللہ نے کہا:اٹھ جاؤ اور میرے قریب سے چلے جاؤ۔(بخاری،صحیح بخاری، جلد ۶، باب مرض النّبیؐ و وفاتہ، ص ۱۲، چاپ دارالجیل بیروت)
صحیح مسلم میں اس شخص کا نام عمر بن خطاب لیا گیا جس نے کہا تھا کہ رسول ہذیان کہہ رہا ہے ۔بخاری اور مسلم میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابن عباس مسلسل افسوس کرتے رہتے اور اسے ایک بہت بڑی مصیبت کہتے تھے
(صحیح مسلم، ج ۳، کتاب الوصیہ، باب ۵، ص ۱۲۵۹، چاپ داراحیاء التراث العربی۔)
ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اسی سال 28 صفر سنہ 11ہجری اور دوسری روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو 63 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں مذکور ہے وفات کے وقت آپ کا سر امام علیؑ کے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔
(نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، خطبہ 202، ص237)
اس وقت حضرت سیدہ فاطمہ(س) کے سوا آپ کے فرزندوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ تھا۔ آپ کی وفات سے ایک یا دو سال قبل متولد ہونے والے ابراہیم سمیت آپ کے تمام فرزند وفات پاچکے تھے۔ آپ کے جسم مطہر کو حضرت علیؑنے اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ مل کر غسل اور کفن دیا اور مسجد النبی میں موجود آپ کے اپنے گھر میں سپرد خاک کیا۔

پیغمبرؐ کا جانشین
ابھی علی بن ابیطالب اور بنو ہاشم رسول اللہؐ کے غسل و تکفین میں مصروف تھے کہ قوم کے بعض سرکردگان نے صرف دو مہینے قبل پیغمبرؐ کے فرامین کو نظرانداز کیا؛ اور انہیں فکر لاحق ہو‏ئی کہ امت کے سربراہ کا تعین ہونا چاہئے!مہاجرین میں سے تین افراد اور انصار کا ایک گروہ سقیفۂ بنی ساعدہ کے نام سے مشہور مقام پر اکٹھے ہوئے۔ وہ مسلمانوں کے لئے حکمران کا جلد از جلد تعین کرنا چاہتے تھے؛ بات باہمی نزاع اور دست و گریبان  تک پہنچی اور آخر کار ابوبکر کی خلافت پر راضی ہوگئے۔اس کے بعد جبری بیعت لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔(شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص106)
--