امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ائمۂ معصومین سے مراد کون لوگ ہیں؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

عکس با کیفیت طرح یا پوستر پس زمینه سرمه ای و کادر زیبا در وسط و متن السلام  علیک یا اهل بیت النبوه و نام ائمه به دور کادر وسط – عکس

ائمۂ معصومین،

خاندان رسالت کے ان 12 ہستیوں کو کہا جاتا ہے جو احادیث کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور آپؐ کے بعد اسلامی معاشرے کے امام اور سرپرست ہیں۔ پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں اور باقی ائمہ آپؑ اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہیں۔

شیعہ کے مطابق ائمہ معصومین اللہ تعالی کی جانب سے معین اور مقرر ہوتے ہیں جو علم غیب، عصمت، افضلیت اور حق شفاعت جیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اسی یہ ہستیاں دریافت وحی اور تشریع شریعت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام ذمہ داریوں کے حامل ہیں۔

اہل سنت شیعہ ائمہ کی امامت کو تو نہیں مانتے؛ لیکن ان کی دینی اور علمی مرجعیت کو مانتے ہوئے ان سے اظہار محبت کرتے ہیں۔

ائمہ معصومینؑ کا نام قرآن میں نہیں آیا لیکن پیغمبر اسلامؐ کی احادیث من جملہ حدیث جابر یا حدیث بارہ خلیفہ میں ائمہؑ کا نام، ان کی خصوصیات اور تعداد پر تصریح ہوئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق ائمہ کی تعداد 12 اور سب کے سب قریش اور پیغمبرؐ کی ذریت یعنی اہل بیت میں سے ہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ کے مطابق ان کے پہلے امام حضرت علیؑ رسول اللہؑ کی صریح روایت کے مطابق امامت پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام اور اپنے جانشین کو صریح اور نص کے ساتھ معین اور معرفی کئے ہیں۔ لہذا ان نصوص کی بنیاد پر رسول اللہؑ کے بعد بارہ ائمۂ اور ان کے نام بالترتیب حسب ذیل ہیں:

على بن ابى‌طالب، حسن بن علی، حسین بن على، على بن حسین، محمد بن على، جعفر بن محمد، موسى بن جعفر، على بن موسى‏، محمد بن على، على بن محمد، حسن بن على و مہدى(عليہم‌السلام‏)۔ مشہور قول کے مطابق شیعوں کے 11 امام شہید ہوچکے ہیں اور آخری امام، مہدی موعود غیبت میں ہیں اور وہ ظہور کر کے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

ائمہ معصومینؑ کی حالات زندگی اور ان کے فضائل کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں الارشاد اور دلائل الامامۃ شیعہ کتب اور ینابیع المودۃ اور تذکرۃ الخواص اہل سنت کتب قابل ذکر ہیں۔

مقام و منزلت اور خصوصیات
بارہ اماموں کی امامت کا عقیدہ شیعہ اثنا عشریہ کے بنیادی اعتقادات یعنی اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ [1] اہل تشیع کے مطابق امام، اللہ تعالی کی طرف سے رسول اکرمؐ کے ذریعے معین ہوتا ہے۔[2]

شیعہ مفسرین اور متکلمین کے مطابق اگرچہ قرآن میں ائمہ کا نام نہیں آیا لیکن آیہ اولی الامر، آیہ تطہیر، آیہ ولایت، آیہ اکمال، آیہ تبلیغ اور آیہ صادقین میں ائمہ کی امامت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[3] البتہ روایات میں ائمہ کی تعداد اور نام ذکر ہوئے ہیں۔[4]

شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہؑ، رسول اکرمؑ کی تمام خصوصیات اور ذمہ داریوں کا حامل ہوتے ہیں منجملہ ان میں قرآنی آیات کی وضاحت، شرعی احکام کا بیان، لوگوں کی تربیت، دینی سوالات کے جوابات، عدل انصاف کا قیام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ائمہ پر وحی نہیں آتی اور صاحب شریعت نہیں ہیں۔[5]

خصوصیات
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ معصومینؑ کی خصوصیات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

عصمت:‌ رسول اللہؐ کی طرح ائمہ معصومین بھی ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک اور معصوم ہیں۔[6]
افضلیت:‌ شیعہ علما کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد ائمہ معصومین دوسرے تمام انبیاء، ملائکہ اور عام لوگوں سے افضل ہیں۔[7] تمام مخلوقات پر ائمہ معصومینؑ کی فوقیت پر دلالت کرنے والی احادیث کو مستفیض بلکہ متواتر جانی گئی ہیں۔[8]
علم غیب: ائمہ معصومینؑ کو خدا کی طرف سے علم غیب عطا کی گئی ہیں۔[9]
ولایت تکوینی اور تشریعی: اکثر شیعہ علما ائمہ معصومین کے لئے ولایت تکوینی کے قائل ہیں۔[10] اسی طرح لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہونے کے معنی میں ولایت تشریعی رکھنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔[11]عقیدہ تفویض پر دلالت کرنے والی احادیث کے مطابق[12] ائمہ معصومینؑ کو تشریع اور قانون سازی کا اختیار بھی عطا کئے گئے ہیں۔[13]
مقام شفاعت: رسول اللہؐ کی طرح تمام ائمہ معصومین بھی خدا کے اذن سے قیامت کے دن شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔[14]
دینی اور علمی مرجعیت: حدیث ثقلین[15] اور حدیث سفینہ[16] جیسی روایات کے مطابق ائمہ معصومین دینی اور علمی مرجعیت پر فائز ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔[17]
معاشرے کی قیادت: رسول اللہؐ کے بعد مسلم معاشرے کی قیادت اماموں کے ذمے ہے۔[18]
وجوب اطاعت: آیہ اولی الامر کی بنا پر جس طرح سے اللہ اور رسول کی اطاعت واجب ہے اسی طرح ائمہ معصومین کی اطاعت بھی واجب ہے[19]
اکثر شیعہ علماء کے مطابق تمام ائمہ معصومینؑ شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔[20] اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف احادیث[21] سے استدلال کرتے ہیں من جملہ ان میں سے ایک حدیث ہے: وَ اللَّهِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَهِيد[22] ان احادیث کے مطابق تمام ائمہ معصومین شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہونگے۔[23]

ائمہؑ کی امامت
تفصیلی مضمون: ائمہ معصومین کی امامت
شیعہ علما بارہ اماموں کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے عصمت اور افضلیت جیسی عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ حدیث جابر، حدیث لوح اور حدیث 12 خلیفہ سے استدلال کرتے ہیں۔[24]

:حدیث جابر

جابر بن عبداللہ انصاری نے آیہ؛ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ(ترجمہ: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)۔)[25] کے نازل ہونے کے بعد اولو الامر کے بارے میں رسول خداؐ سے پوچھا تو آنحضرتؐ نے فرمایا: «وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلا علی بن ابی‌طالب ہیں اور ان کے بعد بالترتیب حسنؑ، حسینؑ، علی بن حسینؑ، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کے فرزند جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہیں۔۔۔»۔[26]

حدیث 12 خلیفے

اہل سنت حدیثی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؐ کے جانشینوں اور خلفاء کی تعداد نیز ان کی بعض خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:

جابر بن سمرہ رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں: «یہ دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا جب تک تمہارے سر پر بارہ خلیفے ہونگے جو سب کے سب قریش میں سے ہونگے»۔[27]

اسی طرح ابن مسعود سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کے بعد نقباء کی تعداد بنی اسرائیل کے نقبا کی طرح بارہ ہوگی۔[28] اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراہیم قُندوزی کے مطابق احادیث نبوی میں مذکور 12 خلیفے وہی شیعہ ائمہ ہیں؛ کیونکہ یہ احادیث ان کے علاوہ کسی اور ہستیوں پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں۔[29]

تعارف
شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف عقلی[30] اور نقلی دلائل جیسے حدیث غدیر اور حدیث منزلت سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد برحق اور بلافصل خلیفہ حضرت علیؑ ہیں۔[31] اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد بالترتیب امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام هادیؑ، امام حسن عسکریؑ و امام مهدی(عج) اسلامی معاشرے کی امامت اور رہبری کے عہدے پر فائز ہیں۔[32]

نام القاب کنیت روز ولادت سال ولادت مولد یوم شہادت سال شہادت مقام شہادت قاتل امامت مدت امامت والدہ کا نام
علی بن ابی طالب امیرالمؤمنین ابو الحسن 13 رجب سنہ 30 عام الفیل مکہ 21 رمضان 40ھ‍ کوفہ ابن ملجم 11-40ھ‍ 23 سال فاطمہ بنت اسد
حسن بن علی مجتبی ابو محمد 15 رمضان 2ھ‍ مدینہ 28 صفر 50ھ‍ مدینہ جعدہ بنت اشعث بحکم معاویہ 40-50ھ‍ 10 سال فاطمہ بنت رسول اللہؐ
حسین بن علی سید الشہداء ابوعبد اللہ 3 شعبان 3 ھ‍ مدینہ 10 محرم 61ھ‍ کربلا شمر بن ذی الجوشن و لشکر عمر سعد بحکم یزید 50-61ھ‍ 10 سال فاطمہ بنت رسول اللہؐ
علی بن الحسین سجاد، زین العابدین ابو الحسن 5 شعبان 38ھ‍ مدینہ 25 محرم 95ھ‍ مدینہ ولید یا اس کا بھائی ہشام 61-94ھ‍ 35 سال شہربانو
محمد بن علی باقر العلوم ابو جعفر 1 رجب 57 ھ‍ مدینہ 7 ذوالحجہ 114ھ‍ مدینہ ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بحکم ہشام 94-115ھ‍ 19 سال فاطمہ
جعفر بن محمد صادق ابوعبداللہ 17 ربیع الاول 83 ھ‍ مدینہ 25 شوال 148ھ‍ مدینہ منصور عباسی 114-148ھ‍ 34 سال ام فروہ
موسی بن جعفر کاظم ابوالحسن 7 صفر 128ھ‍ مدینہ 25 رجب 183ھ‍ کاظمین سندی بن شاہک بحکم ہارون عباسی 148-183ھ‍ 35 سال حمیدہ بربریہ
علی بن موسی رضا ابوالحسن 11 ذوالقعدہ 148ھ‍ مدینہ آخر صفر 203ھ‍ مشہد مامون عباسی 183-203ھ‍ 20 سال تکتم
محمد بن علی تقی، جواد ابو جعفر 10 رجب 95 ھ‍ مدینہ آخر ذو القعدہ 220ھ‍ کاظمین لبابہ بنت مامون بحکم معتصم 203-220ھ‍ 17 سال سبیکہ خاتون
علی بن محمد ہادی، نقی ابوالحسن 15 ذوالحجہ 212 ھ‍ صریا 3 رجب 254ھ‍ سامرا معتز عباسی کا بھائی معتمد 220-254ھ‍ 34 سال سمانہ مغربیہ
حسن بن علی زکی، عسکری ابومحمد 10 ربیع الثانی 232 ھ‍ مدینہ 8 ربیع الاول 260 ھ‍ سامرا معتمد 254-260ھ‍ 6 سال سوسن
حجۃ بن الحسن قائم ابوالقاسم 15 شعبان 255ھ‍ سامرا 9 ربیع الاول 260ھ‍ امام قائمؑ زندہ اور نظروں سے اوجھل ہیں       1175 سال، اب تک نرجس خاتون

