اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32870
ڈاؤنلوڈ: 3233


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32870 / ڈاؤنلوڈ: 3233
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جیسے قوت قہر سے منصب خلافت پر قابض ہو جانا اور جوان کے آڑے آیا مختلف ذریعوں سے اس کا صفایا کر دینا. جیسے کھانے وغیرہ میں زہر ملانا.(1) پھانسی پر چڑھانا. جیسے یزید کا اپنے کا اپنے لشکر کے لئے مدینہ رسول(ص) کو مباح کر دینا کہ وہ جو چاہے کرے. با وجودیکہ رسول(ص) کا یہ قول ہے کہ" مدینہ میرا حرم ہے جو اس میں کوئی غلط کام کرے گا اس پر خدا ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے."

اور جیسے کہ ان کا ذلیل طمع اور فانی دنیا کے لئے امیر المومنین سید الوصیین، عترت طاہرہ کے راس و رئیس علی(ع) " کہ جن کو رسول(ص) سے وہی نسبت تھی جو ہارون کو موسی سے تھی" سے جمل و صفین اور نہروان میں جنگ کرنا.

جیسا کہ انہوں نے سیدا شباب اہل الجنہ امام حسن(ع) کو زہر سے اور امام حسین(ع) کو (تلوار) سے قتل کرنا اور علی ابن الحسین(ع) کے علاوہ پوری عترت رسول(ص) کو میدان کربلا میں تہہ تیغ کرنا ان اور بہت سے ایسے افعال ہیں جو انسانیت کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا ہے. جنہیں رقم کرنے سے میرا قلم عاجز ہے. ان میں سے زیادہ تر باتوں کو اہل سنت و الجماعت جانتے ہیں اسی لئے وہ مسلمانوں کو تاریخ پڑھنے اور حیات صحابہ کی تحقیق کرنے سے منع کرتے ہیں.

____________________

1.مورخین کا بیان ہے کہ معاویہ اپنے مخالف کو مارتا تھا اور اس کو زہر آمیختہ شہد کھلاتا تھا تو وہ اس کے دربار سے واپس آتے آتے مرجاتا تھا.

۲۶۱

اور آج جو ہلاکت خیز جرائم کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے وہ سب بلا شک و شبہہ صحابہ کے افعال ہیں ان کے مطالعہ کے بعد ایک عاقل کے لئے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ صحابہ کو بری سمجھے اور ان کی عدالت کا قائل ہو جائے اور ان پر طعن و تشنیع نہ کرے. ایسا تو وہی کرے گا جس کی عقل زائل ہوچکی ہے.

خصوصا ہم بعض صحابہ کی عدالت اور ان کی پاکیزگی و تقوے کے بارے میں سنتے ہیں اور خدا و رسول(ص) سے جو انہیں محبت وہ بھی معلوم ہے وہ زمانہ رسول(ص) میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ان کی مدت حیات پوری ہوگئی اور انہوں نے کوئی رد و بدل نہیں کی پس خدا ان سے راضی ہوگیا اور انہیں اپنے حبیب محمد(ص) کے جوار میں جگہ دی.

وہ اس سے بری اور اعلی ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ کہا جائے یا کوئی بہتان لگانے والا ان پر بہتان لگائے خداوند عالم نے اپنی کتاب میں مختلف موقعوں پر ان کی مدح فرمائی ہے جیسا کہ خدا نے بارہا نبی(ص) سے ان لوگوں کی محبت و خلوص کی تعریف کی ہے اور تاریخ نے ان ہی واقعات کو ثبت کیا ہے جو شرافت سے لبریز، خوف خدا اور شجاعت و تقوی سے مملو ہیں. پس وہ خوش نصیب ہیں ان کے لئے جنت عدن کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور شکر کرنے والوں کے لئے خدا کی رضا سب سے بڑا اجر ہے. لیکن یاد رہے شکر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے!

