درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45841
ڈاؤنلوڈ: 2973

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45841 / ڈاؤنلوڈ: 2973
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

پینتالیسواں درس

قرآن میں قیامت کا تذکرہ

مقدمہ

قیامت کا انکار بے دلیل ہے۔

قیامت کے مانند دوسرے حوادث۔

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔

سبزوں کا اُگنا۔

اصحاب کہف کا سونا۔

حیوانوں کا زندہ ہونا۔

بعض انسانوں کا زندہ ہونا۔

مقدمہ:

قرآن مجید میں قیامت کو ثابت کرنے یا منکرین قیامت سے احتجاج کرنے کے متعلق جو آیتیں موجود ہیں، ان کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

١۔وہ آیتیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منکرین قیامت کے پاس قیامت کے انکار کے اوپرکوئی دلیل نہیں ہے یعنی ان کے پاس انکار قیامت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

٢۔وہ آیاتِ کریمہ جو قیامت کے مانند رو نما ہونے والے دوسرے حوادث کی طرف اشارہ کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ قیامت کا واقع ہونا بعید از قیاس نہیں ہے

٣۔وہ آیات جو قیامت کے منکرین کے شبہات کو رد اور اس کے واقع ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔

٤۔وہ آیتیںجو اس بات کی طرف اشارہ کرتی کہ قیامت خدا کا ایک حتمی اور سچاّوعدہ ہے جس میں تبدیلی نہیں آسکتی،اور در حقیقت قیامت کے برپا ہونے کو سچّے خبر دینے والے کی خبر کے ذریعہ ثابت کرتی ہیں۔

٥۔وہ آیات شریفہ جو قیامت کی ضرورت پر عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں،در حقیقت آیاتِ کریمہ کے ابتدائی تین گروہ امکانِ وقوع قیامت سے متعلق ہیں اور دوسرے دو گروہ قیامت کی ضرورت سے متعلق ہیں ۔

قیامت کا انکار بے دلیل ہے۔

قرآن مجید نے باطل عقائد رکھنے والوں کے مقابل میں احتجاج کی جو روش اپنائی ہے وہ یہ ہے کہ ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ ظاہر اور واضح ہو جائے کہ ان کے فاسد اور باطل عقائد عقل و منطق کی بنیاد پر نہیں ہیں ،چنانچہ کئی آیتوں میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ۔

( قُلْ هٰاتُوْا بُرْهٰانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰادِقِینَ ) (۱)

اے پیغمبر !ان سے کہدیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لے کر آئو اور اسی کے مانند دوسرے مقامات پر بھی اسی لب و لہجہ میں ارشاد ہوا کہ ایسے غلط عقیدہ رکھنے والے کسی واقعی اور دلیل کے ذریعہ ثابت چیز پر عقیدہ نہیں رکھتے ،بلکہ بے دلیل وہم وگمان اور غیر واقعی خیالات پر ہی اکتفا کرتے ہیں(۲) منکرین قیامت کے متعلق فرماتا ہے۔

( وَقٰالُواْ مٰا هَِ اِلاَّحَيٰاتُنَا اَلْدُنْيَا نَمُوْتُ وَنَحٰی وَمَا يُهْلِکُنَا اِلاَّ اَلدَّهْرْ وَمَا لَهُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمِِِ اِنْ هُمْ اِلاَّ يَظُنُّونَ ) (۳)

اور یہ لوگ کہتے ہیں، کہ یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کردیتا ہے اور انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ یہ صرف ان کے خیالات ہیں اور بس۔

اور اسی طرح دوسری آیات ِشریفہ میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ قیامت کا انکار صرف وہم وگمان اور بغیر کسی دلیل وبرہان کے ہے(۴) اگرچہ ممکن ہے کہ اگر یہ بے دلیل مدعیٰ خواہشات اور ہوا پرستی کا پیش خیمہ بن جائے تو ہوا پرست افراد سے قبول کرلیں گے،(۵)

لیکن آہستہ آہستہ(تدریجاً)یہ مدعیٰ ارتکاب گناہ کی وجہ سے اعتقاد اور یقین کی صورت اپنا لے گا(۶) حتیٰ کہ لوگ اپنے اس موہوم عقیدہ پر ہٹ دھرمی(سخت پابندی) سے کام لینے لگیں گے(۷)

قر آن مجید نے قیامت کا انکا ر کر نے وا لو ں کے قو ل کو نقل کیا ہے جو نہا یت بعید اور اگر ان لو گو ں نے کو ئی شبہ بھی کیا تو وہ بھی نہا یت ہی ضعیف اور سست اور بے اہمیت ہے(۸)

اب ایسی صو رت میں ایک طر ف تو پر ور دگا ر قیا مت سے مشا بہ حو ا دث کا ذکر کر تا ہے تا کہ وقوع قیا مت کے بعید ہونے کا تصو ر دور ہو جا ئے(۹)

اور دوسری طرف اُن شبہا ت کے جو ابات کی طر ف اشا ر ہ کر رہا ہے تا کہ اِس سلسلے میں کو ئی شک و شبہ با قی نہ رہ جا ئے اور قیامت کا آنا ثا بت ہو جا ئے لیکن صر ف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور اِس وعدئہ خدا کے حتمی اور ضر وری ہو نے اور وحی کے ذریعہ لو گو ں پر حجت تما م کر نے کے سا تھ سا تھ قیامت کی ضر ورت پر عقلی دلیلو ں کی طر ف بھی اشا رہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ در سو ں میں بیا ن کیا جا ئے گا ۔

قیامت کے ما ند دوسرے حو ادث

( الف )سبزوں کا اگنا۔

مرنے کے بعد انسان کا دو با رہ زند ہ ہو نا اس ،حیات ما بعد الموت کے مانند ہے اور اس کی مثال سبزہ اُگنے کی طر ح ہے جس طر ح زمین میں سبز ہ خشک ہو جا نے کے بعد دو با رہ اگتا ہے اسی طرح انسان مرنے کے بعد زندہ ہو گا ، اگر انسان روز مر ہ وقوع میں آنے والے واقعات کو پیش نظر رکھے اور اس میں غور و فکر کر ے، تو یہ اُس کے لئے اپنی مو ت کے بعد دو با رہ حیا ت کو سمجھنے کے لئے کا فی ہیں اورچو نکہ انسان روز مرہ کی ان تمام چیزو ں کو دیکھنے کا عا دی ہو چکا ہے، لہٰذ ا ایسے منا ظر کو وہ کو ئی خاص اہمیت نہیں دیتا ،اور بہت ہی آسا ن اور سا دہ سمجھتا ہے ورنہ پیدا ئش کے لحا ظ سے سو کھی ہو ئی گھا س کے دو با رہ سبز ہو نے اور انسان کے مر نے کے بعد دو با رہ زند ہ ہو نے میں کو ئی فر ق نہیں ہے ۔

قر آن مجید نے اس عا دت کو ختم کر نے کے لئے متعدد مر تبہ لو گو ں کی تو جہ مبذو ل کر ا ئی ہے انسان کے دوبارہ زندہ ہونے کو اس سے تشبیہ دی ہے(۱۰) اور ارشاد فر ما تا ہے

( فَانْظُرْ اِلٰی آثاْرِ رَحمَةِ اللَّهِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْ تِهَااِنَّ ذَالِکَ لَمُحیْی ا لمَوْ تٰی وَ هُوْ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍ قَدِیْر ) (۱۱)

پس رحمت خدا کے آثا رکو غو ر سے دیکھو کہ کیسے زمین کو مر دہ ہو نے کے بعد زند ہ کر تا ہے بیشک (وہی زمین کا زند ہ کرنے والا )مر دو ں کو دو با رہ زند ہ کر تا ہے اور وہ ہر چیز پر قا در ہے

(ب)اصحا ب کہف کا سو نا۔

قر آن مجید اصحا ب کہف کی عجیب و غریب دا ستا ن کو بیان کر نے کے بعد ار شا د فر ما تا ہے۔

( وکَذَلِکَ اَعْثَرْ نَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حق وَأَنَّ السَّا عَةَ لَارَیْبَ فِیْهَا ) )(۱۲) او ر اس طر ح ہم نے قو م کو ان کے ( اصحا ب کہف ) حا لا ت پر مطلع کر دیا، تا کہ انہیں معلو م ہو جا ئے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیا مت آ ئے گی، اس میں کسی طر ح کا شک و شبہہ نہیں ہے ۔

حقیقتا ایسا عجیب و غریب حا دثہ کہ چند افر اد صد یو ں ( شمسی اعتبا ر سے تین سو سال اور قمر ی لحا ظ سے تین سو نو سا ل ، سو تے رہیں ،اور اس کے بعد بیدا ر ہو جا ئیں، انسان کو قیا مت کی طرف متو جہ کر نے اور یہ وا ضح کر نے کے لئے کہ قیامت کا وقو ع قریب قیا س ہے اور بعید نہیں ہے نہا یت مو ثر ا ور کا میا ب ہے کیو نکہ انسان کا سو نا مو ت کے مثل ہے ( النوم اخ المو ت) ( سو نا مو ت کا بھا ئی ہے ) اور جا گنا اسی کی حیا ت کے ما نند ہے جو مو ت کے بعد حا صل ہو، لیکن نیند کے عالم میں یا سو نے کی حا لت میں عموماً انسان کا جسم اپنے فطر ی اور طبیعی حا لت ( زندگی کے آثا ر کے سا تھ بیولوجیک ) پر بر قرا ر رہتا ہے اور رو ح کا جسم میں واپس آنا کو ئی تعجب خیز ،با ت نہیں ہے لیکن اگر یہی جسم تین سو سال سو تا رہے او ر وہ بھی بغیر آب و دا نہ کے تو ایسی صو رت میں بدن کے فطری نظام میں خلل پڑ جا نا چا ہیے اور اس جسم کو تباہ و برباد ہو جا نا چا ہیے اور روح کو دو با رہ اس میں آنے کی صلا حیت کھو دینا چا ہیے، لیکن یہ غیر معمو لی معجزہ الہٰی انسان کی فکر کو اس معمو لی نظا م کے پسِ پر دہ دوسری حقیقت کی طرف متو جہ کر تا ہے جس کا مفہو م یہ ہے کہ رو ح کا جسم میں دو با رہ پلٹ کر آنا، ہمیشہ عا دی اور معمو لی اسباب و شر ائط کے ہو نے یا نہ ہو نے کا محتا ج نہیں ہے لہذا انسان کی دو سری زندگی بھی اگر چہ اس طبیعی اور فطر ی نظام کے خلا ف ہی کیو ں نہ ہو کو ئی مما نعت نہیں رکھتی وعدئہ پر ور دگا ر کے مطا بق محقق ہو کر رہے گی۔

(ج) حیو انا ت کا زندہ ہو نا ۔

اسی طر ح قرآن کر یم غیر عادی طر یقہ سے زند ہ ہو نے وا لے چند حیو انو ں کی طرف بھی اشا رہ کر رہا ہے جن میں سے وہ چا ر پر ندے ہیں جو حضرت ابرا ہیم ـ کے ہا تھو ں زندہ ہو ئے تھے(۱۳) دوسرے وہ ( گد ھا جس پر جنا ب عزیر سوا ر ہو تے تھے ) اس کے بھی دو با رہ زند ہ ہو نے کی طر ف قرآن نے اشا رہ کیا ہے اور جب حیو ان کا زندہ ہو نا ممکن ہے تو انسان کا زندہ ہو نا بھی نا ممکن نہیں ہو گا

(د)اسی دنیا میں بعض انسانوں کا زندہ ہو نا ۔

سب سے زیا دہ مہم با ت یہ ہے کہ بعض افر اد اسی دنیا میں دو با رہ زیو رِ حیا ت سے آرا ستہ ہو ئے ہیں کہ جس کے چند نمو نے خو د قر آن مجید نے بیان فر ما ئے ہیں، انھیں افرا د میں سے ایک بنی اسرا ئیل کے نبی ہیں جو ایک سفر کے دو ران ایک ایسے قریے سے گذرے، جہا ں کے لو گ ہلا ک اور نا بو د ہو چکے تھے ،اور ان کے آثا ر فنا ہو چکے تھے جب آپ کی نظر ان افرا د پر پڑی تو بے سا ختہ ذہن میں یہ خیا ل پیدا ہو ا کہ یہ افرا د دو با رہ کیو ں کر زند ہو سکتے ہیں ؟اسی اثنا میں پر ور دگا ر نے ان کی رو ح قبض کر لی، اور پو رے سو سال کے بعد دو با رہ زندہ کیا ،اور ان سے سوال کیا کہ تم اس مقام پر کتنا سوئے ؟وہ جو کہ گو یا ابھی سو کر جا گے تھے بو لے ایک روز ، یا اس سے بھی کچھ کم، خطا ب ہو ا نہیں بلکہ تم کو یہا ں پر سو سال ہو گئے دیکھو ایک طر ف تمہا ر ا آب و دا نہ با لکل صحیح و سا لم ہے لیکن دوسری طر ف تمھا رے گد ھے کا کیا حا ل ہے جس کی ہڈیاں بکھری ہو ئی ہیں !اب صر ف یہ دیکھو کہ ہم کیسے ان ہڈ یو ں کو آپس میں جو ڑتے ہیں اور اس پر گو شت چڑھا تے ہیں اور اسے دو با رہ زندہ کر دیتے ہیں(۱۴) ؟!

دوسر واقعہ :

بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جس نے حضرت مو سیٰ ـ سے کہا کہ جب تک ہم خدا کو اپنی آنکھو ں سے نہ د یکھ لیں گے، ہر گز ایما ن نہیں لا ئیں گے، لہٰذا خدا نے انھیں آسما ن سے ایک بجلی گر ا کر ہلا ک کر دیا لیکن پھر حضرت مو سیٰ کی در خو است پر خدا نے انھیں دو با رہ زند ہ کر دیا(۱۵) ۔

ایک اور واقعہ بنی اسرا ئیل کا یک شخص حضرت مو سی ٰ کے زما نے میں قتل کر دیا گیا تھا اور ذبح کی ہو ئی گا ئے کے ایک حصے کو اس سے مس کیا گیا اور وہ زندہ ہو گیا اس کی تفصیل سو رئہ بقرہ میں مو جود ہے نیز اس سو ر ہ مبا رکہ کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے پھر ار شا د ہوا۔

( کذَلِکَ یُحیِ اللَّهُ المَوْ تَیٰ وَ یُرِ یْکُمْ آیَا تِهِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ) )(۱۶)

اسی طر ح خدا مر دوں کو زندہ کر تا ہے اور اس کی نشا نیو ں کو تمھا رے سامنے رکھتا ہے تاکہ شا ید تمھیں کچھ عقل آجا ئے ۔

اور اسی طر ح حضرت عیسیٰ کے معجزے کے ذریعہ(۱۷) بعض مر دوں کا زندہ ہو نا،یہ وہ نمو نے ہیں جن کو قیا مت کے وقوع کے امکا ن کے سلسلے میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔

سوا لا ت :

١۔ قرآن قیا مت کا انکا ر کر نے وا لو ں کے سا تھ کس طر ح پیش آتا ہے ؟ بیان کیجئے ؟

٢۔سبزہ کا اگنا انسان کے دو با رہ قیا مت میں زندہ ہو نے سے کیا شبا ہت رکھتا ہے؟اس سے متعلق قر آن کا کیا بیان ہے ؟

٣۔ اصحاب کہف کی داستان سے،قیامت سے متعلق کون سا نکتہ سمجھ میں آتا ہے؟

٤۔حضرت ابراہیم کے ہاتھوں پرندوں کے زندہ ہونے کو بیان کرتے ہوئے قیامت کے موضوع سے اس کے رابطہ کو بیان کیجئے؟اور شرح پیش کیجئے؟

٥۔قرآن مجید میں زندہ ہونے والے میں کن لوگوں کا ذکر موجود ہے؟

____________________

١۔ بقر ہ ۔آیت ١١١ ،انبیا ئ۔ آیت ٢٤ ، نمل۔ آیت ٦٤

٢۔ مو منون ١١٧، نساء ١٥٧ ، انعام ١٠٠ ،١١٩ ،١٤٨ ، کہف ٥ ،حج ٣،٨،٧١ ، عنکبوت ٨،روم ٢٩ ،لقما ن ٢٠، غا فر ٤٢ زخرف ٢٠ نجم ٢٨ ،

٣۔چاثیہ ٢٤، ٤ ۔ قصص ٣٩ ، کہف ٣٦ ،ص ٢٧ جا ثیہ ٣٢ ، انشقاق ١٤، ٥ ۔قیا مت ٥

۶۔روم ۔آیت ١٠، مطفین ١٠ ۔١٤ ،

۷۔ نحل۔آیت ٣٨

۸۔ ھود ۔ آیت ٧ ، اسراء ۔آیت ٥١ ،صا فا ت ۔آیت ١٦، ٥٣، دخان۔آیت٣٤،احقاف۔آیت١٨

۹۔ وہ امو ر جو ایک دو سرے کے ما نند ہیں حکم واحد کا درجہ رکھتے ہیں خواہ امکان کا حکم ہو یا عدم امکا ن کا حکم

(حکم الا مثال فی ما یجوز و ما لا یجو ز واحد)

۱۰۔ اعرا ف ٥٧ ، حج ٥۔٦ ، روم ١٩ ،فا طر ٩ فصلت ١٩ زخرف ١١ ،ق ١١ ،

۱۱۔ روم ٥٠

۱۲۔کہف ۔ آیت ٢١

۱۳۔بقرہ۔ آیت ٢٦٠

۱۴۔ بقرہ ۔ آیت ٢٥٩

۱۵۔ سورہ بقرہ ۔آیت٥٥،٥٦

۱۶۔سورہ بقرہ ۔آیت٦٧،٧٣

۱۷۔آل عمران۔آیت٤٩،مائدہ۔آیت١١٠

چھیا لیسواں درس

منکرین کے شبہات کے لئے قرآن کا جواب

فنا ہونے کے بعد دوبارہ پلٹنے کا شبہ۔

جو مندرجہ ذیل بحثوں پر مشتمل ہے۔

بدن میں دوبارہ حیات پانے کی قابلیت نہ ہونے کا شبہ۔

فاعل کی قدرت کے بارے میں شبہ۔

عالم کے علم کے بارے میں شبہ۔

منکرین قیامت کے مقابلہ میں قرآن کریم نے جو احتجاج کیا ہے اور جو جوابات دئے ہیں ان کے لب ولہجہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قیامت کے انکار کرنے والوں کے ذہن میں پہلے سے یہ سارے شبہات پائے جاتے تھے،جس کو ہم جوابات کی مناسبت سے اس طرح ترتیب دیتے ہیں۔

١۔فنا ہونے کے بعد دوبارہ پلٹنے کا شبہ۔

اس سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ قرآن کریم ان لوگوں کے مقابلہ میں جو یہ کہتے تھے، کہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد در حالیکہ اس کا جسم پاش پاش ہو کر نابود ہو گیا ہے وہ دوبارہ زندہ ہو جا ئے؟جوا ب دیتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے وجود کی شناخت تمہاری روح کے ذریعہ ہے نہ کہ تمہارے بدن کے اعضا وجوارح کے ذریعہ جو زمین میں بکھر جا تے ہے(۱)

اس گفتگو سے اس بات کا استفادہ ہو تا ہے کہ کافروں کے انکار کاسرچشمہ اور اس کا سبب فلسفہ کا وہی شبہہ ہے جیسے'' اعادئہ معدوم محال ،،(فنا ہو جانے والی شی کا پلٹنا محال ہے)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی ان لوگوں کا گمان تھا کہ انسان اسی مادی جسم کو کہتے ہیں جو مرنے کے بعد نابود اور فناہو جاتا ہے لہذا اگر دوبارہ زندہ ہو گا تو وہ کوئی دوسرا شخص ہوگا،کیونکہ اُس موجود کا پلٹنا جو معدوم (نابود،ختم ہو چکا ہو)ذاتاً ممکن نہیں ہے،

اس شبہ کا جواب قرآن کریم کے بیان سے واضح ہو جا تا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنی پہچان اور اُس کی شخصیت اس کی روح سے وابستہ ہے،بلکہ یوں کہا جائے کہ معاد و قیامت،اعادئہ معدوم(فناشی کا پلٹنا)نہیں ہے،بلکہ اُس موجود کی روح کی بازگشت کا نام ہے۔

٢۔بدن میں دوبارہ حیات پانے کی صلاحیت نہ ہونے کا شبہ۔

پہلا شبہ قیامت کے امکان ذاتی سے مربوط تھا اور یہ شبہہ اس امکان وقوعی سے متعلق ہے(یعنی آیا ایسا واقع ہونا ممکن ہے)یعنی اگرچہ بدن میں روح کا پلٹ آنا عقلی لحاظ سے محال اور نا ممکن نہیں ہے اور فرض کرنے کی صورت میں کوئی تناقض نہیں پایاجاتا، لیکن اس کا واقع ہونا بدن کی قابلیت و صلاحیت کے اُوپر موقوف ہے کہ جس کو آستہ آستہ تدریجی صورت میں فراہم ہونا چاہیے،مثلاً رحم میں ایک نطفہ قرار پائے اور اس کے رشد و نمو کی ساری مناسب شرطیں مہیا ہوں ،تاکہ وہ آہستہ آہستہ مکمل جنین کی شکل اختیار کرلے، اور ایک انسان کی صورت میں بدل جائے،لیکن وہ بدن جو گلنے کے بعد ختم ہوگیا ہے اس میں اب حیات کی صلاحیت نہیں پائی جا تی کہ دوبارہ زندہ ہو سکے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ دنیا کا یہ ظاہری نظام صرف ممکن نظام نہیں اور تجربات کی بنیاد پر اس دنیا میں جن اسباب اور علتوں کو پہچانا گیا ہے وہ منحصر و محدود نہیںہیں، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اسی دنیا میں غیر معمولی حوادث وجود میں آئے ہیں، جیسے بعض حیوانوں کا زندہ ہونا یا بعض انسانوں کا زندہ ہونا،قرآن مجید میں مذکورہ بعض غیر معمولی حوادث کے ذریعہ اس جواب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

٣۔ فاعل کی قدرت کے بارے میں شبہ۔

ایک دوسرا شبہ یہ پایا جاتا ہے کہ ایک واقعہ کے وجود میں آنے کے لئے ذاتی امکان اور قابلیت کے علاوہ فاعل کے قدرت کی بھی شرط پائی جاتی ہے،اور یہ کہاں سے ثابت ہے کہ خدا مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے؟

یہ ہے بے بنیاد شبہ ان لوگوں کی ایجاد ہے جو خداکی لامحدود قدرت کو نہیں سمجھ سکے اور اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی قدرت کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے اور ہر ممکن شی سے، اسکا تعلق ہے،جیسا کہ اِس بے کراں عظیم دنیا کو اُس نے پیدا کیا ہے۔

( اَوَلَمْ يَرَواْ أَنَّ اَللّٰهَ اَلَّذِْ خَلَقَ اَلسَّمَواتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَعْ بِخَلْقِهِنَّ بِقَٰدِرٍِِِعَلَیٰ أَن یُحيِیَ المَوتَیٰ بلیٰ اِنَّه عَلَیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیر ) (۲)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں اسے کوئی دقت اور پریشانی نہیں ہوئی وہ خدا مردوں کو دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے،

اس کے علاوہ دوبارہ زندہ کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ سخت بھی نہیں ہے کہ جس میں زیادہ قدرت کی ضرورت پڑے،بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے پہلی خلقت سے آسان ہے کیوں کہ دوبارہ زندہ کرنے میں سوائے روح کے پلٹنے کے اور کچھ نہیں ہے،

(فَسَےَقُوْلُوْنَ مَن ےُعِیِدُ نَا قُلِ الَّذ فَطَرَ کُمْ اَوَّلَ مَرّةٍ فَسَےُنْغِضُوْنَ اِلَیْک رَئُ وسَہُمْ)(۳) ہیں گے کہ کون ہم کو پلٹائے گا(اور دوبارہ زندہ کرے گا)کہدو کہ وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے بس وہ لوگ تمہارے سامنے سر ہلائیں گے(اور اس جواب پر تعجب کریں گے۔

( وَ هُوْ اْلَذِيْ یَبْدَ ئُ الْخَلْقَ ثُمَ یُعِیْدُ هُ وَ هُوَأَهْوَنُ عَلَیْه ) )(۴)

اور وہی ایسا ہے جو خلقت اور پیدا ئش کا آغا زکر تا ہے اور پھر اس کو پلٹا دیتا ہے اور یہ ( پلٹا نا) اس کے لئے بہت آسا ن ہے ۔

٤۔ فا عل کے علم کے با رے میں شبہ۔

ایک اور شبہ یہ ہے کہ اگر خدا وند عالم انسانوں کو زندہ کرے اور اُن کو اُن کے اعمال کی جزا یا سزا دے تو اس کے لئے اُ سے ضروری ہوگا کہ پہلے وہ بے شما ر اجسام کو ایک دوسرے سے الگ کرے تاکہ ہر ا یک کی رو ح کو اسی کے بدن میں داخل کر ئے ، اور دوسری طر ف سا رے اچھے اور برُے کامو ں کو بھی یاد رکھے ،تا کہ اسی کے لحا ظ سے جزا یا سزا تجویزکرے اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ سا رے بدن جو مٹی بن چکے ہیں اور اس کے ذرا ت آپس میں مل گئے ہیں ان کو ایک دو سرے سے جدا کر کے اُس کو پہچا نے ؟اور کیسے ممکن ہے کہ ہز ارو ں بلکہ کر وڑو ں سا ل تک ہر انسان کے اعما ل و رفتار و کردارکا ریکارڈ محفوظ رکھے اور اس کی نظا رت کرتا ہے اور پھر ان سب کا فیصلہ کرے ؟یہ شبہ بھی ان لو گو ں کی ایجا د و اختراع ہے جنھوں نے خدا کے لا محدود علم کو نہیں پچا نا اور خدا کے علم کو اپنے نا قص اور محدود علم پر قیاس کرتے ہیں اور اس کا جو اب یہ ہے کہ خدا کے علم کی کو ئی حدا ور انتہا نہیں ہے اور اس کا علم سا ری چیزوں کو اپنے احا طے میں لئے ہو ئے ہے اور خدا وند عالم کبھی بھی کسی چیز کو فر امو ش نہیں کر تا

قرآن مجید فر عون کے قو ل کو اِس طر ح نقل کر رہا ہے کہ اُس نے حضرت مو سیٰ سے کہا ۔ (فَمَا بَالُ ا لقُرُونِِ الأُولیٰ )اگر خدا ہم سب کو زند ہ کرے اور ہم سب کا حساب و کتاب کرے تو وہ لاکھوں کروڑوں لوگ جو ہم سے پہلے مر گئے اور ختم ہو گئے ان کا کیا ہوگا؟ حضرت موسیٰ نے جواب دیا( عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّ لَا يُضِلُّ رَبِّ وَلَا يَنسی ) ٰ )(۵) ان سب کا علم پروردگار کے پاس کتا ب

میں محفوظ ہے اور میرا خدا گمراہ نہیں ہوتا اور کوئی چیز بھولتا نہیں ہے۔

ایک آیت میں آخر کے دو شبہوں کا جواب اس طرح بیان ہوا ہے۔

( قُْلْ يُحْیٍِِیٍهَا الَّذِْ اَنشَأَ هَا أَوَّ ل مرةٍ وَهُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیْم ) (۶)

(اے پیغمبر)کہدیجئے مردوں کو وہی زندہ کرتا ہے جس نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کو جانتا ہے۔

سوالات:

١۔فناہونے کے بعد دوبارہ پلٹنا محال ہے ، اس شبہ اور اس کا جواب بیان کیجئے؟

٢۔بدن میں دوبارہ حیات پانے کی قابلیت نہ ہونے کا شبہ اور اس کا جواب تحریر کریں ؟

٣۔فاعل کی قدرت سے متعلق شبہ اور اس کا جواب بیان کریں ؟

٤۔فاعل کے علم سے متعلق شبہ اور اس کا جواب ،بیان کریں ؟

____________________

١۔ سجدہ ۔ آیت ١٠ ۔ ١١

۲۔ احقا ف ٣٣، یس ٨١ ، اسراء ٩٩ صا فا ت ۔آیت ١١ ، نا زعا ت ۔آیت٢٧

۳۔ اسرا ء ۔آیت ٥١ عنکبو ت۔ آیت ١٩ ۔٢٠ ،ق ۔آیت١٥ ، واقعہ۔آیت ٦٢ یس ٨٠ حج ٥، قیا مت ٤٠ ،

۴۔ روم۔ آیت ٢٧

۵۔ طہ۔آیت ٥١ ۔٥٢ ، ق۔ آیت ٢۔٤

۶۔ یس۔ آیت ٧٩

سینتالیسواںدرس

قیامت کے بارے میں خدا کا وعدہ

مقدمہ:

خدا کا سچا اور یقینی وعدہ

عقلی دلائل کی طرف اشارہ

مقدمہ

قرآن مجید ایک طرف تو خدا وند عالم کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے بھیجے گئے پیغام کے عنوان سے قیامت کے وقوع پر تاکید کررہا ہے اور اس کو ایک حتمی اور خدا کا سچا وعدہ شمار کرتا ہے، جس میں وعدہ خلافی کا امکان نہیں ہے،اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کررہا ہے،اور دوسری طرف قیامت کی ضرورت پر عقلی دلائل کی طرف اشارہ کررہا ہے، تاکہ لوگوں کی عقلی لحاظ سے قیامت کو پہچاننے کی خواہش پوری کرے اور اپنی حجت کو دو گنا کردے،اس لئے ہم قیامت کے متعلق قرآنی بیانات کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔

خدا کا سچا(حتمی)وعدہ:

قرآن کریم نے قیامت کے آنے اور عالم آخرت میں تمام انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو ایک یقینی اور غیر قابل شک و تردید امر جانا ہے،اور ارشاد فرماتاہے:

( اِنَّ الساعَةَ آتِيَة لَا رَیبَ فِیهَا ) (۱)

ا ور اس کو ایسا سچا وعدہ شمار کیا ہے جس میں خلاف کا تصور نہیں ہو سکتا،اور فرمایا:

( بَلَی وعداً عَلَیهِ حَقاً ) (۲)

اے رسول کہہ دو کہ وہ ضر ور ایسا کرے گا اس پر اپنے وعدہ کی وفا لا زمی اور ضر وری ہے :

اور متعدد مر تبہ اس کے وا قع ہو نے کے سلسلے میں قسمیں کھا چکا ہے جیسا کہ ارشا د ہے

( قُل بَلیٰ وَ رَبّیِ لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بٍما عَمِلتُم وَ ذالِکَ عَلَی اللَّهِ یَسِیر ) (۳)

اے رسول!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم کہہ دو کہ ہا ں اپنے پر ور دگا ر کی قسم تم ضرور اٹھا ئے جائو گے جو کا م تم کر تے ہو اس کے با رے میں تم کو ضرو ر بتایا جا ئے گا اور یہ کام خدا پر آسان ہے ۔

لو گوں کو اس سے ہو شیا ر اور آگا ہ کر نا انبیا ء کا مہم ترین وظیفہ اور ان کی اہم ذمہ داری جا نتے ہو ئے ارشا د فر ما تا ہے:

( یُلقِی الرَّوحَ مِن أَ مرِهِ عَلیٰ مَن یَشَا ئُ مِن عِبَا دِهِ لِیُنذِرَ یَو مَ التَّلاقِ ) )(۴)

اپنے حکم سے رو ح نا زل کر تا ہے تا کہ وہ بند وں کو قیامت کے دن سے ڈرا ئے جس دن وہ لو گ قبر وں سے نکل پڑیں گے ۔

اور اس کے منکرین کے لئے ابدی بد بختی اور جہنم کا عذا ب معین کیا ہے اور فر مایا:

( وَاَعتَد نَا لِمَن کَذَّبَ بِا لْسَّا عَةِ سَعِیْراً ) (۵)

جس شخص نے قیا مت کو جھو ٹ سمجھا اس لئے ہم نے جہنم کو تیا ر کر رکھا ہے ۔

اس بنا پر جو اس کتا ب ( قر آن ) کی حقا نیت تک پہنچُ گیاہے وہ قیا مت کے انکا ر یا اُس میں شک

کر نے کا کو ئی بہا نہ نہیں کر سکتا ،پہلے حصہ میںیہ با ت واضح ہو چکی ہے کہ قرآن مجید کی حقا نیت ہر حق طلب اور انصا ف پسند انسان کے لئے قا بل در ک و فہم ہے اس وجہ سے کو ئی بھی شخص اس کو قبول نہ کر نے کا کو ئی عذر پیش نہیں کر سکتا ،مگر وہ شخص جس کی عقل میں کو ئی قصور پا یا جا تا ہو یا کسی اور سبب سے اس کی حقا نیت کو درک نہ کر سکے ۔

عقلی دلا ئل کی طر ف اشا رہ

قیا مت کی ضرو رت پر قر آن مجید کی بہت سی آیتوں میں عقلی استد لال کا لب و لہجہ پا یا جا تا ہے کہ جس کو بر ہا ن حکمت اور بر ہان عدا لت بر نا ظر مانا جا سکتاہے جیسا کہ استفہامِ انکا ری کی صو رت میں ارشاد ہو رہا ہے :

( اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عبثاً وَأَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَاتُرجَعُوْنْ ) )(۶)

کیا تم نے یہ گما ن کر لیا ہے کہ ہم نے تمھیں بیکا ر پید ا کیا ہے اور تم ہما ری طر ف پلٹا ئے نہیں جا ئوگے ؟یہ آیہ شر یفہ کھلے انداز میں اس با ت پر دلا لت کر تی ہے کہ اگر قیامت اور خدا کی طرف باز گشت نہ ہو تی، تو اس دنیا میں انسان کا پیدا ہو نا بیکا ر اور بے مقصد ہو تا چو نکہ پر ور دگا ر بیکا ر اور بے مقصد کا م انجام نہیں دیتا، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اس دنیا کے علاوہ کوئی دوسری جگہ ہے ،جہان ،اپنی طرف باز گشت کے لئے قائم کرے گا ۔

یہ بر ہا ن ایک استثنا ئی قیاس ہے جس کا پہلا مقد مہ ایک قضیہ شر طیہ ہے جو اس با ت پر دلا لت کرتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے پیدا ہو نے کا حکیما نہ مقصد اس وقت پو را ہو گا، جب اِس دنیا کی زندگی کے بعد انسان اپنے پر ور دگا رکی با ر گا ہ میں پلٹ کر جا ئے اور آخر ت میں اپنے اعما ل کے نتیجے کو حا صل کرے اور ہم نے اس ملا زمہ کو بر ہان حکمت کے ذیل میں بیان کیا تھا لہذا دو با رہ بیان کر نے کی ضر ورت نہیں ہے ۔

لیکن دوسرا مقدمہ ( خدا بیکا ر اور بے مقصد کام انجام نہیں دیتا )یہ وہی حکمت الٰہی اور اس کے کام کے عبث و بیہو دہ نہ ہونے کا مسئلہ ہے جو خدا شناسی کے باب میں ثا بت ہو چکا ہے اور بر ہان حکمت کے بیان میں جس کی وضا حت کی جا چکی ہے، لہٰذا مذکو رہ آیہ شر یفہ مذکو رہ بر ہا ن پر پو ری طر ح قا بل انطباق ہے ۔

اب ہم مزید اس بات اضا فہ کرتے ہیں کہ انسان کی پیدا ئش ،اس دنیا کی پید ائش کے لئے ہد ف غا ئی اور اصلی مقصد کی حیثیت رکھتی ہے اگر اس دنیا میں انسان کی زندگی بیکا ر اور بے ہد ف ہو اور ایسی ہو جس میں کو ئی حکیما نہ مقصد نہ پا یا جا ئے تو اس دنیا کی پیدا ئش بھی بیکا ر ہے ،بے مقصد ہے ، اور وہ با طل ہو جا ئے گی اس نکتہ کا استفا دہ ان آیتو ں سے کیا جا سکتا ہے جو عالمِ آخر ت کے و جو د کو دنیا کی پیدا ئش کے حکیما نہ ہو نے کا تقا ضہ جا نتی ہیں اور جیسا کہ عقلمندوں ( اولو الا لباب) کی صفتوں کے متعلق

ارشا د ہو تا ہے ۔

( وَ یَتَفَکَّرُونَ فِ خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَ رضِ رَ بَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَاْ بَا طِلاً سُبحا نَکَ فَقِنْا عَذَاْ بَ النّا رِ ) (۷)

اور وہ لو گ آسما نو ں اور زمینوں کی خلقت کے با رے میں غور و فکر کرتے ہیں (اور پھر کہتے ہیں ) پر ور دگا ر ! تو نے ان چیزو ں کو بیکا ر نہیں پید ا کیا تو پا ک و پا کیز ہ ہے ( اس چیز سے کہ بیہو دہ و بے مقصدکا م کرے )پس مجھے آتش جہنم سے محفو ظ رکھ ۔

اس آیت سے یہ استفا دہ ہو تا ہے دنیا کی خلقت کے با رے میں غور و فکر کر نا، انسا ن کو پر وردگا ر کی حکمت کی طرف متوجہ کر دیتا ہے یعنی اس عظیم کائنات کی خلقت کے وقت خدا کی نگا ہ میں ایک حکیما نہ مقصد تھا اور ا س نے اس کو بیکا ر و بے مقصد پیدا نہیں کیا لہذا اگر کوئی دوسرا عالم مو جود نہ ہو جو اس دنیا کی خلقت کا آخری مقصد اور ہدف قرا ر پا ئے تو خدا کی خلقت کا بیکا ر بے مقصد ہو نا لارم آئے گاقرآن حکیم کی آ یات کا دوسر ا گر وہ جو قیا مت کی ضر ورت پر بر ہان ِعقلی کی طر ف ایک اشا رہ ہے اور جو بر ہان عدا لت پر قابل تطبیق ہے(۸)

یعنی عدا لتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ نیک اعما ل انجام دینے وا لے کو اس کی جزا اور گنہگا رو ں کو ان کے کئے کا بد لہ دیا جائے اور ان دونوں کی عا قبت اور انجام کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جائے نیز دونوں کے در میان فر ق کا قائل ہو جائے ،اور چو نکہ اس دنیا میں ایسا کوئی فر ق نہیں پا یا جا تا لہٰذا ایک دوسرے عالم کو برپا کرنے کی ضرورت ہو گی، تاکہ خدا وند عالم اپنی عدا لت کو عینی صورت میں پیش کر سکے جیسا کہ سورئہ جا ثیہ میں ارشا د فر ماتا ہے ۔

( اَمْ حَسِبَ الّذِیْنَ اجْتَرحُوا السَّیِّئَاٰتِ اَن نَّجْعَلَهُمْ کَا لّذِیْنَ آمَنُوْ ا وَعَمِلُو ا الصَّا لِحَا تِ سَوَآئً مَّحْیَا هُمْ وَمَمَاتُهُمْ سا ئَ مَا یَحْکُمُو نَ٭ وَخَلَقَ اللَّهُ السَمٰوَاتِ وَاْلََارْضَ باِ لْحَقِّ لِتُجْزَیٰ کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَت وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ) )(۹)

کیا برا ئی اختیا ر کر نے والوںنے یہ خیا ل کر لیا ہے کہ ہم انھیں ایما ن لا نے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرا ر دیں گے کہ سب کی مو ت وحیا ت ایک جیسی ہو یہ ان لو گو ں نے نہا یت بد ترین فیصلہ کیا ہے، اور اللہ نے آسما ن اور زمین کو حق کے سا تھ پید ا کیا ہے اوراس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بد لہ دیا جا سکے اور یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جا ئیگا ۔

یاد دہا نی کے لئے ضر وری ہے کہ جملہ(وَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمٰوَاْتِ وَالْارَضََ باِ لْحَقِّ) سے بر ہان حکمت کی طر ف اشا رہ ہے جیسا کہ بنیا دی طور سے بر ہانِ عدالت کو بھی بر ہان ِحکمت کی طر ف پلٹا یا جا سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ ہم نے عدل الٰہی کی بحث کے ذیل میں وضاحت کی تھی کہ عدل حکمت کے مصا دیق میں سے ہے ۔

سوا لا ت:

١۔ قران کریم قیامت کو کیسے ثا بت کر رہا ہے اورلو گو ں پر اپنی حجت کیسے تمام کرتاہے ؟

٢۔ بر ہانِ حکمت کی طرف کو نسی آ یات اشا رہ کر رہی ہیں ؟ان کے استقلال کو بیان کیجئے؟

٣۔ بر ہان ِعدا لت کی طرف کو نسی آیا ت اشا رہ کر رہی ہیں ان کے استد لال کو بیان کیجئے ؟

٤۔ بر ہان ِعدالت کو بر ہان ِحکمت کی طر ف کس طر ح پلٹا یا جا سکتا ہے ؟

____________________

١۔ غا فر ٥٩ اور رجوع کریں آل عمران ٩،٢٥ ،نسائ ٨٧ ، نعام ١٢ کہف ٢١ حج ٧ شوریٰ ٧ ،جا ثیہ ٢٦ ،٣٢ ،

۲۔نحل ٣٨ ،آل عمران ٩،١٩١ ، نساء ١٢٢، یو نس ٤،٥٥، کہف ٢١ ، انبیا ء ١٠٣ ، فر قان ١٦ ، لقمان ٩، ٣٣،فا طر ٥ زمر ٢٠ نجم ٤٧ ،جا ثیہ ٣٢ احقاف ١٧ ،

۳۔ تغا بن ٧، یو نس ٥٣ ،سبا ٣ ،۔

۴۔غا فر ١٥ ، انعام ١٣٠ ، ١٥٤، رعد ٢ شوریٰ ٧، زخرف ٦١ زمر ٧١

۵۔فر قان ١١ ، اسراء ١٠ ، سباء ٨، مو منون ٧٤،

۶۔مو منون ١١٥،

۷۔ آل عمران ١٩١

۸۔ ص ٢٨ ،غا فر ٥٨ قلم ٣٥ ، یو نس ٤

۹۔جا ثیہ ٢١۔٢٢