امام اول

 امام علی علیہ السلام
علی بن ابی‌طالب امام علیؑ اور امیرالمؤمنینؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے فرزند ہیں۔ 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو کعبہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔[33] آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لایا[34] اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ(س) سے آپ نے شادی کی۔[35]

باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ غدیر کے دن آپ کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،[36] لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد سقیفہ بنی‌ ساعدہ کے واقعے میں ابوبکر بن ابی‌ قحافہ کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔[37] خلفائے ثلاثہ کے دور میں آپ نے اسلام کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار 35ھ میں لوگوں نے آپ کی بیعت کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔[38] آپ کی خلافت جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی خلافت کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔[39]

امام علیؑ 19 رمضان 40ھ کو مسجد کوفہ کے محراب میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو آپ جام شہادت نوش کر گئے اور نجف میں آپ کو سپرد خاک کئے گئے۔[40] آپ بیشمار فضیلتوں کے حامل تھے۔[41] ابن‌ عباس سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 آیتیں نازل ہوئی ہیں۔[42] اسی طرح ان سے منقول ہے کہ خدا نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں «یا أیہا الذین آمنوا» ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔[43]

دوسرے امام
 امام حسن مجتبی علیہ السلام
امام حسن مجتبیؑ اور آپؑ کے بھائی امام حسینؑ امیرالمؤمنین علیؑ کے دو بیٹے ہیں جن کی والدہ ماجدہ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ "حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں" اور اسی حوالے سے امیرالمؤمنینؑ اپنے دوسرے فرزندوں سے فرمایا کرتے تھے کہ "تم میرے فرزند ہو اور "حسن و حسین پیغمبر خداؐ کے فرزند ہیں"۔[44]

امام حسن مجتبیؑ سنہ 3 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور 7 سال اور چند مہینوں تک رسول اللہؐ کے حضور سے مستفیض ہوئے اور آپؐ کی آغوش شفقت میں رہے اور رسول اللہؐ کے وصال کے بعد ـ جو آپؑ کی والدہ حضرت فاطمہ(س) کی شہادت سے 3 یا 6 مہینے قبل واقع ہوئی ـ آپؑ اپنے پدر بزرگوار کے زیر تربیت قرار پائے۔[45]

امام حسن مجتبیؑ والد کی شہادت کے بعد خدا کے فرمان اور والد کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور کچھ عرصے تک ظاہری خلافت کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔ تقریبا 6 مہینوں تک مسلمانوں کے امور کا انتظام و انصرام کیا اور اس عرصے کے دوران امیرالمؤمنینؑ اور معاویہ بن ابی سفیان ـ جو آپؑ کے خاندان کا ضدی دشمن تھا اور برسوں سے خلافت کی لالچ میں (ابتداء میں خون عثمان کے بہانے اور آخر کار خلافت کا صریح دعوی کرکے) لڑا تھا ـ نے عراق پر ـ جو آپؑ کی حکومت کا مرکز تھا ـ لشکر کشی کی اور جنگ کا آغاز کیا اور دوسری طرف سے امامؑ کے لشکر کے امراء کو بڑی بڑی رقوم بطور رشوت، اور منصب و مرتبت کے وعدے، دے کر گمراہ کیا اور آپؑ ہی کے لشکر کو آپؑ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔

صلح امام حسن علیہ السلام
آخر کار، حضرت امام حسن مجتبیؑ صلح پر مجبور ہوئے اور بعض شرائط پر ظاہری حکومت معاویہ کو بعض شرائط (من جملہ یہ کہ خلافت معاویہ کی موت کے بعد امامؑ کو ملے گی، معاویہ ولیعہد کا اعلان نہیں کرے گا اور شیعیان اہل بیتؑ کی جان و مال محفوظ ہوگی) پر، واگذار کردی۔[46]

معاویہ نے اس طرح اسلامی خلافت پر قبضہ کیا اور عراق میں داخل ہوا اور عام اور رسمی خطاب کے دوران صلح کی شرائط کو منسوخ کیا اور ہر راہ و روش کو بروئے کار لا کر شدید ترین انداز سے اہل بیت اور ان کے پیروکاروں پر ظلم و جبر روا رکھا۔ فرزند رسولؐ امام حسنؑ نے اپنی امامت کا 10 سالہ دور نہایت گھٹن اور دشواری میں گذارا یہاں تک کہ آپؑ کو اپنے گھر کے اندر بھی امن نصیب نہ ہوا اور آخر کار سنہ 50 ہجری میں معاویہ کی تحریک پر اپنی زوجہ (جعدہ بنت اشعث) کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے۔[47]

امام حسنؑ انسانی فضائل و کمالات میں اپنے والد ماجد اور نانا رسول اللہؐ کا نمونۂ کامل تھے، اور جب تک آپؑ کا نانا بقید حیات تھے، آپ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ آنحضرتؐ کے ہاں منزلت رکھتے تھے اور کبھی انہیں اپنے دوش پر سوار کرتے تھے۔ شیعہ اور سنی محدثین نے رسول اکرمؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے امام حسن مجتبی اور امام حسین کی شان میں فرمایا:

ابناي هذان إمامان قاما أو قعدا؛
ترجمہ: میرے یہ دو بیٹے امام ہیں خواہ وہ بیٹھے ہوں خواہ قیام کریں (یعنی یہ دونوں امام ہیں خواہ خلاف ظاہریہ کا منصب سنبھالیں خواہ نہ سنبھالیں)۔

پیغمبر اکرمؐ اور امیرالمؤمنین علیؑ سے متعدد روایات منقول ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ آپؑ اپنے والد کے بعد امام ہیں۔[48]

تیسرے امام

 امام حسین علیہ السلام اور ثار اللہ
امام حسین (سید الشہداء) علیہ السلام علیؑ کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت رسولؐ ہیں۔ آپؑ سنہ 4 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کی شہادت کے بعد امر خدا سے اور آپؑ کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔[49]

امام حسین علیہ السلام کے دس سالہ دور امامت کا زيادہ تر عرصہ معاویہ کے دور خلافت میں گذرا سوائے آخری چھ مہینوں کے۔ آپؑ نے یہ عرصہ نہایت دشوار اور ناخوشگوار اور گھٹن بھرے حالات میں بسر کیا۔ کیونکہ ایک طرف سے دینی قوانین و ضوابط غیر معتبر ہوچکے تھے اور حکومت کی خواہشات نے خدا اور رسولؐ کے احکام کی جگہ لی تھی؛ تو دوسری طرف سے معاویہ اور اس کے کارگزار اہل بیت اور شیعیان اہل بیت کو نقصان پہنچانے اور علیؑ اور آل علی کا نام مٹانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تو دوسری طرف سے معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی بنیادیں استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور مسلمانوں کی ایک جماعت یزید کی بے راہرویوں کی وجہ سے معاویہ کی ان کوششوں سے خوش نہیں تھی۔ معاویہ نے ان مخالفتوں کو سرکوب کرنے اور نئی مخالفتوں کا سد باب کرنے کے لئے مزید تشدد آمیز روشوں کا سہارا لیا تھا۔[50]

امام حسین کو خواہ ناخواہ اس تاریک دور سے گذرنا پڑا رہا تھا اور معاویہ اور اس کے گماشتوں کے ہر روحانی تشدد کو برداشت کررہے تھے حتی کہ سنہ 60 ہجری کے وسط میں معاویہ کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا یزید باپ کی جگہ پر بیٹھ گیا۔[51]

یزید کی بیعت سے انکار
بیعت ایک عربی روایت تھی جو سلطنت اور امارت جیسے اہم مسائل میں نافذ ہوتی تھی اور ماتحت افراد، بالخصوص عمائدین اور زعماء کو سلطان یا امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا پڑتی تھی اور بیعت کے بعد اگر کوئی قوم اس کی خلاف ورزی کرتی تو یہ اس قوم کے لئے شرم اور ذلت کا باعث اور قطعی امضاء و تائید کی خلاف ورزی کی طرح، جرم مسلّم سمجھی جاتی تھی؛ اور سیرت نبوی میں بیعت اس وقت معتبر تھی جب یہ اختیاری اور جبر کے بغیر انجام پاتی۔[52]

