امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

واقعہ افک کیا ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

واقعہ افک by alfazlonline - Issuu

واقعۂ اِفک تاریخ صدر اسلام کے ایک واقعے کو کہا جاتا ہے جس کی طرف سورہ نور کی بعض آیات (11-26) میں اشارہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ سنہ 5 ہجری قمری کو مدینہ میں پیش آیا۔ مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرمؐ کی زوجات میں سے کسی ایک (ظاہرا مشہور یہی ہے کہ یہ واقعہ حضرت عایشہ کے ساتھ پیش آیا ہے) پر فحاشی کی تہمت لگائی۔ خدا نے مذکورہ آیات کے ذریعے تہمت لگانے اور غلط شایعات پھیلانے ولوں کی سرزنش کی ہے۔ شیعہ منابع میں نقل ہونے والی ایک اور روایت کے مطابق جس پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ ماریہ قبطیہ، زوجہ رسول اکرمؐ اور مادر ابراہیم تھیں۔
مفہوم شناسی

"اِفک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی اصلی اور طبیعی حالت میں تبدیلی آگئی ہو۔ تہمت اور جھوٹ میں چونکہ حق سے انحراف کر کے کسی واقعے کو اس کی اصلی حالت سے تبدیل کر کے پیش کیا جاتا ہے اسلئے اسے بھی افک کہا جاتا ہے۔[1]
آیات افک
تفصیلی مضمون: آیات افک

قرآن کریم کی سورہ نور کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی تہمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کام پر سرزنش کی گئی ہے۔ مذکورہ آیات کی تفسیر میں مفسرین نے جو شأن نزول بیان کیا ہے اس سے قطع نظر خود آیات سے یہ بات دریافت کیا جا سکتا ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک گروہ تھے نہ ایک یا دو شخص۔[2]

مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ مومنین کو بھی اس قسم کی شایعات کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔[3] مذکورہ آیات کے آخری حصے میں خداوندعالم نے لوگوں کو کسی پاکدامن عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔[4]
تفصیلات
پہلا احتمال

اکثر مفسرین اور مورخین کے مطابق ان آیات میں سنہ 5 ہجری قمری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کے بعض صحابہ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، حضرت عایشہ، زوجہ پیغمبرؐ پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ قرآن کریم میں مذکورہ آیات کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔ اہل سنت حضرت عایشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔[5]

مشہور روایت خود حضرت عایشہ کے نقل کے مطابق جسے تقریبا تمام منابع میں یکساں ذکر کیا گیا ہے، واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: غزوہ بنی مُصطَلِق سے واپسی پر قافلہ کسی جگہ آرام کی خاطر ٹھہر گیا، اس وقت حضرت عایشہ قضای حاجت کی نیت سے لشکرگاہ سے کہیں دور چلی گئی اس دوران آپ کی گردن بند گم ہو گئی جس کی تلاش میں کچھ مدت گزر گئی۔ جب واپس قافلہ کی طرف آگئی تو قافلہ وہاں سے حرکت کر چکا تھا چونکہ قافلہ والوں کو آپ کی عدم موجودگی کا علم نہیں تھا انہوں نے اس تصور سے کہ آپ اپنی کجاوہ میں موجود ہیں اسے اونٹ پر رکھ کر چل پڑے۔ حضرت عایشہ اسی جگہ بیٹھ گئی اس خیال سے کہ جب کجاوہ میں نہیں پائیں گے تو دوبارہ یہیں پلٹ آئیں گے، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عایشہ کو اپنی اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔ اس روایت کے مطابق اس سفر سے واپسی پر حضرت عایشہ بیمار ہو گئی اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ پیغمبر اکرمؐ کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ شایعات لوگوں کے درمیان پھیل گئی ہے۔ اس واقعے کے کچھ مدت بعد قرآن کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی جسے پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔[6]
تہمت لگانے والے

قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں عبداللہ بن اُبَیّ جو اس وقت مدینہ میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔[7] ان کے علاوہ حسان بن ثابت، حمنہ بنت جحش اور مسطح بن اثاثہ کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔[8] بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔[9] لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔[10]
اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات

یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔[11] مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں پیغبمر اکرمؐ نے حضرت علیؑ اور اسامہ سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔[12]

اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس شایعے سے متأثر ہوئے تھے۔ اگر اس بات کو قبول کریں تو یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی عصمت کے منافی ہو گا کیوکہ یہ اصلا قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بے گناہ شخص کی بنسبت سوء ظن پیدا کرے۔[13]

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان پر زنا کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو اس شخص پر قذف کا حکم جاری ہو گا اور یہ حکم اس واقعے سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور سورہ نور کی مذکورہ آیات میں بھی تہمت لگانے والوں سے گواہ طلب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ اس موقع پر معترض سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوئے حد اقل ایک ماہ گذرنے کے باوجود پیغمبر اکرمؐ نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں فرمایا؟ یا تہمت لگانے والوں سے گواہ کیوں طلب نہیں فرمایا؟ اور ان پر حد کیوں جاری نہیں کیا؟ البتہ بعض شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ قذف کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا یا اس واقعے کے ساتھ نازل ہوا تھا۔[14]
دوسرا احتمال

