درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45867
ڈاؤنلوڈ: 2975

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45867 / ڈاؤنلوڈ: 2975
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

اٹھارہواں درس

جبرو اختیار

مقدمہ

اختیار کی وضاحت

جبریوں کے شبہات کا جواب

مقدمہ

جیسا کہ گذشتہ دروس میں اشارہ کیا جا چکا ہے کہ تاثیر استقلالی میں توحید کا شمار عظیم معارف میں ہوتا ہے کہ جو انسانوں کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے، اسی وجہ سے قرآن میں اس مطلب کی طرف بڑی تاکید ہوئی ہے، اورمختلف بیانات کے ذریعہ اس مطلب کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، منجملہ تمام موجودات کا اذن و مشیت ،ارادہ و قضاے الٰہی سے وابستہ ہونے پر ایمان لانا وغیرہ

لیکن اس مطلب کو سمجھنے کے لئے رشد فکری ا ور عقلی بالیدگی کے علاوہ صحیح تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ جو عقلی بالیدگی سے متصف نہیں تھے یا ان کی تعلیم میں نقص تھا یعنی جھنوں نے معصوم رہنماؤں، اور قرآن کے حقیقی مفسرین سے استفادہ نہیں کیا ، انھوں نے ، اس مطلب کو سمجھنے میں غلطی کی، اور یہ سمجھ بیٹھے کہ تمام اثرات اور علیت صرف اور صرف خدا سے وابستہ ہے نیزاسی سے مخصوص ہے اور قرآن کریم کی صریح آیات کے برخلاف انھوں نے اسباب و وسائط سے ہر قسم کی تاثیر اور علیت کی نفی کی ہے اور اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مثلاً الٰہی طریقہ کار یہ ہے کہ جب آ گ کا موجود ہو گا تو اس کی حرارت بھی پائی جائے گی اسی طرح کھانا کھاتے وقت سیری اور پانی پیتے وقت سیرابی کا وجود ضروری ہے ، وگرنہ ایسا نہیں ہے کہ آگ ، حرارت پیدا کرنے میں موثر ہے یا کھانا اور پانی ، سیری و سیرابی کے حاصل ہونے میں کرئی رول ادا کرتے ہیں ہیں ۔

اس انحراف فکری کے برے نتائج اس وقت آشکار ہوتے ہیں کہ جب ہم ان نتائج کو انسان کے افعالِ اختیاری اوراس کی ذمہ داریوں کے تحت تجزیہ و تحلیل قرار دیتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں تحقیق وجستجو کرتے ہیں، یعنی ایسی فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال خدا سے منسوب ہوں، اور ان امور کے تحت انسان کی فاعلیت سلب ہوجائے ،لہذا اس صورت میں کوئی بھی اپنے عمل کے مقابل میں ذمہ دار نہیں ٹھہر سکتا۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس کج اندیشی کا تباہ کن نتیجہ جبر ہے یعنی انسانوں کا اپنے اعمال کے سبب کسی بھی ذمہ داری سے بری ہونا ہے، جس کی وجہ سے تمام نظام، خواہ اخلاقی ہوں یا تربیتی، فردی ہوں یا اجتماعی، بلکہ تشریعی نظام تو سرے ہی سے باطل ہوجاتے ہیں، اس لئے کہ جب انسان اپنے امور میں اختیار کا مالک نہ رہا تو پھر اس کے لئے وظیفہ، تکلیف، امر، نہی، ثواب و عذاب وغیرہ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا، بلکہ اس فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ نظام تکوینی بے بنیاد ہوجا ئیں اس لئے کہ آیات قرآنی(۱) اور احادیث کے علاوہبراہین عقلی سے جو مطلب سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جہان کی خلقت کا ہدف ا نسان کیخلقت کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے تا کہ یہ انسان اپنے اختیارات کے ذریعہ عبادت و اطاعت اور بندگی کے ذریعہ کمالات کے عظیم درجات اور قرب پروردگار کا مالک بن جائے ،اور اس کے اندر پروردگار کی خصوصی رحمت کے مالک بننے کی صلاحیت پیدا ہوجائے لیکن اگر

انسان تمام ذمہ داریوں سے بری ہو اور اسے کرئی ا ختیار نہ ہو تووہ رضوان الٰہی، اور خدا کی جاودانی نعمتوں سے سرفرازی کا اہل نہیں ہو سکتا ۔اور اس طرح ھدف خلقت کا نقض ہونا لازم آئے گا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کیمشینری ایک کھلونا بن جائے، اور پھر جبری انداز میں کچھ انسان خلق ہوں، اور چند حرکات و افعال کےنتیجہ میںبعض کو سزااوربعض کو جزا دے دی جائے ،جبکہ ان امر کی انجام دہی میں سارا نقش اسی مشینری کا ہے اور انسان مجبور ہے۔

اس فکر کے پھیلنے میں مہم ترین عامل ظالم حکومتوں کے برے مقاصد ہیں، جو اپنے ناشائستہ امور کو اس فکر کے ذریعہ عملی جامہ پہناتے تھے، جو اس حربہ کو کمزوروں پر اپنی برتری کے لئے اور مظلوموں کے قیام کو دبانے کے لئے استعمال کرتے تھے، یقیناً ایسے نتائج کے پیش نظر، ملتوں کو خواب غفلت میں رکھنے کے لئے جبر کو ایک خطرناک سبب ماننا ہوگا۔

اس کے علاوہ وہ لوگ جو تھوڑا بہت اس نظریہ کے نقطہ ضعف سے آشنا تھے لیکن توحید کامل اور نفی جبر کے درمیان کوئی راہ حل نکالنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اورنہ ہی اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے استفادہ کرتے تھے، لہٰذا تفویض کے قائل ہوگئے، اورانسان کے اختیاری افعال کو فاعلیت الٰہی کے دائرے سے خارج سمجھ بیٹھے اور اس طرح سے وہ اشتباہ میں مبتلا ہوگئے، اور یوں اسلام کے عظیم معارف اور اس کے فوائد سے محروم ہوگئے۔

لیکن وہ لوگ کہ جو ایسے عظیم معارف کو درک کرنے کی استعداد سے سرفراز تھے اور قرآن کے حقیقی مفسرین کی معرفت حاصل کر چکے تھے، وہ اس کج فکری سے محفوظ رہ گئے ،اورچونکہ اپنی فاعلیت اختیاری کو اس قدرت کے سایہ میں دیکھا جسے خدا نے انھیں عطا کیا تھا لہٰذا اس قدرت کی وجہ سے حاصل ہونے والے افعال کی ذمہ داری قبول کرلی، اور اس کے علاوہ خدا کی جانب سے تاثیر استقلالی کو درک کرلیا، اور اس طرح ایسے مفید نتائج کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔

خاندان نبوت سے حاصل ہونے والی روایات میں اس بحث کے آثار ملتے ہیں، احادیث میں استطاعت جبرو تفویض کے عنوان کے تحت اور اس کے علاوہ اذن، مشیت، ارادہ، قضا وقدر الٰہی کے ابواب میںذکر کیا گیا ہے۔

ان مطالب کے علاوہ بعض روایتوں میں ا یسے لوگوں کو ان مسائل میں غور و فکر کرنے سے روکا گیا ہے کہ جو فکر ی اعتبار سے ضعیف ہیں تا کہ وہ گمراہ ہونے سے محفوظ رہیں۔

ہاں، جبرو اختیار کے مختلف اقسام ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اس کتاب کے ہدف سے خارج ہے، لہٰذا اس موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ان میں سے فقط بعض مسائل کو ذکر کریں گے اور ان لوگوں کو ہماری یہ تلقین ہے کہ جو مزید تحقیق کے خواہاں ہیں کہ وہ مبانی عقلی و فلسفی کو سمجھنے میں صبر سے کام لیں۔

اختیار کی وضاحت۔

ارادہ کی قوت ، امور یقینی میں سے ہے ،کہ جو ہر انسان میںپائی جاتی ہے، اس لئے کہ ہر انسان خطا ناپذیر علم حضوری کے ذریعہ اسے اپنے وجود میں درک کر تا ہے، جیسا کہ اسی علم کے ذریعہ اپنی بقیہ روحی خصوصیات کا پتہ لگاتا ہے یہاں تک کہ علم حضوری ہی کے ذریعہ کسی امر کے سلسلہ میں شک کا بھی احساس کر تا ہے، اور اسے درک کرنے میں کوئی شک نہیں کرتا۔

اسی طرح انسان ایک معمولی توجہ کے ذریعہ اپنے وجود میں اس بات کا احساس کرتا ہے کہ وہ تکلم کرسکتا ہے یا نہیں، غذا تناول کرسکتا ہے یا نہیں ، ہاتھوں کو حرکت دے سکتا ہے یا نہیں۔

کسی بھی امر کو انجام دینے کا ارادہ بنانا کبھی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے جیسے کہ ایک بھوکا کھانا کھانے کا رادہ کرتا ہے، یا ایک پیاسا پانی پینے کا ارادہ کرتا ہے اور کبھی عقلی آرزوئوں کو پورا کرنے اور انسانی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ارادہ کیا جاتا ہے جیسے کہ ایک مریض اپنی سلامتی حاصل کرنے کے لئے تلخ دوائیں کھاتا کرتا ہے، اور لذ یذ غذائوں سے پرہیز کرتا ہے، یا ایک محقق اپنے مقصود کی تلاش میں مادیات سے چشم پوشی کرتا ہے اوربے شمار زحمتیں تحمل کرتا ہے یا ایک فدا کار فوجی اپنے ہدف تک پہنچنے میں اپنی جان کو بھی قربان کردیتا ہے۔

در اصل انسان کی عظمتوں کا اندازہ ا س وقت لگتا ہے کہ جب مختلف خوا ہشیں جمع ہوں ، اور اس کے بعد انسان، فضائل اخلاقی، کرامت نفسانی ، اورقرب خداوندی و رضوان الٰہی کو حاصل کرنے کے لئے اپنی پست اور حیوانی خواہشات سے چشم پوشی کر لے ، اس لئے کہ کوئی بھی عمل جس قدر دلچسپی اور کامل ارادہ سے انجام دیا جائے گا ، اسی کے مطابق روحی تکامل یا تنزل حاصل ہو گا ، اور اسی اعتبار سے جزاء و سزا کا مستحق ہوگا ۔

البتہ نفسانی خواہشات کے مقابل میں ٹھہر نے کی طاقت تمام انسانوں میں برابر نہیں ہے لیکن تمام انسانوں میں یہ (ارادہ) موہبت الٰہی موجود ہے انسان اگر چاہے تو تمرین کے ذریعہ اسے قوی بنا سکتا ہے۔

لہٰذا ارادہ کے موجود ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور مختلف طرح کے شبہات ذہن میں پیدا ہونے کی وجہ سے ارارہ جیسے امرِ وجدانی کے سلسلہ میں شک و تردید نہیں ہونا چاہئے اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کردیا ہے کہ اختیار کا وجود ایک آشکار اصل کے عنوان سے تمام ادیانِ آسمانی، شرائع، اور تربیتی و اخلاقی نظاموں میں قبول شدہ ہے اور اس کے بغیر وظیفہ، تکلیف امر، نہی، جزا و سزا کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

وہ امور جو اس حقیقت سے انحراف کا باعث ہوتے ہیں اور جبر سے لگائو کا سبب بنتے ہیں ہمیں ان کا جواب دینا ضروری تا کہ اس وسوسہ کا خاتمہ ہوجائے لہٰذا اس مقام پر چند شبہات کے جوابات پیش کئے جا رہے ہیں ۔

شبہات کے جوابات۔

جبریوں کے مہم ترین شبہات درج ذیل ہیں۔

١۔ انسان کاا رادہ باطنی میلانات کا نتیجہ ہے، اور یہ میلانات نہ انسان کے اختیار میںہیں اور نہ ہی ان کے ظہور میں کوئی خارجی عامل سبب بنا ہے، لہذا اس طرح اختیار اور انتخاب کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔

٢۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ میلانات کا اٹھنا ارادہ کے بننے کا سبب ہے نہ یہ کہ کسی امر کو انجام دینے کے لئے کسی ارادہ کے وجود کا سبب ہے، جبر کا نتیجہ یہ ہے ،کہ جب خواہشات ظہور کریں تو مقاومت کی قوت سلب ہوجائے ،حالانکہ بہت سے امور میں انسان شک کرتا ہے کہ اسے انجام دے یا نہ دے اور کسی بھی امر کو انجام دینے کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے جو کبھی سود و منفعت ،تو کبھی دشواری کا سبب ہے۔

٢۔مختلف علوم میں یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ مختلف عوامل جیسے وراثت، (غذائیات اور دوائوں کے نتیجہ میں) غدود کے ترشحات، ا جتماعی عوامل، انسان کے ارادہ کے موجود ہونے کا سبب بنتے ہیں، اور انسانوں کے اخلاق کا بدلنا انھیں عوامل کے اختلاف کا سبب ہے جیسا کہ دینی متون میں بھی اسی مطلب کی طرف تاکید کی جاتی ہے، لہٰذا انسانی افعال کو آزاد، ارادہ کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا۔اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آ ذاد ارادہ کو قبول کرلینے کا مطلب ان عوامل کی اثر گذاری کا منکر ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان عوامل کے ہوتے ہوئے بھی مقاومت کرسکتا ہے اور مختلف خواہشات کے جمع کے دوران کسی ایک کا انتخاب کرسکتا ہے۔

البتہ یہ امر مسلم ہے کہ کبھی کبھی یہ عوامل انتخاب میں دشواری کا سبب بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود مقاومت کرنا اور کسی ایک کا انتخاب کرلینا ،کمال میں تاثیر اور جزا کے مستحق ہونے کا سبب ہوتا ہے، جیسا کہ غیر معمولی ہیجانات سزا کے کم ہونے اور جرم میں تخفیف کا باعث ہوتے ہیں۔

٣۔ خدا تمام موجودات منجملہ افعالِ انسان کے وقوع سے پہلے پوری طرح ان سے آگاہ ہے،اورعلم الٰہی میں کسی قسم کی خطا کا کوئی امکان نہیں ہے،لہذا تمام حوادث، علم الٰہی کے مطابق واقع ہوتے ہیں، اور اس کے مخالف ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے،لہٰذااس مقام میں انسان کے ارادہ اور اختیار کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا ۔اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ علم الٰہی ہر اس حادثہ سے متعلق ویسا ہی ہے جیساکہ واقع ہونے والا ہے، اور انسان کے افعال اختیاری وصف اختیاریّت کے ہمراہ خدا کے نزدیک معلوم ہیں پس اگر یہ افعال وصف جبریت کے ساتھ واقع ہوں تو علم الٰہی کے خلاف واقع ہوں گے۔

جیسے خدا کو معلوم ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت میں ایک عمل کو انجام دینے کا ارادہ بنانے والا ہے اور اسے ضرور انجام دے گا، یہاں پر ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ علم صرف وقوع فعل سے متعلق ہے بلکہ وہ ارادہ اور اختیار سے بھی مربوط ہے لہذا علم الٰہی انسان کے آزاد ارادہ اور اس کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔

جبریوں کا ایک دوسرا شبہ قضا و قدر کے سلسلہ میں ہے ان کے اعتقاد کے مطابق انسان کے اختیار سے سازگار نہیں ہے اور ہم آئندہ دروس میں اس مطلب کے تحت گفتگو کریں گے۔

سوالات

١۔جبر کے رواج اور اس سے وابستہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

٢۔جبر سے وابستہ ہونے کے برے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟

٣۔انسان کے اراد ہ اور اختیا رکی آزادی کی وضاحت کریں؟

٤۔ کیا باطنی میلانات اور ان کے وجود میں آنے کا سبب بننے والے عوامل انسان کے اختیار سے منافات رکھتے ہیں؟ کیوں؟

٥۔ وہ لوگ جو غیر معمولی ہیجانات اور دشوار شرائط میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ان

میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟

٦۔ کیا وراثت اور ا جتماعی عوامل جبر کا سبب ہیں؟ کیوں؟

٧۔ کیا علم الٰہی انسان کے اختیار کی نفی کرتا ہے؟ کیوں؟

___________________

١۔ان آیات کی طرف مراجعہ کریں۔ سورۂ ہو۔د آیت/ ٧ ۔سورۂ ملک ۔آیت /٢۔ سورۂ کہف ۔آیت/ ٧۔ سورۂ ذاریات۔ آیت /٥٧۔ سورۂ توبہ ۔آیت/ ٧٢

انیسواں درس

دین کیا ہے

قضاوقدر کا مفہوم

قضا و قدر علمی و عینی

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہیں

انسان کے اختیار سے قضا و قدر کا رابطہ

متعدد علتوں کے اثر انداز ہونے کی قسمیں

قضا اور قدر پر اعتقاد کے آثار

قضاوقدر کا مفہوم

کلمہ ''قدر'' کے معنی اندازہ اور کلمہ ''تقدیر'' کے معنی تولنا اور اندازہ لگا نے کے ہیں اور کسی چیز کو ایک معین اندازے و پیمانے کے مطابق ساخت و ساز کے ہیں اورکلمہ ''قضا'' کے معنی انجام تک پہنچا نے اور فیصلہ کرنے کے ہیں اور کبھی یہ دونوں کلمہ ایک ساتھ تقدیر کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔

تقدیر الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے ہر شی کے لئے کم (مقدار) و کیف ( حالت )، زمان و مکان کے اعتبار سے کچھ خاص حدود قرار دئے ہیں ،جو تدریجی اسباب و عوامل کے ذریعہ پاتے ہیں اورقضا الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شی کے مقدمات ، اسباب و شرائط فراہم ہو جائیں تو وہ شی اپنے اختتام تک پہنچ جائے ۔