امام حسین علیہ السلام کے دس سالہ دور امامت کا زيادہ تر عرصہ معاویہ کے دور خلافت میں گذرا سوائے آخری چھ مہینوں کے۔ آپؑ نے یہ عرصہ نہایت دشوار اور ناخوشگوار اور گھٹن بھرے حالات میں بسر کیا۔ کیونکہ ایک طرف سے دینی قوانین و ضوابط غیر معتبر ہوچکے تھے اور حکومت کی خواہشات نے خدا اور رسولؐ کے احکام کی جگہ لی تھی؛ تو دوسری طرف سے معاویہ اور اس کے کارگزار اہل بیت اور شیعیان اہل بیت کو نقصان پہنچانے اور علیؑ اور آل علی کا نام مٹانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تو دوسری طرف سے معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی بنیادیں استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور مسلمانوں کی ایک جماعت یزید کی بےراہرویوں کی وجہ سے معاویہ کی ان کوششوں سے خوش نہیں تھی۔ معاویہ نے ان مخالفتوں کو سرکوب کرنے اور نئی مخالفتوں کا سد باب کرنے کے لئے مزید تشدد آمیز روشوں کا سہارا لیا تھا۔[53]

امام حسین کو خواہ ناخواہ اس تاریک دور سے گذرنا پڑا رہا تھا اور معاویہ اور اس کے گماشتوں کے ہر روحانی تشدد کو برداشت کررہے تھے حتی کہ سنہ 60 ہجری کے وسط میں معاویہ کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا یزید باپ کی جگہ پر بیٹھ گیا۔[54]
یزید کی بیعت سے انکار
بیعت ایک عربی روایت تھی جو سلطنت اور امارت جیسے اہم مسائل میں نافذ ہوتی تھی اور ماتحت افراد، بالخصوص عمائدین اور زعماء کو سلطان یا امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا پڑتی تھی اور بیعت کے بعد اگر کوئی قوم اس کی خلاف ورزی کرتی تو یہ اس قوم کے لئے شرم اور ذلت کا باعث اور قطعی امضاء و تائید کی خلاف ورزی کی طرح، جرم مسلّم سمجھی جاتی تھی؛ اور سیرت نبوی میں بیعت اس وقت معتبر تھی جب یہ اختیاری اور جبر کے بغیر انجام پاتی۔[55]

معاویہ نے قوم کے جانے پہچانے افراد سے یزید کے لئے بیعت لی تھی لیکن اس نے امام حسینؑ سے کوئی حجت نہیں کی تھی یہاں تک کہ اس نے یزید سے وصیت کی تھی کہ اگر حسین بن علی بیعت سے انکار کریں تو اس بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور خاموشی اور چشم پوشی اختیار کرو؛ کیونکہ اس نے مسئلے کے دونوں پہلؤوں کا صحیح تجزیہ کیا تھا اور اس کے خطرناک انجام سے آگاہ تھا۔[56]
لیکن یزید غرور و تکبر اور لاپروائی کی وجہ سے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوئی اور باپ کے چل بسنے کے فورا بعد والی مدینہ کو حکم دیا کہ امام حسین سے اس کے لئے بیعت لے اور اگر نہ مانیں تو انہیں گرفتار کرکے شام روانہ کرے!! چنانچہ مدینہ کے والی نے یزید کی درخواست امامؑ کو پہنچا دی اور آپؑ نے اس قضیے کے بارے میں سوچ بچار کے لئے مہلت مانگی اور رات کے وقت اپنے اہل خاندان کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کرگئے اور حرم پروردگار میں پناہ لی جو اسلام میں باضابطہ مقام امن تھا۔[57]

مکہ میں قیام
مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کا واقعہ میں رجب المرجب کے آخر اور شعبان المعظم سنہ 60 ہجری کو پیش آیا اور امام حسینؑ نے تقریبا 4 مہینوں تک مکہ میں جائے پناہ کے عنوان سے، قیام کیا اور یہ خبر عالم اسلام کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ ایک طرف سے وہ لوگ تھے جو معاویہ کے زمانے کے مظالم سے ناراض تھے اور یزید کی خلافت ان کی ناراضگی میں اضافہ کررہی تھی تو دوسری طرف سے بے شمار خطوط و مراسلات شہر مکہ میں پہنچ رہے تھے اور آپؑ سے درخواست کررہے تھے کہ عراق تشریف جا کر لوگوں کی رہبری سنبھالیں اور ظلم و ستم کا تختہ الٹنے کے لئے اٹھیں چنانچہ یہ صورت حال یزید کے لئے خطرناک تھی۔[58]

مکہ میں امام حسینؑ کا قیام جاری تھا کہ حج کے ایام آن پہنچے اور مسلمانان عالم حج کے لئے گروہ در گروہ اور جوق در جوق حج بجا لانے کی تیاریاں کرنے لگے؛ اسی اثناء میں آپؑ کو اطلاع ملی کہ یزید کے کچھ گماشتے حجاج کرام کے بھیس میں مکہ میں داخل ہوئے ہیں جنہوں نے احرام کے نیچے ہتھیار چھپا رکھے ہیں اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ آپؑ کو اعمال حج کے دوران [دہشت گردی کا نشانہ بنا کر] قتل کردیں۔[59]

فرزند رسولؐ نے اعمال میں تخفیف کردی اور مکہ چھوڑنے کا عزم کیا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور مختصر سا خطاب کرکے عراق کی طرف عزیمت کا اعلان کیا۔ آپؑ نے اس مختصر سے خطاب میں اپنی شہادت کی خبر دی اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس ہدف کے حصول میں آپؑ کا ساتھ دیں اور راہ خدا میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کریں اور اگلے دن اپنے خاندان اور اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ عراق کی طرف عزیمت فرمائی۔[60]

امام حسینؑ نے بیعت نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کیا تھا اور اچھی طرح جانتے تھے کہ قتل کئے جائیں گے اور بنو امیہ کی بڑی عسکری قوت، جس کو عمومی بےراہروی اور بے ارادہ عوام بالخصوص عراقی عوام کی بنا پر تقویت مل رہی تھی، آپؑ کو زندہ نہیں چھوڑے گی۔[61]

بعض سرکردہ افراد نے خیرخواہی کی بنا پر، آپؑ کا راستہ روکا اور اس عزیمت اور تحریک کے خطرات گوش گذار کرائے لیکن آپؑ نے فرمایا: "میں بیعت نہیں کروں گا اور ظلم و جبر کی حکومت کی تائید نہیں کروں گا، میں جہاں بھی جاؤں اور جہاں بھی قیام کروں وہ مجھے قتل کریں گے اور میں جو مکہ کو چھوڑ کے جارہا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ خانہ خدا کی حرمت کی رعایت کرنا چاہتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میرا خون بہا کر اس کی حرمت شکنی کی جائے۔[62]

بسوئے کوفہ

امام حسینؑ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے، بیچ راستے، جبکہ ابھی چند روز کا فاصلہ باقی تھا، آپؑ کو اطلاع دی گئی کہ کوفہ میں یزید کے والی ابن زیاد نے آپؑ کے نمائندے (مسلم بن عقیل) اور شہر کے زعیم، آپ کے مخلص دوست اور حامی (ہانی بن عروہ) کو قتل کیا ہے اور اس کے حکم سے پیروں میں رسیاں باندھ کر لاشوں کو گلیوں اور بازاروں میں گھسیٹا ہے اور شہر اور اس کے نواح پر کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور دشمن کے ہزاروں سپاہی آپؑ کا انتظار کررہے ہیں چنانچہ اب موت کے سوا کوئی چیز ان کا استقبال نہیںکرے گی۔ یہیں وہ نقطہ تھا جہاں امامؑ نے قطعی فیصلہ کیا کہ اس راہ میں جان کی بازی لگا دیں گے اور اپنا سفر جاری رکھا۔[63]

کربلا
 واقعۂ عاشورا اور شہدائے کربلا
کوفہ سے تقریبا 70 کلومیٹر کے فاصلے پر کربلا نامی صحرا واقع تھا جس میں لشکر يزید نے امام حسینؑ اور آپؑ کے خاندان اور اصحاب کا محاصرہ کیا۔ امام حسینؑ آٹھ روز تک کربلا میں تھے، محاصرے کا حلقہ ہر روز تنگ سے تنگ تر اور دشمن کی سپاہ میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر 30000 یزیدی سپاہیوں نے آپؑ اور آپؑ کے خاندان کو گھیر لیا۔[64]

ان چند دنوں کے دوران امام حسینؑ نے اپنے ٹھکانوں کو مضبوط کیا، اہل ترین اصحاب کو پاس رکھا، رات کے وقت سب کو بلوایا اور مختصر خطبہ دے کر فرمایا: "یہاں ہمیں موت اور شہادت کے سوا کوئی چیز بھی نہیں ملے گی اور ان لوگوں کا میرے سوا کسی کے ساتھ بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا لی اور جو بھی چاہے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر اپنی جان اس ہولناک بھنور سے چھڑا چلا جائے"۔[65]

پھر فرمایا: "چراغوں کو گل کردو اور اکثر ساتھی ـ جو بعض خاص مقاصد کے لئے آپؑ کے ساتھ تھے منتشر ہوئے اور عاشقان حق کی مختصر سی جماعت (اصحاب میں سے چالیس افراد) اور افراد خاندان کے سوا کوئی بھی ساتھ نہ رہا۔[66]