شیعہ منابع میں نقل ہونے والی بعض روایات کے مطابق آیات افک اس وقت نازل ہو گئی تھی جب حضرت عایشہ نے ماریہ قبطیہ پر جریح قبطی نامی شخص کے ساتھ غلط رابطہ رکھنے کی تہمت لگائی تھی۔ اس روایت کے مطابق حضرت عایشہ نے پیغمبر اکرمؐ سے جس وقت آپ اپنے بیٹے ابراہیم کی موت کی وجہ سے غمگین تھے، کہا آپ ان کی موت پر کیوں غمگین ہو حالنکہ وہ تو آپ کی نسل میں سے نہیں تھا بلکہ وہ تو جریح کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو جریح قتل کرنے کیلئے بھیجا لیکن جب حضرت علیؑ نے دیکھا کہ اس شخص کا تو آلت تناسل ہی نہیں ہے، اس کے قتل سے منصرف ہوئے یوں ماریہ پر لگائی گئی تہمت سرے سے ہی ختم ہو گئی۔ یہ روایت پہلی بار تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں نقل ہوئی ہے اور اسے امام باقرؑ کی ایک روایت سے استناد کیا گیا ہے۔[15] ان سب کے باوجود بہت سارے شیعہ مفسرین نے اس واقعے کو نقل نہیں کیا ہے اور اہل سنت مفسرین کے ساتھ ہمراہی کرتے ہوئے اس واقعے کو حضرت عایشہ سے مربوط قرار دئیے ہیں۔[16]

شیعہ معاصر محققین اور مؤلفین نیز ان آیات کے شأن نزول میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض ان آیات کو ماریہ قبطیہ پر لگائی گئی تہمت سے مربوط قرار دیتے ہیں۔[17] علامہ جعفر مرتضی عاملی من جملہ ان محققین میں سے ہیں جو اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض شواہد کو ذکر کرتے ہیں اور بعض تاریخی روایات کا اس شأن نزول کے ساتھ مطابقت ہونا ہے۔[18]
اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات

دوسری طرف سے بعض معاصر شیعہ محققین نے آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی رد کئے ہیں۔[19] ان کا کہنا ہے کہ اس احتمال پر سب سے اہم اشکال یہ ہے کہ اس واقعہ اور مذکورہ آیات کے مضامین کے آپس میں سازگاری نہیں ہے، وہ یہ کہ ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو ایک گروہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں جبکہ ماریہ قبطیہ کے واقعے میں تہمت لگانے والی صرف حضرت عایشہ کی ذات ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے صرف حضرت عایشہ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیق اور اس کے جرم کو شرعی قوانین کے مطابق ثابت کئے بغیر اس فرد کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ کام پیغمبر اکرمؐ سے محال ہے۔[20]
کتابیں اور مقالہ جات

اس واقعے کے بارے میں شیعہ اور سنی علماء نے مختلف کتابیں اور مقالہ جات لکھے ہیں جن میں سے بعض نے اس واقعے کو حضرت عایشہ کی فضیلت شمار کی ہیں تو دوسرے گروہ نے اس واقعے کو آپ سے مربوط ہونے سے انکار کئے ہیں:

    خبر الافک؛ علی بن محمد مدائنی (متوفی 225ھ)
    الرد علی اہل الافک؛ ابوسلیمان اصفہانی (متوفی 270ھ)
    حدیث الافک؛ ابن ہیثم دیر عاقولی (متوفی 278ھ)
    حدیث الافک؛ محمد بن عبداللہ بن عربی معافری (متوفی 543ھ)
    تنزیہ عائشۃ عن الفواحش العظیمۃ؛ عبدالجلیل قزوینی (متوفی بعد از 556ھ)
    حدیث الافک؛ عبدالغنی مقدسی (متوفی 600ھ)
    حدیث الافک؛ جعفر مرتضی عاملی
    حدیث الافک؛ ابراہیم بن حسین کسائی
    شرح حدیث الافک؛ عبداللہ بن سعد بن ابی جمرہ ازدی۔[21]

حوالہ جات

1-قرشی بنایی، قاموس قرآن، ج۱، ص۸۹۔
2-طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۸۹۔
3-مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۶۔
4-سورہ نور، آیات ۲۰ تا ۲۶۔
5-فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج۲۳، ص ۱۷۳؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج۵، ص۵۰۴۔
6-ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔
7-طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔
8-طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔
9-یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔
10-ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔
11-عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔
12-ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔
13-طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰۔
14-طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔
15-قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص ۹۹۔
16-حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۶۶-۱۶۷۔
17-یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج ۳، ص۳۵۰۔
18-عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۳۲۰، ۳۲۶۔
19-سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص ۶۶۶؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ص ۱۷۲۔
20-مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔
21-حسینیان مقدم، بررسی تاریخی- تفسیری حادثہ افک، ۱۳۸۴ش۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک