اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 35268
ڈاؤنلوڈ: 2825


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35268 / ڈاؤنلوڈ: 2825
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کے سپرد کر گیا ان دونوں ( ابوبکر و عمر) نے خلافت کے پستان کو بانٹ لیا ہے، خلافت سخت مزاج( انسان) کے ہاتھوں میں پہونچ گئی ہے. اب اس کا کلام غلیظ اس کے لمس میں کھر دراپن ہے. اس میں لغزشیں بے شمار اور عذر خواہی اس سے بھی زیادہ ہے.(1)

ہر محقق و جوئیندہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ رسول(ص) نے اپنی وفات سے قبل نص کے ذریعہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کو خلیفہ معین کیا تھا اس طرح اکثر صحابہ پر بھی یہ بات مخفی نہیں تھی خصوصا ابوبکر و عمر اس سے اچھی طرح واقف تھے.(2) اسی لئے حضرت علی(ع) نے فرمایا ہے کہ وہ ( ابوبکر) بخوبی جانتا ہے کہ خلافت میں میرا وہی مقام ہے جو چکی میں کیل کا ہوتا ہے. شاید ابوبکر و عمر نے اسی بنا پر لوگوں کو نبی(ص) کی حدیث نقل کرنے سے منع کر دیا تھا جیسا کہ ہم گذشتہ فصل میں اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور قرآن سے تمسک کا اظہار کیا تھا کیونکہ قرآن میں صریح طور پر کہیں بھی علی(ع) کے نام کا تذکرہ نہیں ہوا ہے اگرچہ اس میں آیت ولایت موجود ہے لیکن نبی(ص) کی احادیث میں کھلے لفظوں میں علی(ع) کا نام آیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

"من‏ كنت‏ مولاه‏ فهذا على مولاه "

" جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں"

"على‏ منّى‏ بمنزلة هرون من موسى"

____________________

1.شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ جلد/1 ص84-87

2.سرالعالمین مصنف امام غزالی

۶۱

"علی(ع) میرے لئے ایسے ہی ہیں جیسے موسی کے لئے ہارون تھے"

" عليّ‏ أخي‏ و وصيّي و خليفتي من بعدي "

"میرے بعد علی میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ہیں"

"علي‏ مني‏ و أنا منه‏ و هو ولي كل مؤمن بعدي."

"علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں وہ میرے بعد ہر ایک مومن کے ولی ہیں"(1)

اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ابوبکر و عمر اپنے اس منصوبہ میں یعنی احادیث نبی(ص) کے نقل کرنے اور انہیں جلانے میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ حدیثیں زبانوں سے باہر بھی نہ نکل پائیں صحابہ بیان نہ کرسکے جیسا کہ ہم قرظہ ابن کعب کی روایت میں بیان کر چکے ہیں اور حصار بندی کا سلسلہ ایک چوتھائی صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ جب حضرت علی علیہ السلام مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو صحابہ کو رحبہ کے میدان میں جمع کیا اور ان سے حدیث غدیر کے متعلق دریافت کیا تو تیس30 صحابہ نے اٹھ کر اس کا اقرار کیا ان اقرار کرنے والوں میں سے سولہ16 بدری صحابی تھے.(2)

یہ چیزیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ تیس 30 صحابہ اگر حضرت علی(ع) نہ فرماتے تو اس حدیث کو بیان نہ کرتے پس اگر علی(ع) خلیفہ نہ ہوتے اور ان کے پاس

____________________

1.ان تمام حدیثوں کو بالترتیب طبری نے ریاض النضرہ میں نسائی نے خصائص میں احمد ابن حنبل نے نقل کیا ہے.

2.مسند احمد ابن حنبل جلد/1 ص119، ابن عساکر جلد/2 ص7

۶۲

قوت نہ ہوتی تو وہ صحابہ خوف کے مارے خاموش بیٹھے رہتے جیسا کہ اس وقت بھی بعض صحابہ یا تو حسد یا خوف کی وجہ سے خاموش بیٹھے رہے مثلا انس ابن مالک برا ابن عازب اور زید ابن ارقم، جریر ابن عبداللہ بجلی.(1) کہ انہیں حضرت علی(ع) کی بد دعا لگی.

حضرت علی(ع) کو خلافت سے کوئی فائدہ نہیں پہونچا، آپ کی خلافت کا پورا زمانہ نشیب و فراز، فتنہ و فساد، سازش و جنگ میں گذرا آپ کے خلافت بدر و حنین اور خیبر کینہ توزی و دشمنی پھوٹ پڑی یہاں تک کہ آپ نے شہادت پائی. ناکثین، قاسطین اور مارقین میں ان حدیثوں کو سننے والا تلاش نہیں کرسکتے وہ لوگ تو عثمان کے زمانہ ہی سے فتنہ و فساد اور رشوت سے الفت اور دینا سے محبت رکھتے تھے ابن ابی طالب(ع) ایک چوتھائی صدی سے چلے آنے والے فساد و انحراف کی اصلاح نہیں کرسکتے تھے ہاں کرسکتے تھے لیکن فساد ہی کے ذریعہ اور علی(ع) ایسا کبھی نہیں کرسکتے تھے آپ خود فرماتے ہیں: قسم خدا کی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری اصلاح کس چیز سے ہوسکتی ہے لیکن میں اپنے نفس کو برباد کر کے تمہاری اصلاح نہیں کروں گا.

ابھی تھوڑی ہی زمانہ گزرا تھا کہ تخت خلافت پر معاویہ متمکن ہوا اور احادیث کی نشر و اشاعت پر پابندی کا سلسلہ پہلی روش سے متصل ہوگیا. چنانچہ معاویہ نے نقل حدیث کے سلسلہ میں کہا کہ وہی حدیثیں نقل کی جائیں جو عمر کے زمانہ میں بیان ہوتی تھیں. اب تو حالت اور بدتر ہوگئی اور صحابہ و تابعین کو احادیث گڑھنے کے لئے بٹھا دیا گیا اور سنت رسول(ص) جھوٹ و

____________________

1.انساب الاشراف جلد/2 ص156، المعارف لابن قتیبہ ص194

۶۳

واہیات میں گم ہوگئی.اسی حالت میں مسلمانوں پر ایک صدی گذر گئی اور عامہ میں سنت معاویہ کا اتباع ہونے لگا. واضح رہے کہ ہمارے" قول سنت معاویہ" کے معنی یہ ہیں کہ خلفائے ثلاثہ ابوبکر، عمر، عثمان، کے وہ اقوال و افعال جو معاویہ کے پسندیدہ تھے اور خود معاویہ اور اس کے کارندوں کا کردار بھی اس میں شامل ہے ان کی سنت کی ایک مثال علی(ع)، اہلبیت(ع) اور شیعوں پر ان کا سب و شتم کرنا ہے.

اس کے لئے میں پھر اپنے موضوع کی طرف پلٹتا ہوں اور اس کی تکرار کرتا ہوں کہ ابوبکر و عمر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور قرآن سے رجوع کرنے کا ڈھونگ رچا کر سنت نبی(ص) کو مٹا ڈالا چنانچہ آپ آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ملاحظہ کریں گے اور جب آپ ان پر نبی(ص) کی متواتر حدیثوں سے حجت قائم کریں گے، یعنی وہ حدیثیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو خلیفہ معین کیا ہے تو وہ کہیں گے کہ حدیث نبی(ص) کو چھوڑئے اس میں تو اختلاف ہے ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے اور اس (کتاب خدا) میں یہ تذکرہ نہیں ہے کہ علی(ع) نبی(ص) کے خلیفہ ہیں بلکہ قرآن تو اس معاملہ کو شوری کے سپرد کرتا ہے.

یہ ہے ان کی دلیل جب بھی میں نے اہلسنت کے کسی عالم سے گفتگو کی ہے تو انہوں نے شوری ہی کے گیت گائے ہیں. اس بات سے قطع نظر کہ ابوبکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے ہوگئی تھی اور خدا ہی نے مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھا.(1) وہ بھی تو بغیر کسی مشورہ کے ہوئی تھی بلکہ غفلت و نادانی، زبردستی اور دھمکیوں کے نتیجہ میں ہوئی تھی.(2)

____________________

1.بخاری جلد/8 ص26 کتاب المحاربین

2.الامامت والسیاست ابن قتیبہ استخلاف ابی بکر

۶۴

اور بہت سے نیکو کار صحابہ نے اس(بیعت) سے اعراض و تخلف کیا تھا خصوصا ان صحابہ کے سید و سردار علی ابن ابی طالب(ع) اور سعد ابن عبادہ عمار، سلمان، مقداد اور زبیر و عباس وغیرہ نے بیعت نہیں کی تھی جیسا کہ معتبر مورخین نے تحریر کیا ہے فی الحال ہم اس سے قطع نظر کرتے ہیں اور ابوبکر اپنے بعد عمر کو خلیفہ بناتے ہیں ان کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور شوری کے شیدائی اہلسنت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ابوبکر نے یہ معاملہ شوری کے سپرد کیوں نہیں کیا اور عمر کو اپنے بعد خلیفہ کیوں بنایا اور مسلمانوں پر کیوں مسلط کیا؟

اس سلسلہ میں بھی ہم اپنی عادت کے مطابق اور مزید وضاحت کے لئے اہلسنت کی کتابوں ہی سے قارئین کے سامنے استدلال پیش کریں گے اور یہ بھی بیان کریں گے کہ ابوبکر نے اپنے دوست کو کیسے خلیفہ بنایا ہے.

ابن قتیبہ تاریخ الخلفا کے باب مرض ابی بکر و استخلافہ عمر رضی اللہ عنہما میں تحریر فرماتے ہیں کہ... پھر عثمان کو بلایا اور کہا کہ میرا وصیت نامہ لکھو : عثمان نے لکھا:

بسم الل ه الرحمن الرحیم

یہ ابوبکر ابن قحافہ کا وصیت نامہ ہے جو انہوں نے مرتے دم اور آخرت کی طرف بڑھتے وقت تحریر کیا ہے. میں نے عمر ابن خطاب کو تم لوگوں کا خلیفہ مقرر کر دیا ہے پس اگر تم اپنے درمیان اسے عدل کرتے ہوئے دیکھو تو یہی اس کے متعلق میرا گمان اور امید ہے اور اگر تغیر و تبدل کرتے ہوئے پائو تو میں نے اپنے لحاظ سے بہتر ہی سوچا تھا. غیب کا علم مجھے نہیں ہے.( و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون )

۶۵

اس کے بعد وصیت نامہ ختم ہوگیا اور انہیں (عمر کو) دیا گیا مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی کہ ابوبکر نے عمر کو خلیفہ بنا دیا تو وہ ابوبکر کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم نے سنا ہے کہ آپ نے عمر کو ہمارے اوپر حاکم بنا دیا ہے جب کہ آپ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ آپ کی موجودگی میں ہمارے ساتھ کس طرح پیش آئے تھے تو جب دنیا سے چلے جائیں گے اس وقت کیا ہوگا؟ جب آپ بار گاہ خدا میں پہونچیں گے تو ضرور آپ سے سوال ہوگا اس وقت آپ کیا جواب دیں گے؟ ابوبکر نے کہا: اگر خدا نے مجھ سے سوال کیا تو میں جواب دوں گا کہ میں نے ان میں سے بہترین انسان کو خلیفہ بنایا ہے.(1)

طبری اور ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے عثمان کو وصیت نامہ لکھنے کے لئے بلایا اور انہوں نے لکھنا شروع کیا تو املا کے درمیان ابوبکر پر غشی طاری ہوگئی اور عثمان نے عمر ابن خطاب کا نام لکھ دیا. جب غشی سے افاقہ ہوا تو ابوبکر نے کہا کہ ذرا اپنی تحریر پڑھو! عثمان نے اسے پڑھا تو اس میں عمر کا نام تھا. ابوبکر نے کہا: یہ تم نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے؟ عثمان نے کہا : کیا آپ کا یہ ارادہ نہیں تھا ابوبکر نے کہا تمہارا خیال صحیح ہے.

جب وصیت نامہ لکھا جاچکا تو کچھ لوگ ابوبکر کے پاس پہونچے ان میں طلحہ بھی شامل تھے انہوں نے کہا آپ اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے جبکہ آپ نے سخت مزاج انسان کو ہمارا حاکم بنا دیا ہے کہ جس سے لوگ بھاگتے اور دل دہلتے ہیں.

____________________

1-تاریخ الخلفاء المعروف بالامامت والسیاست جلد/1 ص24

۶۶

ابوبکر نے کہا: مجھے ذرا(سہارا دے کر) بٹھائو حالانکہ وہ لیٹے ہوئے تھے. لوگوں نے بٹھایا تو انہوں نے طلحہ سے کہا: کیا تم کل کےلئے مجھے ڈراتے ہو کہ جب خدا مجھ سے سوال کرے گا کہ تم نے کس کو خلیفہ بنایا تو میں کہوں گا تیرے بہترین بندہ کو.(1)

اور جب تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابوبکر نے عمر کو صحابہ کے مشورہ کے بغیر خلیفہ بنادیا تھا تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ کوذیلل کرنے کے لئے عمر کو خلیفہ بنایا تھا. کیونکہ صحابہ عمر کو پسند نہیں کرتے تھے. خواہ ابن قتیبہ کے اس قول کو مدنظر رکھا جائے کہ: انصار و مہاجرین ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ہمیں آپ اس سے بچاتے تھے، یا طبری کے نظریہ کو تسلیم کیا جائے کہ جو لکھتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگ کہ جن میں طلحہ بھی تھے ابوبکر کے پاس گئے اور کہا: آپ اپنے پرورگار کا کیا جواب دیں گے جبکہ آپ نے ہمارے اوپر سخت مزاج انسان کو حاکم بنا دیا ہے کہ جس سے سانس پھولتی اور دل دہلتے ہیں. دونوں عبارتوں کو نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خلافت کا معاملہ شوری پر نہیں چھوڑا گیا اور صحابہ عمر کے خلیفہ بننے سے راضی نہ تھے. بلکہ ابوبکر نے بغیر مشورہ کے عمر کو ان پر مسلط کر دیا تھا یہ وہی نتیجہ ہے جس کو علی(ع) نے اس وقت بیان کیا تھا جب عمر و ابوبکر لوگوں پر بیعت کے لئے تشدد کر رہے تھے. علی(ع) نے عمر سے فرمایا تھا: اچھی طرح سے دودھ لو تمہارا بھی حصہ ہے آج تم ان کی خلافت مستحکم کر دو کل وہ تمہیں ہی لوٹا دے گا.

اور یہی وہ جملہ ہے جو کسی صحابی نے عمر سے اس وقت کہا تھا

____________________

1.شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، خطبہ شقشقیہ

۶۷

جب وہ و صیت نامہ لے کر آئے تھے. جس میں ان کی خلافت کی وصیت مرقوم تھی صحابی نے دریافت کیا اے ابو حفص اس رقعہ میں کیا لکھا ہے؟ عمر نے کہا یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے لیکن سب سے پہلے میں نے اس کو سنا اور اطاعت کی. اس شخص نے کہا: قسم خدا کی مجھے معلوم ہے اس میں کیا مرقوم ہے. پہلے تم نے ان کی خلافت مستحکم کی تھی آج وہ تمہیں خلیفہ بنا گئے.(1)

اسی سے بخوبی ہم پر یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ جس شوری کا اہل سنت ڈھنڈورا پیٹا کرتے ہیں ابوبکر وعمر کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت نہ تھی یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ سب سے پہلے ابوبکر نے شوری کو لغو قرار دیا اور بنی امیہ کے حکام کے لئے خلافت کو بادشاہت و قیصریت میں تبدیل کر کے باپ سے بیٹے کو میراث میں دلانے کا دروازہ کھول دیا اور بنی امیہ کے بعد بنی عباس نے یہی کہا: اور اہلسنت کا شوری والا نظریہ لا جواب ہی رہ گیا کہ جس پر نہ ماضی میں عمل ہوا ہے اور نہ کبھی ہوسکے گا.

یہاں مجھے وہ گفتگو یا آگئی جو نیروبی ( کینیا) کی مسجد میں سعودیہ کے وہابی عالم سے مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں ہوئی تھی میں نص سے خلافت کو ثابت کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خلافت کا کل نظام خدا کے ہاتھ ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اس میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں ہے.

جب کہ وہ خلافت کو شوری کی مرہون منت قرار دے رہے تھے اور بے کار دفاع کر رہے تھے. چاروں طرف سے اس کے شاگرد اس کی تائید کر رہے تھے وہ بھی دعوے کے ساتھ کہ استاد قرآن سے استدلال کر رہے ہیں اس کی

____________________

1.الامامت والسیاست، مصنفہ ابن قتیبہ، جلد1، باب استخلاف ابی بکر لعمر

۶۸

ہر ایک بات کی تائید کر رہےتھے اس نے یہ آیتیں( وَ شاوِرْهُمْ‏ فِي‏ الْأَمْرِ ) ( وَ أَمْرُهُمْ شُورى‏ بَيْنَهُمْ‏ ) بھی پیش کی تھیں.

جب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس طرح تو میں مغلوب ہ جائوں گا کیونکہ وہ ( طلبہ) استاد سے وہابیت کے افکار و عقائد کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح میں یہ بھی سمجھ گیا کہ وہ صحیح احادیث کو نہیں سن سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسی احادیث کے گرویدہ ہوچکے تھے جن میں اکثر احادیث گڑھی ہوئی تھیں لہذا میں نے اس وقت کرہا شوری کو تسلیم کرتے ہوئے طلبا اور ان کے استاد سے کہا:

کیا تم اپنے ملک کے بادشاہ کو اس بات سے مطمئن کرسکتے ہو کہ وہ اپنی کرسی سے اتر آئے اور تمہارے سلف صالح کی اقتدا کرے اور جزیرہ عرب کو مسلمانوں کےلئے آزاد چھوڑ دے تا کہ وہ جس کو چاہیں اپنا صدر منتخب کرلیں میں نہیں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا کرےگا کیونکہ اس کے آباء و اجداد خلافت کے مالک نہیں تھے. لیکن جب وہ بادشاہ بن بیٹھے تو آج وہ جزیرہ عرب کے خطہ حجاز کے بھی مالک بن گئے. یہاں تک کہ پورے علاقہ کو المملکہ السعودیہ کہنے لگے.

اب اس کے سردارعالم کو مجبورا کہنا پڑا کہ ہمیں سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے. ہم خدا کے گھر میں ہیں کہ جس میں اس نے اپنے ذکر اور نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے.

میں نے کہا: اسی طرح طلب علم بھی ہے، اس نے کہا: جی ہاں: ایسا ہی ہے ہم یہاں جوانوں کو تعلیم دیتے ہیں، میں نے کہا: ہم بھی علمی بحث کررہے ہیں. اس نے کہا: آپ نے اسے سیاست سے فاسد کر دیا.

میں اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں سے ان مسلمان نوجوانوں پر افسوس کرتا ہوا نکل آیا کہ جن کے دلوں پر ہر طرح سے وہابیت کے عقائد کی چھاپ

۶۹

بٹھائی جارہی تھی. جب کہ وہ سب شافعی کے مقلد تھے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مذہب مذہب اہلبیت(ع) سے بہت قریب ہے.

وہاں کے بزرگوں کا ان ذہین و تہذیب یافتہ اور غیر تہذیب یافتہ جوانوں میں اس اعتبار سے بہت احترام تھا کہ ان کا تعلق سادات سے تھا. پس وہابیوں نے پہلے جوانوں پر ہاتھ ڈالا اور ان کے لئے مادی امکانات فراہم کئے غلہ دیا اور مالی تعاون کیا تو سادات کے بارے میں ان کے نظریات ہی بدل گئے اور وہ سادات کے احترام کو شرک سمجھنے لگے. افسوس ہے کہ افریقہ کے بیشتر ممالک ہیں ایسا ہی ہو رہا ہے.

اب ہم دوبارہ ابوبکر کی وفات کا تذکرہ شروع کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ابوبکر مرنے سے پہلے اپنے کئے پر پشیمان تھے. ابن قتیبہ نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں تحریر کیا ہے کہ ابوبکر کا قول ہے کہ قسم خدا کی مجھے اپنے انجام دئے ہوئے تین کاموں پر سب سے زیادہ افسوس ہے کاش میں نے انہیں نہ کیا ہوتا. کاش میں علی(ع) کے گھر کو چھوڑ دیتا، ایک روایت میں ہے کہ کاش میں نے خانہ فاطمہ(ع) کی کسی چیز کا انکشاف نہ کیا ہوتا خواہ وہ مجھ سے جنگ ہی کا اعلان کرتے، کاش میں سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوعبیدہ یا عمر کے ہاتھوں پر بیعت کر لیتا. وہ امیر ہوتے اور میں ان کا وزیر قرار پاتا، کاش جب میرے پاس ذی الفجاة کے اسیر لائے گئے تھے کاش میں انہیں قتل کر دیتا یا آزاد کر دیتا. لیکن انہیں آگ میں نہ جلاتا.(1)

میں اضافہ کرتا ہوں کہ کاش اے ابوبکر آپ فاطمہ زہرا(ع) پر

____________________

1.تاریخ طبری جلد/4 ص52، العقد الفرید جلد/2 ص254 مروج الذہب جلد/1 ص414

۷۰

ظلم نہ کرتے اور انہیں ایذا نہ دیتے، انہیں غضبناک نہ کرتے، کاش آپ ان( فاطمہ زہرا(ع)) کی موت سے پہلے پشیمان ہو جاتے. اور انہیں راضی کر لیتے، یہ تو خانہ علی(ع)سے مخصوص تھا کہ جس کو آپ نے جلانے کئے مباح کر دیا تھا.

لیکن خلافت، کاش آپ اپنے دوست اور داہنے ہاتھ، ابوعبیدہ و عمر کو چھوڑ کر خلافت اس کے شرعی حقدار کے سپرد کر دیتے کہ جس کو رسالتماب(ص) نے خلیفہ منتخب کیا تھا پس جب امارت ان کے ہاتھوں میں ہوتی تو آج دنیا کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا اور دین خدا پورا کرہ ارض پر چھا گیا ہوتا جیسا کہ خداوند عالم نے وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ حق ہے.

اور فجاة السلمی کہ جس کو آگ میں جلا دیا تھا، اے کاش آپ نے احادیث نبوی کو نہ جلایا ہوتا. اور ان سے شریعت کے صحیح احکام حاصل کئے ہوتے اور اجتہاد بالرائے پرعمل نہ کیا ہوتا.

اے کاش آخری وقت میں جب آپ بستر مرگ پر دراز تھے اس وقت خلیفہ بنانے کے بارے میں سوچا ہوتا کہ جس سے حق اپنے اصلی محور پر لوٹ آتا کہ خلافت میں جس کی وہی حیثیت ہے جو چکی میں کیل کی ہوتی ہے. آپ تو تمام لوگوں سے زیادہ ان کے فضائل و کمالات، زہد و علم، اور تقوی کو جانتے تھے وہ تو بالکل نبی(ص) کی طرح میں خصوصا انہوں نے اسلام کی حفاظت کے لئے آپ سے کبھی مقابلہ نہ کیا اور معاملہ آپ ہی پر چھوڑ دیا بہتر تھا آپ امت محمد(ص) کو نصیحت کرتے اور اس کے شایان شان خلیفہ معین کرتے اسے پرگندگی سے بچا لیتے، اور عظمت کی چوٹی پر پہونچا دیتے.

ہم خدا سے آپ کی مغفرت کے لئے دعا کریں گے کہ وہ آپ کے گناہ بخش دے اور فاطمہ(ع) اور ان کے والد، ان کے شوہر اور ان کے

۷۱

بیٹے آپ سے راضی ہوجائیں، کیونکہ آپ نے محمد مصطفی(ص) کی لخت جگر کو غضبناک کیا کہ جس کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے، جس کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے. جیسا کہ حدیث کی نص موجود ہے کہ جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے ان کے پدر بزرگوار کو اذیت دی اور خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ الَّذِينَ يُؤْذُونَ‏ رَسُولَ‏ اللَّهِ‏ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ‏ )

جو لوگ رسول(ص) کو اذیت دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے.

خدا کے کسی پر غضبناک ہونے سے ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور اس بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ ہم سے اور تمام مسلمانوں اور مومنین و مومنات سے راضی ہو جائے.

عمر اپنے اجتہاد سے قرآن کی مخالفت کرتے ہیں

خلیفہ ثانی عمر کے لئے تاریخ بھری پڑی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی صریح نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا کرتے تھے.

اور اہلسنت ان کی اس حرکت کو ان کے مناقب میں شمار کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں مدح سرائی کرتے ہیں اور جب ان سے انصاف کا تقاضا کیا جاتا ہے تو عذر تراشی کرتے ہیں اور ایسی واہیات قسم کی تاویلات پیش کرنے لگتے ہیں کہ جنہیں عقل تسلیم کرتی ہے نہ منطق اور پھر کتاب خدا اور سنت نبی(ص) کی مخالفت کرنے والا کیونکر مجتہد ہوسکتا ہے.

جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

۷۲

( وَ ما كانَ‏ لِمُؤْمِنٍ‏ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً ) سورہ احزاب، آیت/26

اورکسی مومن مرد یا عورت کو ا ختیار نہیں ہے کہ جب کہ خدا و رسول(ص) کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول(ص) کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا.نیز ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَنْ‏ لَمْ‏ يَحْكُمْ‏ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ‏، وَ مَنْ‏ لَمْ‏ يَحْكُمْ‏ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‏، ...وَ مَنْ‏ لَمْ‏ يَحْكُمْ‏ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ‏.. ) سورہ مائدہ، آیت/47

اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں... جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ ظالموں میں شمار ہوگا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ فاسقون میں شمار ہوگا.

بخاری نے اپنی صحیح کیکتاب الاعتتصام بالکتاب والسنة کے باب" ما یذکر من ذم الرای و تکلیف القیاس ولا تقف و لا تقل مالیس لک به علم" میں تحریر کیا ہے کہ: نبی(ص) نے فرمایا کہ خدا علم عطا کرنے کے بعد واپس نہیں لیتا ہے بلکہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لیتا ہے اور لوگ جہالت میں رہ جاتے

۷۳

ہیں (پھر) ان جاہلوں سے لوگ استفادہ کرتے ہیں اور وہ اپنی رائے و قیاس سے فتوی دیتے ہیں پس وہ گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں.(1) نیز بخاری نے اسی کتاب کے ملحقہ باب میں تحریر کیا ہے کہ جب نبی(ص) سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا کہ جس کے بارے میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو آپ(ص) فرماتے : میں نہیں جانتا وحی نازل ہونے تک جواب نہیں دیتے تھے اور اپنی رائے و قیاس سے کچھ بھی نہیں فرماتے تھے خداوند عالم کا ارشاد ہے: بما اراک اللہ"(1) جیسا خدا چاہتا ہے فیصلہ کریں.

گذشتہ اور موجودہ زمانہ کے علماء کا ایک ہی قول ہے اور وہ یہ کہ جس نے کتاب خدا کے بارے میں اپنی رائے اور قیاس سے کچھ کہا اس نے کفر کیا اور یہ بات آیات محکمات اور رسول(ص) کے اقوال و افعال سے آشکار ہے.

لیکن یہ قاعدہ اس وقت کیسے بھلا دیا جاتا ہے جب اس کی زد میں عمر ابن خطاب یا صحابی یا ائمہ اربعہ میں سے کوئی آجاتا ہے اس وقت احکام خدا کے معارض قول کو اجتہاد بنا دیا جاتا ہے. کہ مجتہد نے اگر حقیقت تک رسائی حاصل کر لی اسے دو اجر اور اگر خطا سرزد ہوئی تو اسے ایک اجر لازمی ملے گا.کسی کو بھی یہ بات کہنے کا حق نہیں پہونچتا ہے کہ : اس پر پوری امت اسلام شیعہ، سنی کا اتفاق ہے اور یہ بات حدیث نبی(ص) سے ثابت ہے.

میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے لیکن اجتہاد کے موضوع میں اختلاف ہے. شیعہ اس اجتہاد کو قبول کرتے ہیں جس کے بارے میں خدا یا رسول(ص) کا کوئی حکم وارد نہ ہوا ہو. لیکن اہلسنت اس کی رعایت نہیں کرتے اور خلف، سلف

____________________

1.صحیح بخاری جلد/5 ص148

۷۴

صالح کی اقتدا کرتے ہوئے نص کے مقابلہ میں اجتہاد کو غلط نہیں سمجھتے. علامہ سید شرف الدین موسوی نے اپنی کتاب" النص و الاجتهاد" میں سو100 سے زیادہ ایسے موارد شمار کرائے ہیں جہاں صحابہ اور ان کے راس و رئیس خلفائے ثلاثہ نے قرآن و سنت کی صریح نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا محققین اس کتاب کا مطالعہ ضرور فرمائیں.

اس موضوع کے سلسلہ میں ان چند نصوص کو پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں جن کو عمر نے مخالفت کی ہے یا اس لئے کہ وہ نصوص سے بے خبر تھے حالانکہ یہ بات باعث تعجب ہے کیونکہ جاہل کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا حکم دے خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ لا تَقُولُوا لِما تَصِفُ‏ أَلْسِنَتُكُمُ‏ الْكَذِبَ هذا حَلالٌ وَ هذا حَرامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ ) نحل، آیت/116

اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اس کی بنا پر نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر بہتان باندھنے والے ہوجائو گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے اور نہ ہی جاہل کے لئے یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ امت میں انسان کامل کے ہوتے ہوئے امت کی قیادت کے لئے منصب خلافت پر متمکن ہو جائے چنانچہ ارشاد ہے:

( أَفَمَن‏ يَهْدِي‏ إِلَى‏ الْحَقّ‏ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّايَهِدّى إِلَّآ أَن يُهْدَى‏ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ )

اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے تو آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے اور تم کیسے

۷۵

فیصلہ کر رہے ہو. سورہ یونس، آیت/35

لیکن وہ (عمر) نصوص سے بے خبر نہیں تھے بلکہ جانتے تھے اور جان بوجھ کر اقتضائے وقت کے مطابق اجتہاد کرتے تھے اور اسے کفر اور اسلام سے خارج ہونا نہیں سمجھتے تھے. اور اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ (عمر) اپنے زمانہ کے اس شخص کے وجود سے بھی بے خبر ہوتے تھے جو صحیح احکام کا عالم تھا جب کہ یہ باطل ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کتاب و سنت کی معرفت رکھتے ہیں اگر نہ جانتے ہوتے تو بہت سے مشکلات میں ان کی طرف رجوع نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا" پس ان مسائل میں جن میں اپنی رائے سے اجتہاد کیا ہے علی(ع) سے کیوں رجوع نہیں کیا؟

میرا عقیدہ ہے کہ آزاد فکر مسلمان اس میں میری موافقت کریں گے کیونکہ اس قسم کا اجتہاد، عقیدہ و احکام کو برباد کر دیتا ہ ے اور علمائے امت کے درمیان افتراق اور متعدد مذاہب میں تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے اور یہیں سے عداوت و نزاع کی ابتدا ہوتی ہے اور رعب و دبدبہ جاتا رہتا ہے، ہوا اکھڑ جاتی ہے اور مادی و معنوی نقصان اٹھانا پڑتا ہے.ہمیں یہ سوچنے کا حق ہے کہ ابوبکر و عمر نے منصب خلافت پر زبردستی قبضہ جمالیا تھا اور اس کے شرعی حقدار کو محروم کردیا تھا، ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ابوبکر وعمر دونوں احادیث کو جمع کرتے اور انہیں خاص کتاب میں لکھتے تو خود اپنے اور امت کے لئے ایک ذخیرہ کر لیتے اور احادیث میں غیر احادیث مخلوط نہ ہوتی اور ا یک عقیدہ ہوتا اور آج ہماری بات ہی دوسری ہوتی.

لیکن احادیث کو جمع کیا گیا اور نذر آتش کر دیا گیا اور اس کی تدوین و نقل پر پابندی لگائی گئی یہاں تک کہ آپس میں بیان کرنے کو بھی منع کیا گیا یہ بہت بڑی مصیبت اور عظیم بلا ہے." و لا حول‏ و لا قوّة إلّا باللّه العليّ العظيم"

آپ کے سامنے قرآن کی وہ بعض صریح نصوص پیش کی جاتی

۷۶

ہیں جن کے مقابلہ میں عمر ابن خطاب نے اجتہاد کیا ہے.

(1) قرآن کہتا ہے:

( وَ إِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَ إِنْ كُنْتُمْ مَرْضى‏ أَوْ عَلى‏ سَفَرٍ أَوْ جاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغائِطِ- أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً... )

اور اگر جنابت کی حالت میں ہوتو غسل کرو اور اگر مریض ہو یا سفر کے عالم میں ہو یا پیخانہ وغیرہ نکل آیا ہو، عورتوں کو باہم لمس کیا ہے اور پانی نہ ملے تو مٹی سے تیمم کر لو.

حدیث میں یہ بات مشہور ہے کہ رسول(ص) نے صحابہ کو عمر کے سامنے تیمم کا طریقہ سکھایا تھا.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التیمم کے باب " السعید الطیب وضو المسلم یکفیہ عن الماء" میں روایت کی ہے کہ عمران نے کہا کہ ایک مرتبہ ہم سفر میں نبی(ص) کے ہمراہ تھے. اور رات میں سفر کر رہے تھے رات کے آخری حصہ میں قافلہ آرام کرنے کی غرض سے رک گیا یہ آرام مسافر کے لئے بہت شیرین ہوتا ہے. سورج کی حرارت سے ہماری آنکھیں کھلیں تو سب سے پہلے فلاں شخص اٹھلا اس کے بعد فلاں جس کو لوگ ابو رجا کہتے ہیں راوی عوف کام بھول گیا چوتھے عمر ابن خطاب بیدار ہوئے تھے رسول(ص) کو بیدار نہیں کیا جاتا تھا بلکہ وہ خود پیدار ہوتے تھے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ نیند کی حالت میں ان پرکیا گزری جب عمر جاگے اور لوگوں کو سوتے دیکھا تو عمر چالاک تو تھے ہی فورا تکبیر کی صدا بلند کی ابھی تکبیر ختم نہیں ہوئی تھی کہ نبی(ص) بیدار ہوگئے تو لوگوں نے اپ بیتی آنحضرت(ص) کو سنائی. آپ(ص) نے فرمایا کوئی بات نہیں ہے آگے بڑھو! ابھی تھوڑی ہی دور

۷۷

چلے تھے کہ رسول(ص) ٹھہرے اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا. وضو کیا گیا آپ کی اقتدا کی میں نماز ادا کی گئی ایک شخص نے تمام لوگوں کے ساتھ نماز نہ پڑھی آپ(ص) نے اس سے فرمایا تم نے سب کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے کہا میں مجنب ہوگیا تھا اور پانی نہیں تھا. آپ(ص) نے فرمایا خاک تو ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے...(1)

لیکن عمر کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف کہتے ہیں کہ جس شخص کو پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے. ان کے اس نظریہ کو اکثر محدثین نے لکھا ہے مسلم کہتے ہیں کہ ایک شخص عمر کے پاس آیا اور کہا میں مجنب ہوگیا ہوں اور پانی نہیں ملا عمر نے کہا کہ نماز نہ پڑھو! عمار نے کہا اے امیرالمومنین کیا آپ کو وہ واقعہ یاد نہیں ہے جب میں اور آپ ایک سریہ میں مجنب ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہیں ملا تھا آپ نے تو نماز ہی نہیں پڑھی تھی لیکن میں زمین پر لوٹا اور نماز پڑھ لی پس نبی(ص) نے فرمایا: تمہارے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتے پھر انہیں پھونک دیتے اور پھر دونوں ہاتھوں سے چہرہ اور ہتھیلیوں (کی پشت) کا مسح کرتے( عمار کی یہ بات سن کر) عمر نے کہا اے عمار خدا سے ڈرو! عمار نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں یہ بات بیان نہ کروں.(2)

سبحان اللہ عمر نے کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت پر ہی اکتفا نہ کی بلکہ صحابہ کو اپنی رائے کے خلاف بولنے تک کو منع کر دیا اور عمار خلیفہ سے معذرت کرنے پر مجبور ہوگئے. اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص88

2.صحیح بخاری جلد/1 ص87

۷۸

یہ بات کسی سے بیان نہ کروں. عمر اس اجتہاد، اس معارضہ اور نصوص پر صحابہ کی گواہی کے باوجود اپنی رائے پر اٹل رہے اور مرتے دم تک نصوص سے مطمئن نہ ہوئے اور اپنے اجتہاد پر عمل کرتے رہے ان کے اس نظریہ نے بہت سے صحابہ کو متاثر کیا اس لئے وہ عمر کی رائے کو رسول(ص) کی رائے پر مقدم کرتے رہے مسلم نے شفیق سے روایت کی ہے میں عبداللہ اور ابوموسی کے پاس بیٹھا تھا. ابو موسی نے کہا: اے ابو عبدالرحمن اس مسئلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے کہ اگر ایک شخص مجنب ہو جائے اور اسے ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ عبداللہ نے کہا اگر ایک مہینے تک بھی پانی نہ ملے تو بھی تیمم نہیں کرے گا! ابو موسی نے کہا کہ پھر سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہے...( فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً ) عبداللہ نے کہا کہ اگرچہ اس آیت میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس وقت کے لئے جب پانی ٹھنڈا ہو اس وقت تیمم کرو. ابو موسی نے عبداللہ سے کہا: کیا تم نے عمار کا قول نہیں سنا ہے کہ مجھے رسول(ص) نے ایک کام کے لئے بھیجا اور میں مجنب ہوگیا اور پانی نہ مل سکا تو میں چوپائے کی طرح خاک میں لوٹا پھر آنحضرت(ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوکر یہ واقعہ بیان کیا. آپ(ص) نے فرمایا : تمہارے لئے اتنا کافی تھا کہ تم اس طرح ہاتھوں کو اٹھاتے پھر آپ(ص) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا اور اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی پشت کا مسح کیا.

عبداللہ نے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ عمر عمار کے قول سے مطمئن نہیں ہوئے تھے.(1) جب ہم بخاری و مسلم کی اس روایت میں غور کرتے ہیں تو اس سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ عمر کے نظریہ نے کس مقدار میں بہت سے صحابہ کو متاثر کیا ہے اور اسی سے احکام کا تناقض بھی واضح ہو

۷۹

جاتا ہے اور روایت کا ضعف و تضاد بھی آشکار ہو جائے گا. شاید یہی چیز امویوں اور عباسیوں کے حکام کا اسلامی احکام کو خفیف جاننے کی تفسیر کرتی ہے. اور اس کا کوئی بھرم نہیں رہ جاتا اسی لئے وہ ایک حکم متعدد متعارض مذاہب ہم آواز ہوگئے ہیں اگرچہ وہ بظاہر حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی ہیں: اب جو تم چاہو اپنی رائے سے کہو کیونکہ تمہارے سید و سردار عمر بھی اپنی رائے سے قرآن و سنت کے مقابلہ میں جو چاہتے تھے کہدیتے تھے. تمہیں کوئی برا نہیں کہہ سکتا ہے کیونکہ تم اتباع کرنے والے ہو ایجاد کرنے والے نہیں.(1)

ان سب سے تعجب خیز تو عبداللہ ابن مسعود کا یہ قول ہے کہ اگر ایک مہینے تک بھی پانی دستیاب نہ ہو تب بھی ( مسلمان) تیمم نہیں کرے گا. جب عبداللہ ابن مسعود ایسا بزرگ صحابی یہ کہتا ہے کہ جب مجنب کو پانی نہ ملے تو ایک مہینے تک نماز چھوڑ دے لیکن تیمم نہ کرے اور وہ ( عبداللہ) ابو موسی کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سورہ مائدہ کی آیت خاص موضوع کے لئے نازل ہوئی ہے چنانچہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اس آیت میں تیمم کی اجازت دی بھی گئی ہے تو اس وقت کے لئے جب پانی ٹھنڈا ہو.

اور یہیں سے ہماری سمجھ میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ وہ حسب منشاء قرآن کی نصوص کے مقابلہ میں کس طرح اجتہاد کرتے تھے افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ امت کے تنگی اور حرج کو نہیں دیکھتے تھے جب کہ خداوتد عالم کا ارشاد ہے:

( يُرِيدُ اللَّهُ‏ بِكُمُ‏ الْيُسْرَ وَ لا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ )

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص91" کتاب التیمم صریہ"

۸۰