امامؑ نے ایک بار پھر باقیماندہ اصحاب کو اکٹھا کیا اور ان کی آزمایش کی اور اصحاب اور ہاشمی اعزاء و اقارب سے خطاب کرکے فرمایا: "ان دشمنوں کا کام مجھ سے ہے، تم میں سے جو بھی چاہے رات کے اندھیرے میں اپنی جان بچا کر چلا جائے لیکن اس بار آپ کے باوفا ساتھیوں نے مختلف قسم کے الفاظ میں جواب دیا کہ "ہم ہرگز راہ حق سے منہ نہیں موڑیں گے جس کے امام آپ ہیں اور آپ کے پاک دامن سے ہرگز دست کش نہ ہوں گے اور جب تک ہمارے جسم میں جان اور ہمارے ہاتھ میں شمشیر ہے، آپ کے حرم کا دفاع کریں گے۔[67] بایں حال، امام سجادؑ سے منقولہ روایت کے مطابق جب امام حسینؑ نے اصحاب کو خطبہ دے کر انہیں جانے کی اجازت دی تو سب نے جانے سے انکار کیا اور سب نے اٹھ کر ایمان و شجاعت اور ولایت اہل بیتؑ سے مالامال جذبات کے ساتھ رہنے اور تا لمحۂ شہادت، پامردی دکھانے پر اصرار کیا۔[68]

9 محرم کی شام کو دشمن کی طرف سے امامؑ کو (بیعت یا جنگ) کی آخری تعمیل آگئی اور آپؑ نے اس رات عبادت اور راز و نیاز کے لئے مہلت لی اور اگلے روز جنگ کا فیصلہ کیا۔[69] (دیکھیں: روز تاسوعا)

10 محرم سنہ 61 ہجری، امامؑ اپنے قلیل ساتھیوں کے ہمراہ (جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ 90 تک پہنچتی تھی اور ان میں چالیس افراد وہ تھے جو آپؑ کے ساتھ کربلا آئے تھے اور 30 سے کچھ زیادہ افراد جنگ کی رات اور دن کے دوران دشمن کے لشکر سے الگ ہوکر آپؑ سے آملے تھے اور باقی افراد کا تعلق بنو ہاشم سے تھا جن میں آپؑ کے بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور عمو زادگان شامل تھے) دشمن کے کے بے شمار لشکر کے سامنے صف آرا ہوئے اور جنگ شروع ہوئی۔[70] (دیکھیں: روز عاشورا)

اس روز وہ صبح سے سہ پہر تک لڑے اور سیدالشہداءؑ اور آپؑ کے اصحاب کے تمام افراد شہید ہوئے (شہداء میں امام حسن مجتبیؑ کے دو کم سن فرزند اور امام حسینؑ کے ایک شیرخوار، بھی شامل تھے)۔ [71]

بنوامیہ کی رسوائی

واقعۂ کربلا اور اہل بیتؑ کی خواتین و بچیوں کو شہر بہ شہر گھمائے جانے اور اسیروں کے درمیان زینب کبری(س) اور امام سجادؑ کے کوفہ و شام میں متعدد بار خطبوں نے بنو امیہ کو رسوا کردیا اور معاویہ کی عشروں پر محیط تشہیری مہم کو ناکارہ کردیا یہاں تک کہ یزید نے اپنے ہی گماشتوں کے اعمال سے ملأ امام میں بیزاری کا اعلان کیا اور واقعۂ کربلا مؤثر ترین سبب تھا جس نے اپنے طویل المدت اثر کے طور پر بنو امیہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا، شیعہ کی جڑوں کو مستحکم کیا اور اس کے قلیل المدت آثار میں سے ایک یہ تھا کہ پورے عالم اسلام میں بغاوتوں اور تحریکوں کا آغاز ہوا جن نہایت خونریز جنگوں میں بدل گئیں اور جنگ و نزاع کی یہ صورت حال 12 برسوں تک جاری رہی؛ یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہونے والوں میں سے ایک فرد دست انتقال کی گرفت سے جان نہ بچا سکا۔[72]

عاشورا کے بارے میں ایک تجزیہ
اگر کوئی امام حسینؑ کی تاریخ حیات اور یزید کے احوال میں باریک بینی کے ساتھ غور و تدبر کرے تو اس کے لئے اس حقیقت میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس دن امام حسینؑ کے پاس اور قتل ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور بیعت یزید جو اسلام کی اعلانیہ پامالی کے مترادف تھی، آپؑ کے لئے ممکن نہ تھی؛ کیونکہ اگر ایک طرف سے یزید دین اسلام اور اس کے احکام کے لئے کسی قسم کی حرمت و احترام کا قائل نہ تھا اور کسی بھی اخلاقی اور دینی قاعدے اور قانون کا پابند نہ تھا تو دوسری طرف سے وہ اسلام کے مقدسات اور قوانین کا اعلانیہ مذاق اڑاتا تھا اور لاپروائی سے انہیں پامال کرتا تھا۔ جبکہ اس کے اسلاف دین کے بھیس میں دینی قوانین کی مخالفت کیا کرتے تھے، وہ دین کی ظاہری صورت کا احترام کرتے تھے اور ان دینی نسبتوں پر فخر کیا کرتے تھے جو مسلمانوں کے نزدیک محترم تھیں؛ جیسے: رسول اللہؐ کا صحابی ہونا وغیرہ۔[73]

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان دو پیشواؤں (امام حسن اور امام حسین) کے معیار مختلف تھے ـ اور امام حسنؑ صلح پسند تھے جبکہ امام حسینؑ جنگ کو ترجیح دیتے تھے؛ یہاں تک کہ بڑے بھائی نے 40000 کا لشکر ہونے کے باوجود معاویہ کے ساتھ صلح کرلی اور چھوٹے بھائی 40 افراد کے ساتھ یزید کے خلاف میدان جنگ میں اترے ـ ایک بےجا اور بے بنیاد دعوی ہے؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی امام حسینؑ جو حتی ایک دن بھی یزید کی بیعت کے سائے میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے، عرصہ 10 سال تک معاویہ کی حکومت میں بھائی امام حسنؑ کی مانند رہے (اور امام حسنؑ بھی 10 برس تک معاویہ کی حکومت میں رہے تھے)، اور کبھی اس انداز سے مخالفت نہیں کی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر امام حسنؑ اور امام حسینؑ معاویہ کے خلاف کارزار کا راستہ اپناتے تو یقینا قتل کئے جاتے اور ان کا قتل اسلام کے لئے ذرہ برابر بھی مفید نہ ہوتا؛ اور ان کی شہادت معاویہ کی بظاہر حق بجانب روشوں کے مقابلے میں جو صحابی، کاتب وحی اور خال المؤمنین (مؤمنوں کا ماموں) کہلواتا تھا اور ہر قسم کی سازشیں کرتا تھا، غیر مؤثر ہوتی۔ علاوہ ازیں وہ اپنے گماشتوں کے ذریعے انہیں قتل کروا سکتا تھا اور خود جاکر سوگواری اور عزاداری کے لئے بیٹھ سکتا تھا اور ان کی خونخواہی کا دعوی کرسکتا تھا؛ وہی معاملہ جو اس نے خلیفۂ ثالث کے ساتھ کیا تھا۔[74]

چوتھے امام

امام زین العابدین علیہ السلام (علی بن حسین ملقب بہ زین العابدین و سجاد) تیسرے امام کے فرزند ہیں جن کی والدہ ایران کے بادشاہ یزدگرد سوئم کی بیٹی شاہ زنان (المعروف بہ شہربانو) ہیں۔ آپؑ تیسرے امام کے واحد بیٹے تھے جو باقی تھے؛ جبکہ آپؑ کے تین بھائی کربلا میں شہید ہو چکے تھے اور آپؑ بھی والد کے ساتھ کربلا آئے تھے لیکن (چونکہ کربلا میں قیام کے دوران) بیمار تھے اور ہتھیار اٹھانے اور لڑنے سے عاجز تھے، جہاد میں شریک نہ ہوسکے اور شہید نہیں ہوئے اور اسیران اہل بیت رسولؐ کے ہمراہ شام روانہ کئے گئے۔[75]

اسیری کے ایام گذارنے کے بعد، یزید کی ہدایت پر، رائے عامہ کی دلجوئی کی غرض سے احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دیئے گئے۔ آپؑ کو دوسری بار اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حکم پر بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر شام لے جایا گیا اور دوبارہ مدینہ واپس آگئے۔[76]

چوتھے امام مدینہ واپسی کے بعد اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوئے اور ہر اجنبی پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا، عبادت الہی میں مصروف ہوئے اور ابو حمزہ ثمالی اور ابو خالد کابلی سمیت خواصِ شیعہ کے سوا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ خواص آپ سے اسلامی معارف اخذ کرکے شیعیان اہل بیت کے درمیان پھیلا دیتے تھے اور اس طریقے سے تشیع کو بہت فروغ ملا اور اس فروغ کے اثرات پانچویں امام کے زمانے میں ظہور پذیر ہوئے۔[77]

چوتھے امام کے باقیماندہ آثار میں آپؑ کی دعائیں ہیں جو صحیفۂ سجادیہ کی صورت میں شائع ہوتی رہی ہیں؛ یہ 57 دعائیں ہیں جو صحیح ترین معارف الہیہ پر مشتمل ہیں اور اس کو زبور آل محمد بھی کہا جاتا ہے۔[78]

چوتھے امامؑ 35 سالہ امامت کے بعد، بعض شیعہ روایات کے مطابق سنہ 95 ہجری میں اموی، مروانی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی تحریک پر اس کے بھائی ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[79]

پانچویں امام

امام محمد بن بن علی (باقر: علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والا اور شکافتہ کرنے والا اور وہ لقب ہے جو رسول اللہؐ نے پانچویں امام کو عطا کیا ہے) چوتھے امام کے فرزند ہیں جو سنہ 57 ہجری میں پیدا ہوئے، واقعۂ کربلا میں موجود تھے اور اپنے والد کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اپنے اسلام (رسول خداؐ، علیؑ اور امامین حسنینؑ کی وصیت کے مطابق، عہدۂ امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114 یا 117 ہجری میں (شیعہ روایات کے مطابق اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں مسموم اور) شہید ہوئے۔[80]

پانچویں امام کے زمانے میں ایک طرف سے بنو امیہ کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور اموی خاندان کو اندرونی اختلافات کا سامنا تھا اور اس مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کررکھا تھا اور یہ صورت حال امویوں کو اہل بیتؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکے رکھتی تھی۔[81] اور دوسری طرف سے کربلا کے المیے اور اہل بیتؑ کی مظلومیت ـ جس کی نمائندگی چوتھے امامؑ کررہے تھے ـ مسلمانوں کو اہل بیتؑ کی طرف مائل کررہی تھی۔ یہ اسباب و عوامل نے مل کر، عام لوگوں ـ بالخصوص شیعیان اہل بیت ـ کو سیلاب کی مانند مدینہ کی جانب متوجہ کردیا اور امامؑ کے لئے معارف اہل بیت کی ترویج کے امکانات فراہم کئے جو آپؑ سے قبل کے ائمہؑ کے لئے فراہم نہیں ہوئے تھے؛ اور اس حقیقت کی گواہی وہ بے شمار احادیث ہیں جو پانچویں امام سے نقل ہوئی ہیں؛ اور شیعہ علماء اور رجال علم و دانش کی ایک بڑی جماعت نے مختلف علوم و فنون کے مختلف شعبوں میں آپؑ کے مکتب سے فیض حاصل کیا ہے اور ان کے نام فہرستوں اور کتب رجال میں ثبت ہوئے ہیں۔[82]

چھٹے امام

مام جعفر بن محمد (صادق) پانچویں امام کے فرزند ہیں جو سنہ 83 ہجری میں پیدا ہوئے اور منصور عباسی کی تحریک پر سنہ 148 ہجری اور شہید کردیئے گئے۔[83]

چھٹے امام کے عہد میں اسلامی ممالک میں متعدد انقلابات شروع ہوگئے تھے اور خاص طور پر مسوِّدہ (سیاہ پوشوں) کی تحریک، جو بنو امیہ کی خلافت کو گرانے کے لئے شروع ہوئی تھی؛ اور خونریز لڑائیاں لڑی جارہی تھیں جو آخر کار بنو امیہ کی خلافت و خاندان کے زوال پر منتج ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی صورت حال سے استفادہ کرکے امام باقرؑ نے اپنی 20 سالہ امامت کے دوران اسلامی حقائق اور معارف اہل بیتؑ کی ترویج کی جو بنیاد رکھی تھی، اس کے پیش نظر، امام صادقؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔[84]

چھٹے امام نے اپنے دور امامت کے آخر تک ـ جو خلافت بنی امیہ کے اواخر اور خلافت بنی عباس کے اوائل، کے ہم عصر تھی ـ نئی صورت حال اور معرض وجود میں آنے والے مناسب ماحول سے استفادہ کرکے دینی تعلیمات کی ترویج کا اہتمام کیا اور مختلف فنون اور عقلی و نقلی علوم میں زرارہ، محمد بن مسلم، مؤمن طاق، ہشام بن حکم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، حریز بن عبداللہ ازدی کوفی سجستانی، ہشام کلبی نسابہ، کیمیا دان جابر بن حیان صوفی سمیت متعدد شخصیات کی پرورش اور تربیت کی۔ یہاں تک کہ سفیان سوری، مذہب حنفی کے امام، ابو حنیفہ، قاضی سکونی اور قاضی ابو البختری سمیت اہل سنت کی متعدد علمی شخصیات کو امام صادقؑ سے حصول فیض کا اعزاز حاصل ہے۔ مشہور ہے کہ چھٹے امام کے حوزۂ درس سے 4000 محدثین اور علماء فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔[85]

امامین صادقین (یعنی امام باقر و امام صادق) علیہما السلام سے منقولہ احادیث کی تعداد پیغمبر اکرمؐ اور باقی 10 ائمہ سے منقولہ حدیثوں سے زیادہ ہے۔[86]

چھٹے امامؑ کو اپنے دور امامت کے اواخر میں عباسی خلیفہ منصور عباسی کے ظلم سے دچار ہونا پڑا۔ منصور نے آپؑ کی کڑی نگرانی شروع کی، آپؑ کو محدود کیا۔ منصور نے سادات اور علویوں کے حق میں مختلف قسم کے مظالم اور تشدد آمیز اقدامات روا رکھے، جو بنو امیہ نے ـ سنگ دلی اور لاپروائیوں کے باوجود ـ روا نہیں رکھے تھے۔ علویوں کو منصور کے حکم پر گرفتار کیا جاتا تھا اور تاریک زندانوں کی گہرائیوں میں تشدد اور آزار و اذیت کرکے ان کی زندگیوں کا خاتمہ کیا جاتا تھا اور بعض کے سر اجتماعی طور پر قلم کئے جاتے تھے، بعض کو زندہ در گور کیا جاتا اور بعض کو عمارتوں کی بنیادوں اور دیواروں کے بیچ قرار دیا جاتا تھا اور ان کے اوپر عمارتیں بنائی جاتی تھیں۔[87]

منصور نے حکم دیا کہ امام صادقؑ کو مدینہ سے گرفتار کیا جائے (چھٹے امام اس سے قبل بھی ایک بار عباسی خلیفہ سفاح کے حکم پر عراق لایا گیا تھا اور اس سے قبل ایک بار اپنے والد امام محمد باقرؑ کے ہمراہ، ہشام بن عبدالملک کے حکم پر، دمشق لے جایا گیا تھا)۔ منصور نے امامؑ کو بلوایا تو کچھ عرصے تک آپؑ کی نگرانی کی اور کئی بار آپؑ کے قتل کے منصوبے بنائے اور آپؑ کی بےحرمتی کی لیکن آخر کار اس نے اجازت دی کہ آپؑ مدینہ واپس چلے جائیں؛ امامؑ مدینہ واپس چلے گئے اور باقی عمر شدید تقیے اور تقریبا گوشہ نشینی کی حالت میں گذاری، یہاں تک کہ منصور کی سازش کے تحت مسموم اور شہید کردیئے گئے۔[88]

منصور نے چھٹے امام کی شہادت کی خبر وصول کرکے مدینہ کے والی کو لکھا کہ پسماندگان کو دلاسہ دینے کے بہانے امامؑ کے گھر چلا جائے اور امامؑ کا وصیت نامہ منگوا کر پڑھ لے اور دیکھ لے کہ جس کو امامؑ نے وصی اور جانشین کے طور پر متعارف کرایا ہو اس کا سر فی المجلس ہی قلم کردے؛ اور البتہ منصور کا مقصود یہ تھا کہ مسئلۂ امامت کا خاتمہ کیا جائے اور تشیع کے چراغ کو ہمیشہ کے لئے گل کردے؛ لیکن اس کی سازش کے برعکس، مدینہ کے والی نے جب امامؑ کی وصیت کو پڑھ لیا تو دیکھا کہ آپؑ نے پانچ افراد کو بحیثیت جانشین متعین کیا ہے: 1۔ منصور عباسی، 2۔ مدینہ کا والی، 3۔ بڑا بیٹا عبداللہ افطح، 4۔ چھوٹا بیٹا موسی اور ان کی والدہ 5۔ حمیدہ خاتون (جو امام موسی کاظم علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ امام صادقؑ نے اس تدبیر کے ذریعے منصور کی سازش کو خاک میں ملایا تھا۔[89]

ساتویں امام

امام موسی بن جعفر (کاظم) چھٹے امامؑ کے فرزند ہیں جو سنہ 128 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 183 ہجری کو [ہارون عباسی کے حکم پر] قیدخانے میں مسموم اور شہید ہوئے۔ آپؑ [سابقہ ائمہؑ کی طرح] امر پرورگار اور والد کی وصیت سے عہدۂ امامت پر فائز ہوئے۔[90]

ساتویں امام عباسی خلفاء میں سے منصور، ہادی، مہدی اور ہارون کے ہم عصر تھے اور شدید ترین گھٹن اور تاریک دور میں سخت تقیے کی حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ یہاں تک کہ بالآخر ہارون حج کے عنوان سے مدینہ چلا گیا اور اس کے حکم پر امام کاظمؑ کو ـ مسجد النبیؐ میں نماز بجا لارہے تھے ـ گرفتار کرکے زنجیروں میں جکڑ لیا اور قیدخانے میں مقید کرلیا۔ آپؑ کو مدینہ سے بصرہ اور بصرہ منتقل کیا گیا اور برسوں تک ایک قید خانے سے دوسرے اور دوسرے سے میں منتقل کیا جاتا رہا اور بالآخر آپؑ کو بغداد میں سندی بن شاہک کی زندان میں قید کیا گیا جہاں آپؑ کو مسموم اور شہید کیا گیا اور مقبرہ قریش میں سپرد خاک کیا گیا جو اس وقت شہر کاظمیہ کہلاتا ہے۔[91]

آٹھویں امام

امام علی بن موسی (رضا) ساتویں امام کے فرزند ہیں جو مشہور ترین تاریخ کے مطابق سنہ 148 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 203 کو [مامون کے ہاتھوں مسموم ہوکر] شہید ہوئے۔[92]

آٹھویں امام اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اسلاف کی جانب سے متعارف کئے جانے کی بنا پر، عہدۂ امامت پر فائز ہوئے اور ہارون عباسی، امین عباسی اور مامون عباسی کے ہم عصر تھے۔[93]

باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں "مامون اور امین" کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے خونریز جنگیں ہوئیں اور امین مارا گیا چنانچہ مامون سریر خلافت پر مسلط ہوا۔ اس دن تک علوی سادات کے خلافت بنو عباس کی روش تشدد پسندانہ اور کشت و خون پر مبنی تھی اور یہ روش مسلسل شدید سے شدید تر ہوتی رہی تھی؛ جس کی وجہ سے کچھ عرصہ خاموشی چھا جاتی تھی لیکن پھر بھی کوئی علوی عباسیوں کے خلاف قیام کرتا اور خونریز جنگ اور آشوب کا ماحول بن جاتا تھا اور یہ بجائے خود عباسی حکمرانوں کے لئے شدید اور ناخوشگوار آزمائش تھی جس سے انہیں گذرنا پڑتا تھا۔ اور اہل بیت میں شیعیان اہل بیت کے ائمہؑ اگرچہ قیام اور تحریک بپا کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تھے اور ان مسائل میں مداخلت سے دور رہتے تھے، لیکن ان دنوں شیعہ آبادی اچھی خاصی تھی اور وہ سب ائمۂ اہل بیت کو اپنے پیشوا اور مفترض الطاعہ امام، اور پیغمبر اکرمؐ کے حقیقی خلفاء اور جانشین سمجھتے تھے۔ وہ خلافت کے نظام کو ـ جو قیصر کسرٰی کے دربار کی صورت اختیار کرگیا تھا، اور بعض بےراہرو افراد کے زیر انتظام ہوتا تھا ـ ناپاک نظام سمجھتے تھے اور اس کو اپنے پاک پیشواؤں کے مقدس دامن سے دور دیکھتے تھے، چنانچہ اس صورت حال کا دوام و تسلسل عباسی نظام خلافت کے لئے خطرناک تھا اور اس کے وجود کو خطرے سے دوچار کرتا تھا۔[94]

مامون نے سوچا کہ ان آزمائشوں کو ـ جنہیں اس کے اسلاف کی ستر سالہ روش ختم نہیں کرسکی تھی ـ نئی روش اور نئی سیاست سے ختم کردے؛ اور وہ روش یہ تھی کہ آٹھویں امامؑ کو ولایت عہدی کا منصب سونپ دے اور یوں ہر مسئلے کا خاتمہ کرے؛ کیونکہ اس صورت میں علوی ایسی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرتے جن میں ان کا اپنا بھی کردار ہوتا اور شیعہ بھی ـ جو خلافت اور اس کے کارگزاروں کو پلید و ناپاک سمجھتے تھے ـ جب اپنے امام کے ہاتھوں کو خلافت کی پلیدی سے آلودہ دیکھتے تو وہ ـ جو ائمۂ اہل بیت کے تئیں معنوی اعتقاد اور باطنی عقیدہ رکھتے تھے ـ اپنا عقیدہ کھوجائیں گے، ان کا مذہبی نظم و نسق ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد ان کی طرف سے خلافت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے گا۔[95]

نویں امام

امام محمد بن علی (تقی) (ابن الرضا)، آٹھویں امام کے فرزند ہیں جو سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور شیعہ احادیث کے مطابق سنہ 220 ہجری میں معتصم عباسی کے حکم پر اپنی زوجہ ام الفضل بنت مامون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے ہیں اور کاظمین کے مقام پر اپنے جد امجد ساتویں امامؑ کے پہلو میں مدفون ہیں۔[96]

آپؑ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔ امام جوادؑ والد کی شہادت کے وقت مدینہ میں تھے۔ مامون نے آپؑ کو بغداد طلب کیا ـ جو ان دار الخلافہ تھا ـ اور آپؑ کے ساتھ بظاہر محبت سے پیش آیا اور بڑی مہربانی برتی اور اپنی بیٹی کا آپؑ سے عقد کیا۔ اور آپؑ کو بغداد میں روکے رکھا۔ وہ درحقیقت اس واسطے سے آپؑ پر اندرون خانہ و بیرون خانہ کڑی نگرانی کا انتظام کیا۔ امامؑ کچھ عرصے تک بغداد میں روہے اور پھر مامون کی اجازت سے مدینہ گئے اور مامون کے عہد حکومت کے آخر تک مدینۃ الرسول میں رہے۔ مامون کا انتقال ہوا تو معتصم نے زمام خلافت سنبھال لی، امامؑ کو دوبارہ بغداد طلب کرکے زیر نگرانی رکھا اور آخرکار ـ جیسا کہ بتایا گیا ـ معتصم کی تحریک پر اپنی زوجہ ام فضل بنت مامون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[97]

دسویں امام

امام علی بن محمد (نقی)، نویں امامؑ کے فرزند سنہ 212 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 254 ہجری کو (شیعہ روایات کے مطابق) عباسی خلیفہ معتز کے ہاتھوں ـ زہر کے ذریعے سے ـ شہید ہوئے[98] اور سامرا میں مدفون ہوئے۔

دسویں امام سات عباسی خلفاء ـ مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز ـ کے ہم عصر تھے۔ سنہ 220 میں آپؑ کے والد بزرگوار بغداد میں مسموم ہوکر شہید ہوئے تو آپؑ اس وقت مدینہ میں تھے۔ بأمر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپؑ نے دینی معارف کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ متوکل نے خلافت پر قبضہ کیا۔[99]

متوکل نے سنہ 243 ہجری کو [حاسدین کی] چغلیوں کے نتیجے میں اپنے ایک امیر کو حکم دیا کہ امامؑ کو مدینہ سے سامرا لے آئے اور آپؑ کے نام ایک محبت آمیز اور تعظیم و تکریم سے بھر پور خط لکھا اور سامرا کی طرف روانہ ہوکر ملاقات کے لئے آنے کی درخواست کی۔ امامؑ سامرا آئے تو بظاہر کوئی اقدام عمل میں نہیں لایا گیا لیکن متوکل نے آپؑ کے لئے آزار و اذیت اور ہتک حرمت کے تمام ممکنہ اسباب فراہم کئے اور کئی بار قتل اور توہین کی غرض سے آپؑ کو طلب کیا اور اس کے حکم سے آپؑ کے گھر کی تلاشی لی گئی۔[100]

خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی میں عباسی خلفاء میں متوکل کی کوئی مثال نہ تھی اور بطور خاص علیؑ کی ساتھ شدید دشمنی برتتا تھا اور آشکارا دشنام طرازی کرتا تھا۔ اس نے ایک نقل اتارنے والے مسخرے کو حکم دیا تھا کہ بزم عیش میں امیرالمؤمنینؑ کا مذاق اڑاتا رہے اور یوں وہ دیکھ کر ہنستا تھا!! اس نے سنہ 237 ہجری میں کربلا میں ضریح امام حسینؑ کو منہدم کیا جائے چنانچہ حرم امام حسینؑ اور اطراف میں بنے ہوئے بے شمار گھروں کو منہدم کرکے زمین کے برابر کردیا گیا! اور حکم دیا کہ حرم امام حسینؑ پر پانی باندھا جائے اور متوکل نے حکم دیا کہ ہموار کی ہوئی زمین میں ہل چلایا جائے تا کہ حرم کا اسم و رسم تک مٹ جائے۔[101]

متوکل کے زمانے میں حجاز میں سکونت پذیر علوی سادات کی زندگی کے حالات افسوسناک حد تک خراب تھے جن کی خواتین کے پاس چہرہ چھپانے کے لئے کوئی ساتر نہیں ہوتا تھا اور اکثر خواتین کے پاس پھٹی پرانی چادر ہوتی تھی جس کو وہ نماز کے وقت باری باری استعمال کرتی تھیں۔ اسی طرح کے مظالم اس نے مصر میں مقیم علوی سادات کے ساتھ بھی روا رکھے۔ دسویں امامؑ متوکل کے تشدد اور آزار و اذیت پر صبر کرتے تھے حتی کہ متوکل چل بسا اور اس کے بعد منتصر، مستعین اور معتر یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کی سازش کے نتیجے میں مسموم اور شہید ہوئے۔[102]

گیارہویں امام

امام حسن بن علی (عسکری) دسویں امام کے فرزند ہیں جو سنہ 232 ہجری قمری میں پیدا ہوئے اور سنہ 260 ہجری قمری کو (شیعہ روایات کے مطابق) عباسی خلیفہ معتمد کی سازش سے مسموم اور شہید ہوئے۔[103]

گیارہویں امام اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور سات سال کے عرصے تک امام رہے۔ اس عرصے میں آپؑ کو عباسی خلافت کی ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے تحت نہایت تقیے کی حالت میں زندگی گذارنا پڑی اور آپ کی روش نہایت محتاطانہ تھی۔ آپؑ کے گھر کا دروازہ عوام ـ یہاں تک کہ شیعیان اہل بیت ـ کے لئے بند رہتا تھا اور صرف خواصّ شیعہ کو ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔ بایں وجود آپ اکثر و بیشتر قید میں رہتے تھے اور اس قدر شدید دباؤ کا سبب یہ تھا کہ:

اولاً: ان زمانوں میں شیعہ کی آبادی اور قوت میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا؛ اور سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ "شیعہ وہ ہیں جو امامت کے قائل ہیں" ائمۂ شیعہ پہچانے گئے تھے اور معروف و مشہور تھے؛ اسی بنا پر عباسی خلافت نے پہلے سے کہیں زیادہ، ائمہؑ کی نگرانی شروع کررکھی تھی اور ہر ممکنہ روش کو بروئے کار لاکر اسرار آمیز سازشوں کے ذریعے انہیں محو و نابود کرنے کے درپے تھی۔ ثانیا
ثانیاً: عباسی خلافت جان چکی تھی کہ خواص شیعہ گیارہویں امام کے لئے ایک فرزند کے قائل ہیں اور وہ جو احادیث امامؑ اور آپؑ کے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ان کی رو سے آپؑ کے یہ فرزند وہی مہدی موعود(عج) ہیں جن کی خبر شیعہ اور سنی راویوں اور محدثین نے نقل کی ہے اور انہیں امام دوازدہم کہا جاتا ہے۔[104]
چنانچہ گیارہویں امام پر گذشتہ ائمہؑ کی نسبت زیادہ سخت نگرانی کی جاتی تھی اور خلیفۂ وقت نے قطعی فیصلہ کیا تھا کہ داستان امامت کا خاتمہ کردے اور اس گھر کا درواز ہمیشہ کے لئے بند کردے۔ چنانچہ جبب معتمد عباسی کو معلوم ہوا کہ امامؑ بیمار ہیں تو اس نے ایک طبیب آپؑ کے پاس روانہ کیا اور اپنے معتمدین اور قضات (= قاضیوں) میں سے چند افراد کو حکم دیا کہ آپؑ کے گھر کی نگرانی کریں اور گھر کے اندرونی حالات پر نظر رکھیں، اور امامؑ کی شہادت کے بعد گھر کی تلاشی لیں۔ خلیفہ کے گماشتوں نے دائیوں کے توسط سے امامؑ کی کنیزوں کا معائنہ کروایا اور دو سال تک اس کے جاسوس گیارہویں امام کا خلف ڈھونڈنے میں مصروف رہے حتی کہ مکمل طور پر مایوس اور ناامید ہوئے۔[105]

