تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31868
ڈاؤنلوڈ: 2948


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31868 / ڈاؤنلوڈ: 2948
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

مومن قریش حضرت ابو طالب (علیه السلام) پر ایک بہت بڑی تہمت

اوپر والی آیت کی تفسیر میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت ان بحثوں سے متعلق ہے جو ہٹ دھر مشرکین اور پیغمبر کے سخت ترین دشمنوں میں ہے ” ھم “کی ضمیر عربی ادب کے قواعد کے مطابق ان لوگوں کی طرف لوٹی ہے جن کے بارے میں اس آیت میں بحث کی گئی ہے یعنی وہ متعصب کافر جو پیغمبر کی دعوت کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے اور آزارپہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے تھے ۔

لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم اہل سنت کے بعض مفسرین میں عربی ادب کے تمام قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دوسری آیت کو پہلی آیت سے علحیدہ کرکے اسے حضرت ابوطالب(علیه السلام) یعنی امیرالمومنین علی (علیه السلام) کے والد کے لئے قرار دے دیا کرتے ہیں ، وہ آیت کا اس طرح معنی کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو پیغمبر اسلام کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے دور رہتے ہیں( وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْاٴَوْنَ عَنْهُ ) ۔

اور وہ قرآن کی کچھ اور آیات کہ جن کے بارے میں ان کے اپنے مقام پر اشارہ ہوگا مثلا سورہ توبہ کی آیت ۱۱۴ اور سورہ قصص کی آیت ۵۶ کو بھی اپنے مدعا پر گواہ قرار دیتے ہیں ۔

لیکن تمام علماء شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علما مثلا ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ نے اور قسطلانی نے ارشاد الساری میں اور زینی دحلان نے سیرة حلبی کے حاشیہ میں حضرت ابو طالب کو مومنین اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے، اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اورحیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب ایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے مہری اور اتہام کا محل کیون قرار پاگئے ہیں ؟

جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بار ہا خود اپنے آپ کو اور اپنے فرزندکو اسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے موقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے ۔

یہی سبب ہے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابو طالب کے مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ ہے جو شجرہ خبیثہ بنی امیہ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیدا ہوئی ہے ۔

کیوں کہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ ایسے حملہ کی زد میں آئی ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے نزدیکی رکھتا ہے ایسے ناجوانمردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام جیسے عظیم پیشوا اسلام کے باپ تھے ۔

ہم یہا ں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں ، تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

۱ ۔ حضرت ابو طالب پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی بعثت سے پہلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجہ مقام نبوت تک پہنچے گا کیوں کہ مورخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابو طالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سال کے بھتیجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ، اس سفر میں انھوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں ، ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جو نہی قافلہ بحیرا نامی راہب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا اور تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے تو راہب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد پر جم کر رہ گئیں ، جن کی عمر اس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔

بحیرا نے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدررہنے اور گہری اور پر معنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا: یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟ لوگوں نے ابو طالب کی طرف اشارہ کیا، انھون نے بتا یا کہ یہ میرا بھتیجہ ہے ۔

”بحیرا“ نے کہا: اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں میں خبر دی ہے اور میں نے اس کی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہے(۱) ۔

ابو طالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔

اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اہل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کے قحط سالی نے لوگوں کا رخ کیاتو ابو طالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوار ہی تھے لایا جائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی پوتڑے میں لپٹا ہوا تھا انھیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے:پروردگارا، اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما، کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجدالحرام ہی ویران نہ ہوجائے ، اس کے بعد شہرستانی لکھتا ہے کہ یہی واقعہ جو ابوطالب کے اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے ۔

وابیض یستقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامی عصمة للارامل۔

”وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برستے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “۔یلوذ به الهلاک من آل هاشم فهم عنده فی نعمة وفواضل ۔