اس تفسیر کے مطابق ، مرحلہ تقدیر، مرحلہ قضا سے پہلے ہے ، اور اس کے تدریجی مراتب ہیں

، جو قریب، متوسط ،بعید مقدمات کو شامل ہیں اور اسباب و شرائط کے بدلنے کے ساتھ یہ بھی بدل جاتے ہیں جیسے ایک جنین پہلے نطفہ پھر علقہ، پھر مضغہ یہاں تک کہ ایک کامل جنس کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس میں زمانی و مکانی تشخصات بھی پیداہوجاتے ہیں، اب اس کا ایک مرحلہ میں ساقط ہو جانا ، ٫٫تقدیر ،، میں تغیر سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن مرحلہ قضا ایک دفعی مسئلہ ہے جو اسباب و شرائط کے فراہم ہونے پر ہی منحصر ہے اس کے بعد اس کا پایا جانا حتمی ، و نا قابل تبدیل ہے

( َاِذَا قَضیٰ اَمراً فَاِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ) .(۱)

جب وہ کسی امر کے بارے میں ٹھان لیتا ہے تو بس ا س سے کہتا ہے کہ ہوجا، وہ ہوجاتاہے

لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ کبھی قضا و قدر دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، اسی وجہ سے انھیں حتمی اور غیر حتمی حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایات اور دعائوں میں قضا کو بدلنے والے اسباب میں سے ''صدقہ'' ماں باپ کے ساتھ نیکی، صلۂ رحم، دعا وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔

قضا و قدر علمی و عینی۔

کبھی تقدیر اورقضا الٰہی، موجودات کی پیدائش کے لئے اسباب و شرائط اور مقدمات کے فراہم ہونے کے تحت، علم خدا کہ معنی میں آیا ہے اسی طرح ان امور کے حتمی واقع ہو جانے کے سلسلہ میں یہ کلمات استعمال ہوتے ہیں جسے '' قضا و قد ر علمی '' کا نام دیا جاتا ہے، اور کبھی موجودات کی پیدائش کے تدریجی مراحل اور ان کے عینی تحقق کو، خدا کی ذات سے نسبت دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جسے '' قضا و قدر عینی ' ' کا نام دیا جاتا ہے۔

آیات و روایات کی روشنی میں علم الٰہی ان تمام موجودات کو شامل ہوتا ہے کہ جو خارج میں موجود ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب خدا کی ایک مخلوق ''لوح محفوظ'' میں درج ہیں، لہٰذا جو بھی خدا

کی اجازت سے اس لوح محفوظ تک رسائی حاصل کرلے وہ گذشتہ اور آئندہ کے واقعات سے باخبر ہوجاتا ہے، اس لوح محفوظ کے علاوہ دوسرے کم مرتبہ لوح محفوظ بھی ہیں جو واقعات کو ناقص اور حدورد و

شرائط کے ساتھ بیان کر تے ہیں لہٰذا جو بھی ان تک رسائی حاصل کرلے وہ واقعات کے سلسلہ میں اجمالی علم حاصل کرلیتا ہے،جو قابل تبدیل بھی ہیں، شاید یہ آیت انھیں دو قسموں کی طرف اشارہ کر رہی ہے (یَمحُو اللّہُ مَا یَشَائُ وَ یُثبِتُ وَعِندَہُ اُمُّ الکِتَٰبِ)(۲)

پھر اس میں سے خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور حس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اس کے پاس اصل کتاب ،لوح محفوظ موجود ہے۔

بہر حال قضا و قدر علمی کے اعتبار کے سلسلہ میں اس سے زیادہ مشکلات و دشواریاں نہیں ہیں جو ہم نے خدا کے علم ازلی ہونے کے بارے میں بیان کی ہیں ، گذشتہ دروس میں علم الٰہی کے بارے میں جبریوں کے شبہات کے تحت گفتگو ہو چکی ہے اور ان کے شبہات کو کمزور اور ان کے بطلان کو واضح کیا جا چکا ہے ۔

لیکن قضا و قدر عینی پر اعتقاد کے سلسلہ میں جو مشکل ترین اعتراضات پیش کئے گئے ہیں ان کے جوابات دینا ضروری ہیں اگر چہ اس بابت تاثیر استقلالی میں توحید کے مباحث کے درمیان ایک اجمالی جواب د یا جا چکا ہے۔

انسان کے اختیار سے قضا و قدر کا رابطہ۔

ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ قضا و قدر عینی پر اعتقاد کا اقتضاء یہ ہے کہ موجودات کی پیدائش سے کمال تک بلکہ آخر عمر تک حتی کہ الھی حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ مقدمات بعیدہ کے فراہم ہونے پر ایمان لانا ہوگا اور پیدائش کے شرائط کے فراہم ہونے سے آخری مرحلہ تک ارادہ الٰہی سے وابستہ ہونے پر یقین کرنا ہوگا۔(۳)

یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق جس طرح ہر موجود کا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کی طرف نسبت دینا ضروری ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی وجود بھی موجود نہیں ہوسکتا، اسی طرح ہر شی کی پیدائش قضا و قدر الٰہی سے وابستہ ہے، اور اس کے بغیر کوئی بھی وجود اپنے حدود میں موجود نہیں رہ سکتا ، لہٰذا ا س نسبت کو بیان کرنا در اصل توحید کی تدریجی تعلیم یعنی تاثیرمیں استقلال کے معنی میں ہے جو توحید کے عظیم مراتب میں سے ہے، اور جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسانوں کی تربیت میں توحید کی یہ قسم عظیم اثرات کی حامل ہے۔

لیکن موجودات کو اذن الٰہی اور اس کی مشیت سے نسبت دینا نہایت آسان ہے بر خلاف اس کے آخری مرحلہ نیز قطعی ہونے کی نسبت قضا الٰہی کی طرف اس لئے کہ اس میں پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ سب سے زیادہ متکلمین کی بحثوں کا مرکز بنا رہا ہے، اس لئے کہ تقدیر کے بننے میں انسان کے مختار ہونے کے اعتقاد کو قبول کرنے کے ساتھ اس اعتقاد (قضاو قدر ) کو ماننا اور اس پر ایمان لانا بہت مشکل ہے، اسی وجہ سے متکلمین کے ایک گروہ (اشاعرہ) نے چونکہ انسانی اعمال میں قضا الٰہی کے انتساب کا حامی تھا ، لہٰذا جبر کا قائل ہو گیا، لیکن متکلمین کا دوسرا گروہ (معتزلہ) چونکہ جبر اور اس کے جبران ناپذیر نقصانات سے آگاہ تھا لہٰذا اسے قبول نہ کرتے ہوئے انسانی افعال میں قضا الٰہی کی شمولیت کا منکر ہوگیا،اوران میں سے ہر ایک نے قرآنی آیات کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق انجام دی اور مخالف آیتوں اور روایتوں کی تاویل کی جسے ہم نے مفصل جبر و تفویض کے سلسلہ میں لکھے گئے رسالہ میں پیش کیا ہے۔

لیکن ا صل اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعاً انسان کے افعال اختیاری ہیں اور وہ اپنے ارادہ میں مختار ہے تو اسے کس طرح ارادۂ الٰہی اور اس کی قضا سے نسبت دی جا سکتی ہے؟ اور اگراس کے افعال

کی قضا الٰہی سے نسبت دی گئی ہے تو پھر کس طرح انسان سے نسبت دی جا سکتی ہے؟

لہٰذا اس اشکال کو رفع کرنے کے لئے اور ان دونوں نسبتوں کو جمع کرنے کے لئے ایک علت کی طرف چند معلول کو نسبت دینے کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش کریں گے تا کہ ان دونوں

نسبتوں کی نوعیت معلوم ہوسکے۔

متعدد علتوں کے اثر انداز کی قسمیں۔

ایک موجود کی پیدائش میںچند علتوں کے ائر انداز ہونے کی چند صورتیں ہیں۔

١۔ چند علتیں ایک ساتھ اثر انداز ہوں جیسے کہ بیج، پانی، ہوا، آفتاب جیسے اسباب مل کر سبزہ کے اگنے کاسبب بنتے ہیں۔

٢۔ چند علتیںنیابتاً ایک دوسرے کے بعد عمل کریں جیسے کہ ہوائی جہاز کے متعدد انجن یکے بعد دیگرے روشن ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہوائی جہاز برابر پرواز کرتا ہے

٣۔ چند علتوں کا آپس میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا جیسے کہ متعدد گیند کا ایک دوسرے سے ٹکرانا، یا متعدد کاروں کا ایک ساتھ اکسیڈنٹ ، یا ارادہ کا موئر ہونا ہاتھ کی حرکت پر اور ہاتھ کی حرکت کا اثر انداز ہونا قلم کی حرکت پر اور قلم کی حرکت کا نتیجہ ایک نوشتہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح تمام موجودات ایک دوسرے کی تاثیر کا نتیجہ ہیں۔

٤۔ متعدد عوامل کا ایک دوسرے پر اثر، جبکہ ہر ایک دوسرے سے مستقل ہو، یہ فرض گذشتہ فرض سے بالکل جدا ہے اس لئے کہ وہاں ہاتھ کی حرکت ، ارادہ پر منحصر تھی اور قلم کی حرکت ، ہاتھ کی حرکت پر منحصر تھی ۔

ان تمام صورتوں میں چند علتوں کے ذریعہ ایک معلول کا وجود میں آنا لازمی ہے، لہٰذا فعل اختیاری میں ارادۂ الٰہی اور انسان کے ارادے کی تاثیر اسی قسم میں سے ہے، اس لئے کہ انسان اور اس کا ارادہ، ارادۂ الٰہی سے وابستہ ہے۔

لیکن وہ صورت کہ جس میں معلول واحد پر دو علتوں کا اجتماع غیر ممکن ہے، وہ دو ''ہستی بخش' (وجود آفرین )علتوں کا اجتماع ہے یا ایسے دو علتوں کا اجتماع ہے کہ جو مانعة الجمع، مستقل ،اور ایک دوسرے کے بدلے اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے کہ ایک ارادہ دو مزید فاعلوں سے وجودمیں آئے یا دو مشابہ موجود دو تامہ علتوں کا نتیجہ ہوں۔

شبہ کا جواب۔

گذشتہ توضیحات کی روشنی میں انسان کے افعال اختیاری کو خدا سے نسبت دینے کے علاوہ خود انسان سے نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ،اس لئے کہ یہ نسبتیں آپس میں مزاحم نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے طول میںہیں۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق ایک فعل کو اس کے فاعل کی طرف نسبت دینا یہ ایک مرحلہ ہے اور خود اس کے وجود کو خد کی طرف نسبت دینا اس شے بالا تر مرحلہ ہے کہ جس مرحلہ میں خود انسان کاوجود اور وہ مادہ کہ جس پر وہ فعل انجام پاتا ہے اور وہ آلاتُ جس کی مدد سے فعل واقع ہوا ہے سب کے سب اسی سے وابستہ ہیں۔

پس انسان کے ارادہ کی تاثیر علت تامہ کے ایک جز کے عنوان سے اپنے امور میں اس امر سے کوئی منافات نہیں رکھتا، کہ علت تامہ کے تمام اجزا کو خدا سے نسبت دیدی جائے ،اور وہ صرف خدا ہے جو جہان انسان اور اس کے تمام افعال و کردار کو اپنے دست قدرت میں سنبھالے ہوئے ہے، ہمیشہ انھیں وجود عطا کرتا ہے اور ان میں ہر ایک کو ایک معین شکل میں خلق کرتا ہے لہٰذا کوئی موجود بھی کسی بھی حال میں اس سے بے نیاز نہیں ہے، اور انسان کے اختیاری افعال بھی اس سے بے نیاز اور اس کی قدرت سے باہر نہیں ہیں، اور اس کی تمام خصوصیات، اور صفات الٰہی قضا و قدر سے وابستہ ہیں، لہذا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ یا تو وہ، انسان کے ارادہ سے وابستہ ہوں یا خدا کے ارادہ کے تحت ہوں اس لئے کہ یہ دونوں ارادے، مستقل اور مانعة الجمع نہیں ہیں،اوراعمال کو تحقق بخشنے میں ایک دوسرے کے بدلے اثر انداز نہیں ہوتے، بلکہ انسان کا ارادہ اس کے وجود کی طرح ارادۂ الٰہی سے وابستہ ہے، اور اسے تحقق بخشنے کے لئے خدا کے ارادہ کی ضرورت ہے۔

( مَا تَشَاء ُونَ اِلَّا اَنْ یَشَائَ اللّٰه رَبّ الْعَالَمِیْنَ ) .(۴)

اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو سارے جہا ن کا پالنے والا خدا چاہتا ہے۔

قضا و قدر پر اعتقاد کے آثار۔

قضا قدر پر اعتقاد ،معرفت خدا کے حصول اور عقلی اعتبار سے انسان کے تکامل (بتدریج کامل ہونے) کے علاوہ بے شمار علمی فوائد کا حامل ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے اور بعض کو ہم یہاں ذکر کریں گے۔

وہ اشخاص جو حوادث کی پیدائش میں ارادہ الٰہی کی اثر اندازی اور قضا و قدر الھی پر ایمان رکھتے ہیں وہ ناگوار حادثوں سے نہیں ڈرتے، اور نالہ و زاری نہیں کرتے، بلکہ چونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ حوادث بھی اس کے حکیمانہ ارادہ کا ایک جز ہے اور اس کے واقع ہونے میں کوئی نہ کوئی حکمت کار فرما ہے لہٰذا رضا کارانہ اور والھانہ طور پر اس کا استقبال کرتے ہیں، اور اس طرح صبر و رضا ، تسلیم و توکل جیسے صفات کے مظور بن جاتے ہیں اور دنیا کی خوشیوں ورعنائیوں پر مغرور و سرمست نہیں ہو تے اور خدائی نعمتوں کو اپنے لئے فخر کا وسیلہ نہیں سمجھتے۔

یہ تووہی آثار ہیں کہ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔

( مَا اَصَابَ مِنْ مُصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی اَنفُسِکُم اِلاَّ فِی کِتَٰبٍ مِن قَبلِ اَن نَّبرَأهَا اِنَّ ذَلِکَ عَلی اللّهِ یَسِیر ٭لِّکَیلاَ تَأسَوا عَلَی مَافَاتَکُم وَلاَ تَفرَحُو ا بِمَائَ ا تَکُم وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُختَالٍ فَخُورٍ ) (۵)

جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوئی ہیں قبل اس کے کہ ہم انھیں ظاہر کریں (لوح محفوظ) میں مکتوب ہیں بیشک یہ خد اپر آسان ہے ،تا کہ جب تم سے کوئی چیز چھین لی جائے اس کا رنج نہ کرواورجب کوئی چیز (نعمت) خدا تم کو دے تو اس پر نہ اترایا کرو اور خدا کسی اترانے والے شیخی باز کو دوست نہیں رکھتا۔

لیکن اس بات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے کہ تاثیر استقلالی میں توحید قضا و قدر سے غلط مطلب نکالنا انتہائی سستی، کاہلی اور ذمہ داریوںسے از نو منھ موڑنا ہے ۔

اورہمیںیہ یاد رہنا چاہیے کہ جاودانی سعادت و شقاوت ہمارے اختیاری افعال میں ہے۔

( لهَا مَا کَسبَت وَ عَلَیهَا مَا اَکتَسَبَت ) .(۶)

اس نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو (اس کا وبال)کا خمیازہ بھی وہی بھگتے گا،

( وَ اَن لَّیسَ للِاِنسَانَ اِلاَّ مَا سَعَی ) ٰ)(۷)

اور انسان کے لئے نہیں ہے مگر یہ کہ جتنی وہ کوشش کرے

سوالات

١۔ قضا و قدر کے لغوی معنی بیان کریں؟

٢۔ تقدیر الٰہی اور اس کی قضا کا مطلب کیا ہے؟

٣۔ کس اعتبار سے قضا و قدر کو حتمی اور غیر حتمی امور میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟

٤۔ بداء کیا ہے؟

٥۔ علمی اور عینی قضا و قدر کو بیان کریں؟

٦۔ لوح محفوظ اور لوح محو اثبات اور ان دونوں کا حتمی اور غیر حتمی تقدیر سے ارتباط کو بیا ن کریں؟

٧۔ قضا و قدر اور انسان کے مختار ہونے کے درمیان جمع کی مشکلات کے علاوہ اس موضوع کے تحت متکلمین کے اختلافات کی شرح دیں؟

٨۔ معلول واحد میں متعدد علتوں کے اثر انداز ہونے کی قسموں کو بیان کریں اور ان میں سے کون سی قسم محال ہے؟

٩۔ قضا و قدر کے مسئلہ میں جبر کے متعلق شبہات کو بیان کریں؟

١٠۔ قضا و قدر الھی پر اعتقاد رکھنے کے اثرات بیان کریں؟

____________________

(١)سورۂ آل عمران۔ آیت /٤٧، سورہ بقرہ ۔آیت /١١٧ ،سورۂ مریم ۔آیت /٣٥ ،سورۂ غافر۔ آیت/ ٦٨.

(۲)سورۂ رعد آیت ٣٩.

(۳)ارادہ اور قضا کا ا یک دوسرے پر منطبق ہونا سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٤٧ اور سورۂ یس کی آیت نمبر ٨٣، کی تطبیق کے ذریعہ یہ مطلب روشن ہوجاتا ہے ''اِنَّمَا اَمْرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیْئاً اَنْ یَقُوْلَ لَهُ کُنْ فَیَکُوْنُ'' .

(۴)سورۂ تکویر۔ آیت/ ٢٩.

(۵) سورہ حدید۔ آیت/ ٢٢ ٢٣

(۶)سورہ بقرہ۔ آخری آیت.

(۷)سورۂ نجم ۔آیت/ ٣٩.