شہادت کے بعد گیارہویں امام کو سامرا میں اپنے گھر کے اندر آپؑ کے والد بزرگوار دسویں امام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔[106]

بارہویں امام


حضرت مہدی موعود (جو امام عصر، صاحب الزمان [امام زمانہ] کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں) سنہ 256 ہجری کو سامرا میں پیدا ہوئے اور سنہ 260 ہجری میں اپنے والد ماجد کی شہادت تک آپؑ کے زیر تربیت رہے اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے اور خواص شیعہ میں سے معدودے چند افراد کے سوا کسی کو آپ(عج) کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوتا تھا اور والد کی شہادت کے بعد آپ(عج) امامت کے منصب پر فائز ہوئے تو بامر خدا غائب ہوئے اور اپنے نُوّابِ خاص (= نائبین خاص) کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہوتے تھے سوائے خاص استثنائی حالات کے۔[107]

نوّاب خاص

بارہویں امام نے کچھ عرصے تک عثمان بن سعید عَمری کو ـ جو آپ(عج) کے والد اور جد امجد کے اصحاب میں سے تھے اور ان کے معتمد اور امین تھے ـ نائب خاص قرار دیا اور ان کے توسط سے شیعیان اہل بیت کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ عثمان بن سعید کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان عَمری امام(عج) کے نائب مقرر ہوئے جن کی وفات کے بعد یہ منصب ابو القاسم حسین بن روح نوبختی کو سونپ دیا گیا۔ حسین بن روح کی وفات کے بعد علی بن محمد سمری ناحیۂ مقدسۂ امام عصر(عج) کے نائب خاص تھے۔[108]

سنہ 329 ہجری میں علی بن محمد سمری کی وفات کو ابھی چند روز باقی تھے کہ ناحیۂ مقدسہ کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس میں علی بن محمد سمری کو ہدایت کی گئی تھی کہ "تم آج سے چھ دن بعد دنیا سے رخصت ہوجاؤگے اور اس کے بعد نیابت خاصہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اب غیبت کبری واقع ہوگی اور اس دن تک جاری رہے گی جب خداوند متعال اذن ظہور دے گا۔

چنانچہ اس توقیع کے مطابق بارہویں امام(عج) کی غیبت کے دو مرحلے ہیں:

غیبت صغری: جس کا آغاز سنہ 260 ہجری اور اختتام سنہ 329 ہجری کو ہوا اور یہ غیبت تقریبا 70 سال تک جاری رہی۔
غیبت کبری: جو سنہ 329 سے شروع ہوئی اور جب تک خدا چاہے گا جاری رہے گی۔ رسول اللہؐ شیعہ اور سنی کے ہاں متفق علیہ حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
اگر باقی نہ رہا ہو اس دنیا کی عمر سے مگر ایک دن، خداوند متعال اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میرے فرزندوں میں سے مہدی ظہور کرے اور اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔[109]
آئمہؑ کے بارے میں اہل سنت کی کتابیں
سطور بالا کے علاوہ، اہل سنت کے حلقوں میں بھی ائمہؑ کی شخصیت کا ذکر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا اور یہی احترام کبھی ان کے فضائل میں کسی کتاب کی تالیف کے اسباب فراہم کرتا تھا۔

اہل سنت کے ہاں فضائل اہل بیتؑ میں تالیف ہونے والی کتب کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مؤلفین کے لئے ایک الہام بخش اثر، "ابوالفضل یحیی بن سلامہ حصکفی (متوفٰی سنہ 551 یا 553 ہجری) کا قصیدہ ہے جس میں تمام ائمۂ طاہرین کے نام لے کر ان کی مدح کی گئی ہے۔[110]۔[111]

علمائے اہل سنت کے توسط سے بارہ اماموں کے فضائل میں لکھی جانی والی کتابوں کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:

مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تالیف: کمال الدین ابن طلحہ شافعی (متوفٰی 562 ھ)، مطبوعہ نجف، دارالکتب التجاریہ؛
تذکرۃ خواص الامۃ فی خصائص الائمۃ، تالیف: حنفی عالمی دین یوسف بن قزاوغلی، سبط ابن جوزی (متوفٰی 654 ہجری)، اشاعت مکرر، منجملہ نجف، 1369 ہجری قمری؛
الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمہ، تالیف: ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری) جو بارہا، منجملہ نجف میں، دار الکتب التجاریہ کے توسط سے زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ اور اس کے متعدد اور مختلف النوع اور کثیر نسخے عالم اسلام کے قلمی کتب خانوں میں محفوظ ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب مختلف صدیوں میں رائج اور دستیاب رہی ہے۔ [112]. ابن صباغ نے اپنی اس کاوش میں شیعہ کتب منجملہ شیخ مفید کی کتاب الارشاد سے بکثرت اقتباسات لئے ہیں۔ (ص 192، 213، جم)؛
الشذرات الذہبیہ یا الائمۃ الاثنا عشر، تالیف: حنفی دمشقی عالم شمس الدین ابن طولون، (متوفٰی 953 ھ)، ط بیروت، 1958 عیسوی، باہتمام صلاح الدین المنجد؛
الاتحاف بحب الاشراف، تالیف: مصر کے شافعی عالم عبداللہ بن عامر شبراوی، (متوفٰی 1172 ہجری)، ط قاہرہ، 1313 ہجری قمری؛
نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، تالیف: سید مؤمن شبلنجی (متوفٰی بعد از 1290 ہجری)، طبع مکرر منجملہ قاہرہ میں، سنہ 1346 ہجری؛
ینابیع المودۃ، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی، (متوفٰی 1294 ہجری)، ط استنبول، 1302 ہجری۔[113]
مقام امامت کی اہمیت
الف: شریعت کے تحفظ کی ضرورت:

ہر معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کی بات اور روش حجت قاطع اور میزان حق و باطل ہو، تا کہ اس معاشرے کے دین کے محتوا اور مندرجات و مضامین میں کوئی اختلاف نمودار ہونے کی صورت میں اختلاف حل ہو دین انحراف سے محفوظ رہے۔ دین اسلام میں بھی پیغمبرؐ کے بعد ایسے افراد کی ضرورت ہے ورنہ دین کے بارے میں لوگوں کے مختلف النوع تصورات اور نظریات کا ظہور دین کی منزلت کو مخدوش کرے گا۔ امام رضاؑ فرماتے ہیں:

" ... اگر خداوند متعال ایک استوار، امین اور (دین اور اسرار خداوندی کا) حافظ و پاسدار امام لوگوں کے لئے مقرر نہ کرے تو یقینی طور پر شریعت پوسیدگی اور فرسودگی کا شکار ہو جائے گی اور دین نیست و نابود ہوگا اور سنت نبوی اور احکام الہی میں تبدیلیاں آئیں گی، بدعت گذار اس میں اضافات کریں گے اور ملحدین اس میں سے کم کریں گے، اور صورت حال مسلمانوں کے لئے مشکوک ہوگی۔[114]

ب) معاشرے کو الہی راہنماؤں کی ضرورت:

انسان کی بہت سی ضروریات معاشرے کی تشکیل اور عمومی تعاون کے بغیر پوری نہیں ہوتیں اور ایک صالح معاشرہ الہی قوانین کے نفاذ کے بغیر تشکیل نہیں پاتا اور ان قوانین کے نفاذ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اولا عالم ہو اور اپنے علم پر عمل کرتا ہو اور لغزش و خطا سے محفوظ ہو تا کہ قانون کا من و عن نفاذ کرے اور ہر صاحب حق کا حق ادا کرے ورنہ تو انسان کے وجود میں کمال تک پہنچنے کے لئے رکھی ہوئی قوتیں ظہور تک نہیں پہنچیں گی اور یہ لازم آئے گا کہ ان قوانین کا خداوند متعال کی صرف سے وضع ہونا ہی مہمل تھا جبکہ وہ حکیم ہے اور مہمل کام کا صدور اس کی ذات کے لئے محال ہے۔

ج) دین کی تفسیر و تشریح کی ضرورت:

انبیاء کا فریضہ ہے کہ سابقہ اقوام سے باقیماندہ انحرافات کا مقابلہ کریں نیز سابقہ شریعت کی تکمیل اور شرائع کے ارتقائی سفر میں اپنا کردار ادا کریں جبکہ اوصیاء میں سے ہر ایک کا فریضہ ہے کہ اس شریعت کی تشریح کرے، اس کا نفاذ کرے اور اس کی تطبیق کا کام سرانجام دے جس کے کلی اور اجمالی اصول اس کے پیغمبر نے لوگوں کے لئے بیان کئے ہیں چنانچہ ہر اولو العزم پیغمبر نے اوصیاء اور الہی حجتوں کو اپنے بعد چھوڑا ہے تاکہ وہ اس کی شریعت کو وسعت دیں اور وسیع سطح پر اس کو نافذ کریں۔