”بنی ہاشم میں سے جو چل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں “۔

ومیزان عدل لا یخیس شعیرة ووزان صدق وزن غیر هائل ۔

”وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جو برابر بھی ادھر ادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کاایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے“۔

قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے،علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب”الغدیر“ میں ”شرح بخاری“ ”المواہب اللدنیہ“ ”الخصائص الکبری“ ”شرح بہجة المحافل“ ”سیرہ حلبی“ ”سیرہ نبوی“ اور”طلبتة الطالب “ سے نقل کیا ہے(۲) ۔

۲ ۔ اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں ابو طالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ، ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں :۔واللّٰه لن یصلوا الیک بجمعهم حتی اوسد فی التراب دفینا ۔

”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابطالب مٹی میں نہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنا لے دشمن ہرگز ہر گز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“۔

فاصدع بامرک ما علیک غضا ضة وابشر بذاک وقر منک عیونا ۔

”لہٰذا کسی چیز سے نہڈر اور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاغ کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا لے“۔

ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا

”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندونصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہی“۔

ولقد علمت ان دین محمد (ص) من خیر ادیان البریة دینا (۳) ۔

”میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اورمکتبوں میں سب سے بہتر ہے“۔

اور یہ اشعار بھی انھوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں :الم تعلموا ان وجدنا محمدا رسولا کموسی خط فی اول الکتب

”اے قریش کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ محمد موسیٰ علیہ السلام کی مثل ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشن گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیا ہے“۔

وان علیه فی العباد محبة ولا حیف فی من خصه اللّٰه فی الحب (۴)

”خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وندتعالیٰ نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے لگاؤ بے موقع نہیں ہے“۔

ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کا فی اشعار نقل کرنے کرنے کے بعد(کہ جن کا مجموعہ کو ابن شہر آشوب نے ”متشابہاة القران“میں تین ہزار اشعار کہا ہے) کہتا ہے :

ان تمام اشعار کے تمام مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے ۔

۳ ۔ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نیت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت کی ان کے فداکار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں ، منجملہ ان کے کتاب”ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابو طالب (علیه السلام) کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے زمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے :

وابتاه! واباطالباه! واحزناه علیک ،کیف اسلو علیک یا من ربیتنی صغیر-واجبتنی کبیرا،وکنت عندک بمنزلة العین من الحدقه والروح من الجسد(۵)

ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں ، کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں ۔

نیز آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے:”ما نالت منی قریشا شیئا اکرهه حتی مات ابو طالب(۶)

”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف نہ پسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابو طالب کی وفات نہ ہوگی“

۴ ۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم کو ابو طالب کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ، اس کے باوجود ابو طالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہر محبت کا اختیار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حد تک مہر ومحبت رکھیں ۔

۵ ۔ ان احادیث میں بھی کہ جو اہل بیت پیغمبر کے طرق سے ہم تک پہنچی ہیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑے کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں ، کہ جن کا یہاں نقل کرنا طول کا باعث ہوگا، یہ احادیث منطقی اور عقلی استدلال کی حامی ہیں ، ان میں سے ایک حدیث جو چھوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

ان هنا قوما یزعمون انه کافر اس کے بعد فرمایا:۔

واعجبا کل العجب ایطعنون علی ابی طالب او علی رسول اللّٰه (صلّی اللّٰه علیه وآله وسلّم) وقد نهاه اللّٰه ان تقر مومنة مع کافر غیر آیة من القرآن ولا یشک احد ان فاطمة بنت اسد (رضی اللّٰه تعالیٰ عنها) من المومنات الساباقت فانها لم تزل تحت ابی طالب حتی مات ابو طالب رضی اللّٰه عنه

”یعنی تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہین کہ ابوطالب کافر تھے، کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ کس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں ، کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیا ت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابو طالب کی وفات تک رہیں “(۷)

۶ ۔ان تما باتوں کو چھوڑتے ہوئے اگر ہر چیز میں ہی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے درجہ اول کے حامی ومددگار تھے، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے نتھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب (علیه السلام) کی داستان ہے، تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی ،سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلیے تو آنحضرت کے واحد حامی اور مدافع ابوطالب (علیه السلام) اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درے کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور شعب ابوطالب (علیه السلام) کے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سکونت اختیار کرلی، ان کی فداکاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کے لئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیر کرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزنددلبند علی (علیه السلام) کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی (علیه السلام) کہتے ، بابا جان ! میں تو اس حالت میں قتل ہوجاؤں گا تو ابوطالب (علیه السلام) جواب میں کہتے: میرے پیارے بچے بردباری اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو ، ہر زندہ موت کی طرف رواں دواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبداللہ (علیه السلام) کا فدیہ قرار دے دیا ہے، یہ بات اور بھی طالب توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان !میرا یہ کلام اس بنا پر نہیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل ہونے سے ڈرتا ہوں ، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گذار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت کے و مدد کے لئے آمادہ وتیار ہوں ۔(۸)

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب(علیه السلام) کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑھے

گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہمصدا ہوکر کہے گا:

ولولا ابوطالب وابناه لما مثل الدین شخصا وقاما

فذاک بمکة آوی وحامی وهذا بیثرب جس الحماما(۹)

”اگر اابو طالب اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگز دین ومکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قد سیدھا نہ کرتا ۔

ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور علی (علیه السلام) یثرب(مدینہ)میں حمایت اسلام کی راہ گرداب موت میں ڈوب گئے“۔

____________________

۱-تلخیص از سیرہ ابن ہشام جلد ۱، صفحہ ۱۹۱،اور سیرہ حلبی، جلد اول، صفحہ ۱۳۱، اور دیگر کتب۔

۲۔ الغدیر جلد ہفتم،صفحہ ۳۴۶۔

۳۔و۴۔ خزانة الادب، تاریخ ابن کثیر، شرح ابن ابی الحدید، فتح باری، بلوغ الادب، تاریخ ابوالفدا، سیرة نبوی و----(یہ حوالہ جات الغدیر جلد ۸ کے مطابق درج کئے گئے ہیں ) ۔

۵۔ ”شیخ الاباطح“ بنقل از ابوطالب مومن قریش۔

۶۔طبری : مطابق نقل ابوطالب مومن قریش۔

۷۔کتاب الحجہ، درجات الرفیعہ بنقل از الغدیر،جلد ۸۔ ۸۔ الغدیر،جلد ۸۔

۹-الغدیر، جلد ۸۔

آیات ۲۷،۲۸

۲۷( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقَالُوا یَالَیْتَنَا نُرَدُّ وَلاَنُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

۲۸۔( بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا کَانُوا یُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ۔

ترجمہ:

۲۷ ۔اگر تم (ان کی حالت) دیکھو جس وقت وہ آگ کے سامنے کھڑے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش ہم (دوبارہ دنیا کی طرف )پلٹ جاتے اور اپنے پرور دگار کی باتوں کی تکذیب نہ کرتے اور مومنین میں سے ہوجاتے ۔

۲۸ ۔ (وہ واقع میں پشیمان نہیں ہیں )بلکہ ان کے وہ اعمال ونیات جنھیں وہ پہلے چھپائے ہوئے تھے ان کے سامنے آشکار ہوں گے (اور وہ وحشت میں پڑ گئے ہیں ) اور اگر وہ پلٹ جائےں تو وہ پھر انھیں اعمال کی طرف پلٹ جائیں گے جن سے انھیں روکا گیا ہے ،اور وہ یقینا جھوٹے ہیں ۔

وقتی اور بے اثر بیداری

گذشتہ دو آیات میں مشرکین کی ہٹ دھرمی کے کچھ اعمال کی طرف اشارہ ہوا تھا اور وہ ان دو آیات میں ان کے اعمال کے نتائج کا منظر مجسم ہوا ہے تاکہ وہ دیکھ لیں کہ انھیں کیسا برا انجام درپیش ہے اور وہ بیدار ہوجائےں یا کم از ک ان کی کیفیت دوسروں کے لئے باعث عبرت۔

پہلے فرمایا گیاہے: اگر تم ان کی حالت جب وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ کے سامنے کھڑے ہوں گے، دیکھو، تو تم تصدیق کرو گے کہ وہ کس دردناک انجام وعاقبت میں گرفتار ہوئے ہیں( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ ) (۱) ۔

وہ اس حالت سے اس طرح منقلب ہوں گے کہ دادوفریاد کریں گے کاش اس سرنوشت شوم سے نجات اور برے کاموں کی تلافی کے لئے دوبارہ دنیا میں پلٹ جاتے، اور وہاں آیات خدا کی تکذیب نہ کرتے اور مومنین کی صف میں قرار پاتے( فَقَالُوا یَالَیْتَنَا نُرَدُّ وَلاَنُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) (۲)

بعد والی آیت میں کہا گیا ہے کہ یہ جھوٹی آرزو ہے بلکہ یہ اس بنا پر ہے کہ اس دنیا میں جو عقائد ،نیتیں اور اعمال انھوں نے چھپا رکھے تھے وہ سب ان کے سامنے آشکار ہوگئے ہیں اور وہ وقتی طور پر بیدار ہوئے ہیں ( بَلْ بَدَا لھُمْ مَا کَانُوا یُخْفُونَ مِنْ قَبْل) ۔

لیکن یہ پائیدار اور محکم اور بیداری نہیں ہے، اور مخصوص حالات میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا اگر بغرض محال وہ دوبارہ اس جہاں می پلٹ بھی جائیں تو انھیں کاموں کے پیچھے لپکے گے جن سے انھیں روکا گیا ہے( وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ ) ۔

اس بنا پر وہ اپنی آرزو اورمدعا میں سچے نہیں ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں( وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ۔

____________________

۱۔اس بنا پر ”لو“ بمعنی شرط ہے اور اس کی جزاو وضاحت کی وجہ سے محذوف ہے ۔

۲۔اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ کرنا چاہئے کہ ”مشہور قرائت کے مطابق جو دسترس میں ہے“ ”نرد“ رفع کے ساتھ اور ”لانکذب“ اور ”نکون“ نصب کے ساتھ پڑھا گیا ہے، حالانکہ ظاہرا ایک دوسرے پر معطوف ہیں لہٰذا تمام کو ایک جیسا ہونا چاہےے، اس کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ ”نرد“ جزاء تمنی ہے اور ”لانکذب“ حقیقت میں اس کا جواب ہے اور ”واو “ یہاں منزلہ ”فاء “ کے ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ تمنی کا جواب جب ”فاء“ کے بعد ہو تو منصب ہوتا ہے، فخرالدین رازی،مرحوم طبرسی، اور ابوالفتوح رازی جیسے مفسرین نے اس کی اور وجوہ بھی ذکر کی ہیں ، لیکن جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ سب سے زیادہ واضح ہے اس بنا پر آیت سورہ ”زمر“ کی آیہ ۵۸ کے مثابہ ہے جو ااس طرح ہے: لو ان لی کرة فاکون من المحسنین“۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”بدالهم “(ان کے لئے آشکار ہوا) سے ظاہرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقائق کے ایک سلسلہ کو نہ صرف لوگوں سے بلکہ خود اپنے آپ سے بھی مخفی رکھتے تھے جو قیامت کے دن ان پر آشکار ہوجائیں گے اور یہ مقام تعجب نہیں ہے کہ انسان کسی حقیقت کو خود اپنے آپ تک سے بھی مخفی رکھے اور اپنے وجدان اور فطرت پر پردہ ڈال دے تاکہ وہ جھوٹا اطمینان حاصل کرے ۔

وجدان کو فریب دینے کا مسئلہ اور حقائق کو اپنے آپ سے چھپانا اہم مسائل میں سے ہے کہ جس پر وجدان کی فعالیت سے مربوط بحثوں میں خصوصی غور وفکر کیا گیا ہے، مثلا ہم بہت سے ہوس پرست افراد کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہوس آلود اعمال کے شدید نقصان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن اس سبب سے کہ راحت کے خیال سے اپنے اعمال کو جاری رکھیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس آگاہی کو اپنے اندر ہی چھپائیں رکھیں ۔

لیکن بہت سے مفسرین نے لفظ ”لہم“ کی تعبیر کی طرف کےے بغیر آیت کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ وہ ایسے اعمال پر منطبق ہو کہ جنھیں وہ لوگوں سے مخفی رکھتے تھے (غور کیجیے) ۔

۲ ۔ ممکن ہے کہا جائے کہ آرزو کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس میں جھوٹ یا سچ ہو اور وہ اصطلاح میں ”انشاء“ کی ایک قسم اور ”انشاء“ میں جھوٹ یا سچ کا وجود ہی نہیں ہوتا لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیوں کہ بہت سے”انشاء “ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کسی خبر کا مفہوم بھی موجود ہوتا ہے، جن میں صدق یا کذب کی گنجائش ہوتی ہے مثلا بعض اوقات پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری تمنا یہ ہے کہ خدا مجھے بہت سا مال دے تو میں تمھاری مدد کروں ، یہ ایک آرزو ہے ، لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر خدا مجھے ایسا مال دیدے تو مجھے میں تمھاری مدد کروں گا اور یہ ایک خبری مفہوم ہے، جو ہوسکتا ہے جھوٹا ہو، لہٰذا مد مقابل جو اس کی بخل اور تنگ نظری سے آگاہ ہے کہتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اگر خدا تجھے دے بھی دے تو پھر بھی تو ہرگزایسا نہیں کرے گا(ایسی صورت بہت سے انشائی جملوں میں نظر آتی ہے) ۔

۳ ۔ یہ جو ہم آیت میں پڑھتے ہیں کہ اگر وہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں تو دوبارہ وہی کام کرنے لگے گے، یہ اس بنا پر ہے کہ بہت سے لوگ جس وقت اپنی آنکھ سے اپنے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں ،یعنی مرحلہ شھود کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ وقتی طور پر پریشان اور پشیمان ہوکر یہ آرزو کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اعمال کی تلافی کرسیکں ، لیکن یہ ندامت اور پشیمانیاں جو اسی حال شھود اور اعمال کا نتیجہ دیکھنے سے مربوط ہے، ناپائیدارہوتی ہے جو تما لوگوں میں عینی سزاؤں کا سامنا کرتے وقت پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن جب مشاہدات عینی برطرف ہوجاتے ہیں تو یہ خاصیت بھی زائل ہوجاتی ہے اور سابقہ کیفیت پلٹ آتی ہے ۔

انھیں بت پرستوں کی طرح کہ جو سمندر کے سخت طوفانوں میں گرفتارہونے پر اور خود کو موت اور فنا کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ کر خدا کے سوا تمام چیزیں بھوکل جاتے ہیں لیکن جو نہی طوفان رکتا ہے اور وہ امن وامان کے مسائل تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر تمام چیزیں اپنی جگہ پلٹ آتی ہیں(۱) ۔

۴ ۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا حالات بت پرستوں کی ایک خاص جماعت کے ساتھ مخصوص ہے کہ جن کی طرف گذشتہ آیات میں اشارہ ہو چکا ہے، یہ نہیں کہ سب بت پرست ایسے تھے، لہٰذا پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم اس بات پر مامور تھے کہ باقی تمام کو پند ونصیحت کریں ، انھیں بیدار کریں اور ہدایت کریں ۔

____________________

۱۔ یونس، ۲۲-