لیکن جو اشخاص مصلحت کے تحت مسلمان بن گئے تھے اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا وہ برضا و رغبت رسول(ص) کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اپنی غرض کے تحت رسول(ص) کے ساتھ لگ گئے تو قرآن نے ان کی سرزنش کی ہے اور رسول(ص) ان سے اور وہ رسول(ص) سے بچتے رہے. آپ نے متعدد موقعوں پر

۲۶۲

ان لوگوں پر لعنت کی، تاریخ نے ان کے اعمال شنیعہ محفوظ کئے ہیں... یہ کسی احترام کے بھی لائق نہیں ہیں. چہ جائیکہ ہم ان سے خوش ہو جائیں اور ان کو انبیاء و شہداء اور صالحین کے برابر سمجھیں.

قسم میری جان کی یہی توقف حق ہے جو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور ان خطوط سے تجاوز نہیں کرتا جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے کھنیچے ہیں کہ وہ مومنین سے دوستی اور منافقین سے برات و دشمنی اختیار کریں. خداوند عالم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

( أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ‏ تَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ما هُمْ مِنْكُمْ وَ لا مِنْهُمْ وَ يَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذاباً شَدِيداً إِنَّهُمْ ساءَ ما كانُوا يَعْمَلُونَ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَما يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْكاذِبُونَ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ فَأَنْساهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ‏ إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ‏ اللَّهَ‏ وَ رَسُولَهُ‏ أُولئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ* كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ- يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كانُوا آباءَهُمْ أَوْ أَبْناءَهُمْ- أَوْ إِخْوانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولئِكَ كَتَبَ فِي

۲۶۳

قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ- وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ- أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ- أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‏) مجادلہ، آیت/14-22

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہوں نے اس قوم سے دوستی کر لی ہے جس پر خدا نے عذاب نازل کیا ہے کہ یہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے اور یہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور خود بھی اپنے جھوٹ سے با خبر ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ہے اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے، اللہ کے مقابلہ میں ان کا مال اور ان کی اولاد کوئی کام آنے والا نہیں ہے. یہ سب جہنمی ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں. جو خدا ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا اور یہ اس سے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی تم سے کھاتے ہیں اور ان کا خیال ہوگا کہ ان کے پاس کوئی بات ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹے ہیں، ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کر دیا ہے. آگاہ ہو جائو کہ یہ شیطان کا گروہ ہے. اور شیطان کا گروہ بہر حال خسارہ میں رہنے والا ہے. بیشک جو لوگ خدا و رسول(ص) سے دشمنی کرتے ہیں ان کا شمار ذلیل ترین لوگوں میں ہے. اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول(ص) غالب آنے والے ہیں. بیشک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے. آپ کبھی بھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ

۲۶۴

اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول(ص) سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا، اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں. اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ انہیں میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے. خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہو جائو کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے.

یہاں میں یہ بات ضرور سپرد قلم کروں گا کہ شیعہ ہی حق پر ہیں. کیونکہ وہ رسول(ص) اور ا ن کے اہل بیت(ع) سے اور ان ہی صحابہ سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے شعار اہل بیت(ع) کو اپنایا اور ان مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں جو قیامت تک طریق ائمہ کا اتباع کرتے رہیں گے شیعوں کے علاوہ اور سارے مسلمان تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ انہوں نے خدا و رسول(ص) کو ناراض کیا ہے. اور اپنی اس بات پر خدا کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں کہ:

( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونا بِالْإِيمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا، رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ .) سورہ حشر، آیت/10

پروردگارا ہمیں معاف کر دے اور ہمارے ان بھائیوں

۲۶۵

کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے. اور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کے لئے کسی قسم کا کینہ قرار نہ دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے. اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ وہ علی(ع) سے بھی راضی اور معاویہ سے بھی خوش، انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ معاویہ نے کیا کیا؟ کن جرائم کا مرتکب ہوا، کم سے کم معاویہ کو کفر گمراہ اور خدا و رسول(ص) سے جنگ کرنے والا کہا جا سکتا ہے یہ عجیب باتیں تو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں. جن کو دھرانے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے. کہ ایک صالح بندہ جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کی قبر کی زیارت کو گیا تو وہاں اس نے ایک شخص کو روتا ہوا پایا کہ جس کا گریہ بڑھتا ہی جا رہا تھا. اس نے سوچا کہ شاید یہ شیعہ ہے. اسی لئے اس سے معلوم کیا کہ تم کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا میں اپنے سید و سردار حجر ابن عدی رضی اللہ عنہ پر رو رہا ہوں. اس نے پوچھا؟ ان پر کیا گذری؟

کہا: ہمارے سید و سردار معاویہ نے انہیں قتل کر دیا تھا.

صالح آدمی نے کہا کہ انہیں معاویہ نے کیوں قتل کیا تھا؟

اس نے کہا: کہ حجر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کرنے سے انکار کر دیا تھا.

صالح انسان نے اس سے کہا: کہ میں اب تمہارے اوپر روتا ہوں تاکہ اللہ تم سے راضی ہو جائے.

یہ تمام صحابہ کی محبت کے سلسلہ میں اتنا اصرار اور ضد کیوں ہے کہ تنہا محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر درود نہیں بھیجتے بلکہ اس میں " واصحابہ اجمعین" کا اضافہ کر لیتے ہیں حالانکہ نہ قرآن نے انہیں اس کا حکم دیا ہے اور نہ رسول(ص) نے اس کا مطالبہ کیا ہے

۲۶۶

اور نہ ہی کسی صحابی نے اسے کہا ہے. بلکہ صلواة تو صرف محمد(ص) و آل محمد(ص) سے مخصوص ہے جیسا کہ قرآن میں(آیت) نازل ہوئی ہے اور جس کی تعلیم رسول(ص) نے صحابہ کو دی ہے اور اگر مجھے کسی چیز میں شک ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے. لیکن اس سلسلہ میں مجھے ہرگز شک نہیں ہوگا کہ خدا نے مومنین سے قرابتداروں کی محبت کا مطالبہ کیا ہے. اور قرابتدار صرف اہل بیت(ع) ہیں اور ان کی محبت کو مومنوں پر واجب قرار دیا ہے اور اسے رسالت محمدی(ص) کا اجر قرار دیا ہے. چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے:

( قُلْ‏ لا أَسْئَلُكُمْ‏ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى ‏) سورہ شوری، آیت/23

اہل بیت(ع) کی محبت کے سلسلہ میں سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے جبکہ غیر اہل بیت(ع) کے متعلق اختلاف ہے. رسول(ص) کا ارشاد ہے:

" دَعْ‏ مَا يُرِيبُكَ‏ إِلَى مَا لَا يُرِيبُكَ"

جس میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور بغیر شک والے کو اختیار کرلو.اہل بیت(ع) کی محبت کے بارے میں شیعوں کے نظریہ میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے. لیکن صحابہ کی محبت کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ میں بہت زیادہ شکوک ہیں اور ایک مسلمان دشمن اہل بیت(ع) اور ان کے قاتلین سے کیونکر محبت کرسکتا ہے اور ان سے کیسے راضی ہوسکتا ہے. کیا یہ تناقض نہیں ہے؟ چھوڑئیے شطاح اور صوفیوں کے نظریہ کو جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان کا قلب اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا، اور ایمان حقیقی اس کے دل میں جاگزین نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل تمام بندگان خدا یہود و نصاری، اور مشرکین و ملحدین کی عناد سے پاک نہ ہو جائے، اس سلسلہ میں ان کے عجیب و غریب اقوال ہیں جو

۲۶۷

کلیسا کے عیسائیوں سے ملتے جلتے ہیں، ان کا یہ وہم ہے کہ خدا محبت ہے اور دین محبت ہے پس جو اس کی مخلوقات سے محبت کرے گا اسے نماز پڑھنے روزہ رکھنے حج وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

میری جان کی قسم یہ تو دل بہلانے کی باتیں ہیں، قرآن و حدیث میں ان کا کہیں وجود بھی نہیں ہے. عقل بھی انہیں صحیح نہیں سمجھتی ہے. قرآن کہتا ہے:

( لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ- يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ ) سورہ مجادلہ، آیت/22

آپ کبھی نہ دیکھیں جو قوم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول(ص) سے دشمنی رکھنے والے ہیں. نیز ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَ النَّصارى‏ أَوْلِياءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ‏ ) سورہ مائدہ، آیت/51

اے ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست و سرپرست نہ بنائو کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو انہیں میں شمار ہو جائیگا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

نیز ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آباءَكُمْ‏ وَ إِخْوانَكُمْ أَوْلِياءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمانِ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ

۲۶۸

فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‏. ) سورہ توبہ، آیت/23

اے ایمان والو خبر دار اپنے باپ، دادا اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بنائو، اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو دوست رکھتے ہوں اور جو شخص بھی ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا.

نیز ارشاد ہے:

(يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي‏ وَ عَدُوَّكُمْ أَوْلِياءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوا بِما جاءَكُمْ مِنَ الْحَقِ ‏)سورہ ممتحنہ، آیت/1

اے ایمان والو خبر دار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انہوں نے اس حق کا انکار کر دیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے.

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:اس وقت تک کسی مومن کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس کی محبت اور عداوت خدا کے لئے نہ ہو.نیز فرماتے ہیں کہ: کسی مومن کے قلب میں خدا اور اس کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی.

اس موضوع سے متعلق بہت سی احادیث ہیں اور عاقل کے لئے دلیل کے طور پر اتنا ہی کافی ہے کہ خدا نے مومنین کے لئے ایمان کو پسند کیا ہے. اور ان کے قلوب کو اسی سے زینت عطا کی ہے اور ان کے لئے کفر، گناہ اور فسق کو نا پسند

۲۶۹

قرار دیا ہے انسان حق سے منحرف اور منکر ہونے کی بنا پر اپنے باپ، بیٹے یا بھائی سے نفرت کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے راستہ پر چلنے لگتا ہے اور کبھی اجنبی انسان سے مسلمان ہونے کے ناتے محبت کرتا ہے.

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سب پر واجب ہے کہ ہماری محبت و مودت اور دوستی انہیں سے ہو جن کی مودت کے بارے میں خدا نے حکم دیا ہے اسی طرح یہ واجب ہے کہ ہمارا بغض و نفرت اور برات انہیں لوگوں سے ہونی چاہئیے جن سے نفرت و برات کا خدا نے حکم دیا ہے.اس لئے ہم علی(ع) اور ان کی اولاد میں سے ہونے والے ائمہ سے محبت کرتے ہیں حالانکہ ان کی مودت سے ہمارا کوئی سابقہ نہیں ہوتا، لیکن قرآن و حدیث تاریخ وعقل کی روسے ان میں کوئی خامی نہیں ملتی.

اور اسی بنا پر ہم صحابہ سے بیزار ہیں کہ ان کے حق خلافت کو غصب کر لیا حالانکہ پہلے ان سے بغض نہیں تھا لیکن قرآن و سنت اور تاریخ و عقل نے ہمارے سامنے ان کے بارے میں شکوک پیش کئے ہیں.

اور اس کے ساتھ ساتھ رسول(ص) نے ہمیں یہ حکم دیا کہ:

"دَعْ‏ مَا يُرِيبُكَ‏ إِلَى مَا لَا يُرِيبُكَ"

بس ایک مسلمان کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مشکوک حکم کا اتباع کرے اور کتاب (خدا) کو چھوڑ دے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے.جس طرح ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام قید و بند اور غلامی سے اپنے کو آزاد کرے اور اپنی عقل کو گذشتہ افکار سے اور کینہ و کدورت سے متاثر نہ ہونے دے کیونکہ نفس اور شیطان دونوں انسان کے بڑے دشمن ہیں جو انسان کے سامنے برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں اور وہ انہیں

۲۷۰

اچھا سمجھنے لگتا ہے امام بوصیری نے" قصیدہ البرزہ میں بہت اچھی بات کہی ہے.

و خالف النفس والشیطان و اعصمهما

و ان هما محضاک النصح فاتهم

نفس اور شیطان دونوں کی مخالفت اور نا فرمانی کرو اور ان سے بچو پس اگر یہ تمہیں مخلصانہ طور پر بھی نصیحت کریں تب بھی تم ان کی مذمت کرو.

نیک بندوں کے بارے میں مسلمانوں کو خدا سے ڈرنا چاہیئے لیکن جو لوگ متقی نہیں ہیں ان کی کوئی عزت بھی نہیں ہے. رسول(ص) کا ارشاد ہے کہ: فاسق کی سخن چینی میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ مسلمان اس کے کرتوت سے آگاہ ہوجائیں. اور اس کے فریب میں نہ آئیں اور اس سے محبت نہ کریں.

آج مسلمانوں کو ایک دوسرے کی صداقت کے ساتھ رہنمائی کرنی چاہئیے ان کی غم انگیز حالت کو ملاحظہ کرنا چاہئیے، فخر و مباہات کےسلسلہ میں ان کے اسلاف و بزرگ کافی ہیں، پس اگر ہمارے بزرگ حق پر تھے" جیسا کہ ہم آج تصور کرتے ہیں" تو آج ہم اس نتیجہ پر کیوں پہونچتے ہیں. یہ چیز تو اس انقلاب کی رہین منت ہے جو امت نبی(ص) روحی و ارواح العالمین لہ الفدا کی وفات کے بعد رونما ہوا:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ‏ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلى‏ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيراً فَاللَّهُ أَوْلى‏ بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوى‏ أَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيراً .) سورہ نساء، آیت/135

اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو

۲۷۱

اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو. جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کر لی تو یاد رکھو اللہ تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے.

بعض صحابہ کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام ان بعض سابق صحابہ کی اس طرح توصیف فرماتے ہیں:

"فَلَمَّا نَهَضْتُ‏ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ وَ قَسَطَتْ شِرْذِمَةٌ وَ مَرَقَ آخَرُونَ، كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: ( تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ‏) بَلَى وَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ لَكِنْ حُلِّيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا" (1)

مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر3

۲۷۲

اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا، گویا انہوں نے اللہ کا یہ اشارہ سنا ہی نہ تھا کہ" یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ( بے جا) بلندی چاہتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے" ہاں ہاں خدا کی قسم ! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا. لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھپ گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا.

نیز آپ نے انہیں کے لئے فرمایا:

"اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ‏ لِأَمْرِهِمْ مِلَاكاً وَ اتَّخَذَهُمْ لَهُ أَشْرَاكاً فَبَاضَ وَ فَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ وَ دَبَّ وَ دَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ وَ نَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَهُ الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِهِ وَ نَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِهِ."(1)

انہوں نے اپنے ہرکام کا کرتا دھرتا شیطان کو بند رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اس نے ان کے سینوں میں انڈے دیئے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہیں کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں، وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے، بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے، اس نے انہیں خطائوں کی راہ پر لگایا دیا ہے. اور بری باتیں سجا کر ان کے سامنے

..................................

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر7

۲۷۳

رکھی ہیں جیسے اس نے انہیں اپنے تسلط میں شریک بنا لیا ہو اور انہیں کی زبانوں سے اپنے کلام باطل کے ساتھ بولتا ہے.حضرت علی(ع) عمر عاص کے متعلق فرماتے ہیں:

" عَجَباً لِابْنِ‏ النَّابِغَةِ لَقَدْ قَالَ بَاطِلًا وَ نَطَقَ آثِماً أَمَا وَ شَرُّ الْقَوْلِ الْكَذِبُ إِنَّهُ يَقُولُ فَيَكْذِبُ وَ يَعِدُ فَيُخْلِفُ وَ يَسْأَلُ فَيُلْحِفُ‏ وَ يُسْأَلُ فَيَبْخَلُ وَ يَخُونُ الْعَهْدَ وَ يَقْطَعُ الْإِلَّ"(1)

نابغہ کے بیٹے پر حیرت ہے.... یاد رکھو بدترین قول وہ ہے جو جھوٹ ہو. اور وہ خود بات کرتا ہے تو جھوٹی اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، مانگتا ہے تو لپٹ جاتا ہے اور خود اس سے مانگا جائے تو اس میں بخل کر جاتا ہے، وہ پیمان شکنی اور قطع رحمی کرتا ہے.

رسول اکرم(ص) نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں: جب وہ گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب کسی کی امانت رکھتا ہے تو خیانت کرتا ہے.

اور یہ تمام بری صفتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ عمر بن عاص میں موجود ہیں!

جب حضرت ابوذر ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مدح میں اور عثمان اور عثمان کے ساتھیوں کی مذمت میں اور ان کی تن تنہائی کے بارے میں فرمایا:

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر82

۲۷۴

"يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ‏ غَضِبْتَ‏ لِلَّهِ‏ فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهُ إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وَ خِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْهِ وَ اهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْهِ فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ وَ مَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً وَ الْأَكْثَرُ [حَسَداً] حُسَّداً وَ لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً ثُمَّ اتَّقَى اللَّهَ لَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْهُمَا مَخْرَجاً لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ وَ لَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لَأَحَبُّوكَ وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَأَمَّنُوكَ."(1)

اے ابو ذر! تم اللہ کے لئے غضبناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے لہذا جس چیز کےلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑ دو اور جس شئی کے لئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلوا جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو. کاش کہ وہ سمجھتے کہ وہ اس کے لئے کتنے حاجت مند ہیں. اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے. اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لوگے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر129

۲۷۵

کرنے والے زیادہ ہیں اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کے لئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا، تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہئیے صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہئیے اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے.

مغیرہ ابن اخنس کے بارے میں فرماتے ہیں جو بزرگ صحابہ میں سے ہیں:

" يابن‏ اللّعين‏ الأبتر و الشجرة التي لا أصل لها و لا فرع‏ واللّه ما أعزّ اللّه من أنت ناصره،و قام من انت من هضة اخرج أبعد اللّه نواك ثمّ ابلغ جهدك فلا أبقى اللّه عليك‏ إن ابقيت."(1)

اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا- خدا کی قسم جس کا تجھ ایسا مدد گار ہو، اللہ اسے غلبہ و سر فرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ جیسا ابھارنے والا ہو( وہ اپنے پیروں پر) کھڑا نہیں ہوسکتا ہم سے دور ہو خدا تمہاری منزل کو دور رکھے اور اس کے بعد جو بن پڑے کرنا اور اگر کچھ بھی مجھ پر ترس کھائے تو خدا تجھ پر رحم نہ کرے.

حضرت علی علیہ السلام نے دو مشہور صحابہ طلحہ و زبیر کہ جنہوں نے

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر133

۲۷۶

پہلے آپ کی بیعت کی اور پھر بیعت توڑ کر آپ کے مد مقابل آئے،، کے متعلق فرمایا:

"وَ اللَّهِ مَا أَنْكَرُوا عَلَيَ‏ مُنْكَراً وَ لَا جَعَلُوا بَيْنِي وَ بَيْنَهُمْ نَصَفاً وَ إِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً تَرَكُوهُ وَ دَماً سَفَكُوهُ

وَ إِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فِيهَا الْحَمَأُ وَ الْحُمَّةُ وَ الشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ وَ إِنَّ الْأَمْرَ لَوَاضِحٌ وَ قَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِصَابِهِ وَ انْقَطَعَ لِسَانُهُ عَنْ شَغْبِهِ

فَأَقْبَلْتُمْ إِلَيَّ إِقْبَالَ الْعُوذِ الْمَطَافِيلِ عَلَى أَوْلَادِهَا تَقُولُونَ الْبَيْعَةَ الْبَيْعَةَ قَبَضْتُ كَفِّي فَبَسَطْتُمُوهَا وَ نَازَعْتُكُمْ يَدِي فَجَاذَبْتُمُوهَا

اللَّهُمَّ إِنَّهُمَا قَطَعَانِي وَ ظَلَمَانِي وَ نَكَثَا بَيْعَتِي وَ أَلَّبَا النَّاسَ عَلَيَّ فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا وَ لَا تُحْكِمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا وَ أَرِهِمَا الْمَسَاءَةَ فِيمَا أَمَّلَا وَ عَمِلَا وَ لَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ وَ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمَا أَمَامَ الْوِقَاعِ فَغَمَطَا النِّعْمَةَ وَ رَدَّا الْعَافِيَةَ.(1)

و فی رسالة منه الیهما فَارْجِعَا أيُّهَا الشَّيْخَانِ‏ عَنْ رَأْيِكُمَا، فَإِنَّ الآنَ أعْظَمَ أمْرِكُمَا الْعَارُ، مِنْ قَبْلِ أنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ، والسَّلامُ.(2)

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر135

2.نہج البلاغہ، مکتوب نمبر54

۲۷۷

خدا کی قسم انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا، وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہا دیا.

اور بلاشبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنک( حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردہ ڈالنے والے شبہہ میں ہیں( اب تو ) حقیقت حال کھل کر سامنے آچکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے اور شر انگیزی سے اس کی زبان بند ہوچکی ہے.

تم اس طرح ( شوق و رغبت سے) بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑھے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹیاں اپنے بچوں کی طرف، میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا تو تم نے انہیں اپنی جانب سے پھیلایا میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا.

خدایا ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے لہذا تو جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے بٹا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا برا نتیجہ دکھا، میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا، لیکن انہوں نے اس نعمت

۲۷۸

کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا.

اور اپنے ایک خط میں طلحہ و زبیر کے بارے میں فرماتے ہیں:

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آئو کیونکہ ابھی تو تم دونوں کے سامنے ننگ و عار کا مرحلہ ہے. مگر اس کے بعد تو اس ننگ و عار کے ساتھ( دوزخ) کی آگ بھی جمع ہو جائیگی.

والسلام

پھر مروان ابن حکم کے متعلق فرماتے ہیں کہ جس کو جنگ جمل کے موقع پر گرفتار کر لیا تھا، پھر بعد میں رہا کر دیا، یہ ان افراد سے ہے جنہوں نے بیعت کرنے کے بعد بیعت توڑ دی تھی:

" لَا حَاجَةَ لِي‏ فِي‏ بَيْعَتِهِ‏ إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِيَدِهِ لَغَدَرَ بِسَبَّتِهِ أَمَا إِنَّ لَهُ إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَهُ وَ هُوَ أَبُو الْأَكْبُشِ الْأَرْبَعَةِ وَ سَتَلْقَى الْأُمَّةُ مِنْهُ وَ مِنْ وُلْدِهِ يَوْماً أَحْمَرَ."(1)

اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں، یہ یہودی قسم کا ہاتھ ہے. اگر ہاتھ سے بیعت کرے گا تو ذلیل طریقے سے توڑ بھی دے گا تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ بھی اتنی دیر کہ کتا اپنی ناک چاٹنے سے فارغ ہو. حکومت کرے گا اور اس کے چار بیٹے بھی حکمراں ہوں گے، اور امت اس کے اور اس کے بیٹوٹ کے ہاتھوں سے سختیوں کے دن دیکھے گی.

____________________

1.نہج البلاغہ، خطبہ نمبر71

۲۷۹

علی علیہ السلام ان صحابہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ جنہوں نے جنگ جمل کے موقع پر عائشہ کے ساتھ بصرہ کی طرف کوچ کیا تھا ان میں طلحہ و زبیر بھی تھے:

"فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ‏ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهِ ص كَمَا تُجَرُّ الْأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا وَ أَبْرَزَا حَبِيسَ‏ رَسُولِ اللَّهِ ص لَهُمَا وَ لِغَيْرِهِمَا فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَ قَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ وَ سَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَهٍ فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا وَ خُزَّانِ‏ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وَ غَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وَ طَائِفَةً غَدْراً فَوَاللَّهِ [إِنْ‏] لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ‏ لِقَتْلِهِ بِلَا جُرْمٍ جَرَّهُ لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّهِ إِذْ حَضَرُوهُ فَلَمْ يُنْكِرُوا وَ لَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَ لَا بِيَدٍ دَعْ مَا [إِنَّهُمْ‏] أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ‏"(1)

وہ لوگ ( مکہ سے) بصرہ کا رخ کئے ہوئے اس طرح نکلے کہ رسول اللہ(ص) کی حرمت و ناموس کو یوں کھینچے پھرتے تھے جس طرح کسی کنیز کو فروخت کے لئے ( شہر بہ شہر ) پھرایا جاتا ہے ان دونوں نے اپنی بیویوں کو تو گھر میں روک رکھا تھا اور رسول اللہ(ص)

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر170

۲۸۰