د) تکوینی ہدایت: قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے

:وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ۔؛
ترجمہ: اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق ہدایت کرتے ہیں اور ان کی جانب وحی بھیجی نیک کاموں کے کرنے اور نماز ادا کرنے اور زکوٰة دینے کی اور وہ صرف ہماری عبادت کرتے تھے۔[115]۔[116]
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ ہدایت جو خداوند متعال نے امامت کے فرائض میں قرار دی ہے، ہدایت بمعنی راہنمائی (راہ دکھانا) نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے ابراہیمؑ کو نبوت کا عہدہ عطا کرنے کے برسوں بعد، عہدہ امامت عطا کیا؛ واضح ہے کہ نبوت منصب ہدایت ـ بمعنی راہنمائی ـ کے لحاظ سے امامت سے جدا نہیں ہے۔ پس ہدایت ـ جو منصب امامت ہے ـ کے معنی مقصود تک پہنچانے (ایصال الی المطلوب) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے؛ اور یہ معنی در حقیقت نفوس میں ایک قسم کا تکوینی تصرف ہے؛ اور امام اس تصرف کے ذریعے دلوں کو کمال کی طرف راغب کرتا ہے اور انہیں نچلے مرحلے سے اعلی مراحل تک پہنچانے کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ تصرف تکوینی اور یہ عمل باطنی عمل ہے چنانچہ لازما وہ امر بھی تکوینی ہے ـ نہ کہ تشریعی ـ جس کے ذریعے یہ ہدایت انجام پاتی ہے ... اور یہ وہی حقیقت ہے جس کی تفسیر ذیل کی آیات کریمہ سے ہوتی ہے: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ٭ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ۔؛
ترجمہ: اس کی بات تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو چاہتا ہے، کہہ دیتا ہے ہو جا اور فوراً ہی وہ ہو جاتی ہے ٭ تو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے۔[117]

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق ہدایت معنوی فیوضات اور باطنی مراتب و مقامات میں سے ہے اور مؤمنین عمل صالح کے واسطے سے اس کی طرف راہنمائی پاتے ہیں اور اپنے پرودگار کی رحمت کے لباس سے ملبس ہو جاتے ہیں، اور یہ رحمت اس سے دوسرے لوگوں تک پھیل جاتی ہے، اور لوگ اپنے ذاتی استعداد کے مطابق اس سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ امام لوگوں اور ان کے پروردگار کے درمیان واسطے اور رابط کا کام انجام دیتا ہے اور لوگ اس کے واسطے سے اللہ کے ظاہری اور باطنی فیوضات سے مستفیض ہوتے ہیں اور فیوضات الہی درحقیقت وہی شرائع الہیہ ہیں جو وحی کے ذریعے اترتے اور پیغمبر کے ذریعے دوسرے انسانوں تک فروغ پاتے ہیں۔ نیز ہم سمجھ لیتے ہیں کہ امام وہ ہادی اور راہنما ہے جو نفوس کی ان کے مراتب کی طرف راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جس طرح کہ پیغمبر وہ ہادی اور راہنما ہے جو لوگوں کو صحیح اور حقیقی عقائد اور اعمال صالح کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے، البتہ بعض اولیائے الہی صرف پیغمبر ہیں اور بعض دونوں مناصب کے عہدیدار ہیں جیسے حضرت ابراہیمؑ کے دونوں بیٹے۔ (اسماعیل اور اسحق علیہما السلام)۔[118]

حوالہ جات

  1.  محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۳؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۸.
  2.  محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۱و۱۸۲.
  3.  ملاحظہ کریں:‌ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۱۷۰و۱۷۱ و ۳۶۹و۳۷۰.
  4.  :ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۳۸.
  5.  سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۶۵و۱۶۶.
  6.  ملاحظہ ہو:‌ علامہ حلی، كشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵.
  7.  ملاحظہ ہو: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.
  8.  مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.
  9.  ملاحظہ ہو:‌ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵۵و۲۵۶ و ۲۶۰و۲۶۱؛ سبحانی، علم غیب، ۱۳۸۶ش، ص۶۳-۷۹.
  10.  حمود، الفوائدالبہیۃ، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۱۱۷و۱۱۹.
  11.  خویی، مصباح الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق، ج‌۵، ص۳۸؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۳، ۱۳۵ و۱۴۱.
  12.  ملاحظہ کریں:‌ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۵-۲۶۸؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۳۸۳-۳۸۷.
  13.  ملاحظہ کریں: عاملی، الولایۃ التکوینیۃ والتشریعیۃ، ۱۴۲۸ق، ص۶۰-۶۳؛ مؤمن، «ولایة ولی المعصوم(ع)»، ص۱۰۰-۱۱۸؛ حسینی، میلانی، اثبات الولایة العامة، ۱۴۳۸ق، ص۲۷۲ و ۲۷۳، ۳۱۱و۳۱۲.
  14.  طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج۱، ص۲۱۴.
  15.  صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۲-۴۱۴.
  16.  صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۷، ح۴.
  17.  ملاحظہ ہو: سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱-۲۳۵؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۵۷و۱۵۸؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۰و۱۸۱.
  18.  سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۴۹و۱۵۰.
  19.  طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۲۳۶؛ محمدی شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۱۵.
  20.  مراجعہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۸؛‌ طبرسی، إعلام الوری،۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۹و۲۱۶۔
  21.  مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۷-۲۱۷.
  22.  صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۵؛ طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷۔
  23.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹۔
  24.  ملاحظہ کریں: حکیم، الامامة‌ و اهل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۵۱؛ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ۴۹۵ و ۴۹۶.
  25.  سورہ نساء،‌ آیہ ۵۹۔
  26.  خزاز رازی، کفایه الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۵۳-۵۵؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱‌، ص۲۵۴-۲۵۳۔
  27.  ملاحظہ کریں:بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۸، ص۱۲۷؛ مسلم نيشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۶، ص۳و۴؛ أحمد بن حنبل، مسند احمد، دارصادر، ج۵، ص۹۰، ۹۳، ۹۸، ۹۹، ۱۰۰ و۱۰۶؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۴۰؛ سجستانی، سنن ابی داود، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۳۰۹.
  28.  ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۳۳۴ق، ج۴، ص۵۰۱؛ نعمانی، کتاب الغیبه، ۱۴۰۳ق، ۷۴- ۷۵.
  29.  قندوزی، ینابیع المودة لذوی القربى، دارالاسوة، ج۳، ص۲۹۲و۲۹۳.
  30.  ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷و۸.
  31.  ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷-۱۵.
  32.  محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۹۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۹و۱۸۰.
  33.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵؛‌ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۳۔
  34.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۶۔
  35.  طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۰۔
  36.  محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۳۶۔
  37.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۸و۱۳۹۔
  38.  طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱۔
  39.  طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱-۲۰۲۔
  40.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۴۔
  41.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹-۶۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۸۲؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۱-۳۱۔
  42.  قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج۱، ص۳۳۷۔
  43.  حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۳-۷۱۔
  44.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص205۔
  45.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص205۔
  46.  طباطبائی، شیعه در اسلام، صص205-206۔
  47.  طباطبائی، شیعه در اسلام، صص206-207۔
  48.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص207۔
  49.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص207۔
  50.  طباطبائی، شیعه در اسلام، صص208-207۔
  51.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔
  52.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔
  53.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص208-207۔
  54.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔
  55.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔
  56.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص209۔
  57.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص209۔
  58.  طباطبائی، شیعه در اسلام، صص209-210۔
  59.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔
  60.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔
  61.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔
  62.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص211۔
  63.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص211۔
  64.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص211-212۔
  65.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔
  66.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔
  67.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔
  68.  امین العاملی، سید محسن، أعيان‏ الشيعہ، ج7، ص241۔
  69.  طباطبائی، شیعه در اسلام، ص212-213۔
  70.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص213۔
  71.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص213۔
  72.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص214۔
  73.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص214-215۔
  74.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص215۔
  75.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص 215-216۔
  76.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص216۔
  77.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص216۔
  78.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص216۔
  79.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص216-217۔
  80.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص217۔
  81.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔
  82.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص217-218۔
  83.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص218۔
  84.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص218-219۔
  85.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص219۔
  86.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص219۔
  87.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص219-220۔
  88.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص220۔
  89.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص220-221۔
  90.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص221۔
  91.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص221۔
  92.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص222۔
  93.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص222۔
  94.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص222-223۔
  95.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص223۔
  96.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص 224-225۔
  97.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص225۔
  98.  طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص225-226۔
  99.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص226۔
  100.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص226۔
  101.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص226-227۔
  102.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص227۔
  103.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص 227-228۔
  104.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص228۔
  105.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص229۔
  106.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص229۔
  107.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص230۔
  108.  طباطبائی، وہی ماخذ، صص230-231۔
  109.  طباطبائی، وہی ماخذ، ص231۔
  110.  دیکھیں: سبط ابن جوزی، تذکرة خواص الامة فی خصائص الائمة، 365- 367۔
  111.  ابن طولون، الشذرات الذهبیه یا الائمه الاثنا عشر، 40-43۔
  112.  طباطبایی، اهل البیتؑ فی المکتبة العربیة، شمارہ 17، ص109-113۔
  113.  دیگر آثار و تالیفات کے لئے رجوع کریں: طباطبایی، اهل البیتؑ فی المکتبة العربیة، شمارہ 2، ص52، شمارہ 4، ص100، 101، شمارہ 17، ص100۔
  114.  ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، ج2،ص100، مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص32۔... و يمنع ظالمهم من مظلومهم، و منها أنه لو لم يجعل لهم إماما قيما أمينا حافظا مستودعا لدرست الملة، و ذهب الدين و غيرت السنة والاحكام، ولزاد فيه المبتدعون، و نقص منه الملحدون، و شبهوا ذلك على المسلمين...۔
  115.  سورہ انبیاء، آیت 73۔
  116.  نیز دیکھئے:وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ۔
    ترجمہ: اور ان میں سے ہم نے کچھ پیشوا قرار دیئے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں جب کہ انہوں نے صبر سے کام لیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے۔ سورہ انبیاء، آیت 24۔
  117.  سورہ یس، آیات 82 و 83۔
  118.  طباطائی، تفسیر المیزان، ج14، ص430۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک