اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی0%

اصول دين سے آشنائی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دين سے آشنائی

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20782
ڈاؤنلوڈ: 2978

تبصرے:

اصول دين سے آشنائی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20782 / ڈاؤنلوڈ: 2978
سائز سائز سائز
اصول دين سے آشنائی

اصول دين سے آشنائی

مؤلف:
اردو

تو حید ذات و صفات:

یعنی خدا کے صفات ذاتی ہیں، جیسے حیات، علم، قدرت عین ذات ہیں، و گرنہ ذات و صفت جدا جدا ہونا تجزیہ و ترکیب کا باعث ہوگا، وہ جو اجزاء سے مرّکب ہوگا وہ جو اجزاء سے مرکب ہو وہ اپنے اجزا کا محتاج ہوگا، (اور محتاج خدا نہیں ہوسکتا)

اسی طرح اگر صفات کو ذات سے جدا مان لیں تو لازم یہ آتا ہے وہ مرتبہ ذات میں فاقد صفات کمال ہو، اور اس کی ذات ان صفات کے امکان کی جہت پائی جائے، بلکہ خود ذات کا ممکن ہونا لازم آئے گا، کیونکہ جو ذات صفات کمال سے خالی ہو اور امکان صفات کی حامل ہو وہ ایسی ذات کی محتاج ہے جو غنی بالذات ہو۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کی سب سے پهلی عبادت اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔اور اصل معرفت خدا کی وحدانیت کا اقرار ہے، اور نظام توحید یہ ہے کہ اس کی صفات سے صفات کی نفی و انکار کرنا ہے،

(زائد بر ذات) اس لئے کہ عقل گواہی دیتی ہے کہ ہر صفت اور موصوف مخلوق ہوتے ہیں، اور ہر مخلوق کا وجود اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے، جو نہ صفت ہے اور نہ موصوف۔ (بحار الانوار، ج ۵۴ ، ص ۴۳)

توحید در الوہیت:

( وَإِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَإِلَهَ إِلاَّ هو الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) (سورہ بقرہ، آیت ۱۶۳)

”تمهارا خدا خدائے واحد ہے کوئی خدا نہیں جز اس کے جو رحمن و رحیم ہے“۔

توحید در ربوبیت:

خداوندعالم کا ارشاد ہے:

( قُلْ ا غََٔيْرَ اللهِ ا بَْٔغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ ) (سورہ انعام، آیت ۱۶۴)

”کہو کیا الله کے علاوہ کسی دوسرے کو رب بنائیں حالانکہ کہ وہ ہر چیز کا پروردگار ہے“۔

( ا ا رَْٔبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ ا مَْٔ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) (سورہ یوسف، آیت ۳۹)

”آیا متفرق و جدا جدا ربّ کا ہونا بہتر ہے یا الله سبحانہ کا جو واحد اور قهار ہے“۔

توحید در خلق:

( قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) (سورہ رعد، آیت ۱۶)

”کہہ دیجئے کہ الله ہر چیز کا خالق ہے اور وہ یکتاقهار ہے“۔

( وَالَّذِینَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَيَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ) (سورہ نحل، آیت ۲۰)

”اور وہ لوگ جن کو خدا کے علاوہ پکارا جاتا ہے وہ کسی کو خلق نہیں کرتے بلکہ وہ خلق کئے جاتے ہیں“۔

توحید در عبادت:

یعنی عبادت صرف اسی کی ذات کے لئے منحصر ہے۔

( قُلْ ا تََٔعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَيَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ) (سورہ مائدہ، آیت ۷۶ ۔)”کہ کیا تم خدا کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمهارے لئے نہ نفع رکھتے ہیں نہ نقصان ؟)

توحید در ا مٔر وحکم خدا:

( ا لَٔاَلَهُ الْخَلْقُ وَالْا مَْٔرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ) (سورہ اعراف ، آیت ۵۴ ۔)

”آگاہ ہو جاو صرف خدا کے لئے حکم کرنے و خلق کرنے کا حق ہے بالا مرتبہ ہے خدا کی ذات جو عالمین کا رب ہے“۔

( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّه ) (سورہ یوسف، آیت ۱۰ ۔)”کوئی حکم نہیں مگر خدا کا حکم“۔

توحید در خوف وخشیت:

(یعنی صرف خدا سے ڈرنا)

( فَلاَتَخَافُوهُمْ وَخَافُونِی إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ) (سورہ آ ل عمران، آیت ۱۷۵ ۔)”پس ان سے نہ ڈرو اگر صاحبان ایمان ہو تو مجه سے ڈرو“۔

اس سے متعلق بعض دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔تعدد الٰہ سے خداوند متعال میں اشتراک ضروری قرار پاتا ہے اس لئے کہ دونوں خدا ہیں، اور اسی طرح دونوں میں نقطہ امتیاز کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ دوگانگی تحقق پیدا کرے اور وہ مرکب جو بعض نکات اشتراک اور بعض نکات امتیاز سے مل کر بنا ہو، ممکن ومحتاج ہے۔

۲۔تعدد الہ کا کسی نقطہ امتیاز کے بغیر ہونا محال ہے اور امتیاز، فقدانِ کمال کا سبب ہے۔ فاقد کمال محتاج ہوتا ہے اور سلسلہ احتیاج کا ایک ایسے نکتے پر جاکر ختم ہونا ضروری ہے جو ہر اعتبار سے غنی بالذات ہو، ورنہ محال ہے کہ جو خود وجود کا محتاج وضرور ت مند ہو کسی دوسرے کو وجود عطا کرسکے۔

۳۔خدا ایسا موجود ہے جس کے لئے کسی قسم کی کوئی حد مقرر نہیں کیونکہ ہر محدود، دو چیزوں سے مل کر بنا ہے ، ایک اس کا وجوداور دوسرے اس کے وجود کی حد اور کسی بھی وجود کی حد اس وجود میں فقدان اور اس کے منزلِ کمال تک نہ پہچنے کی دلیل ہے اور یہ ترکیب، اقسامِ ترکیب کی بد ترین قسم ہے، کیونکہ ترکیب کی باقی اقسام میں یا تو دو وجودوں کے درمیان ترکیب ہے یا بود ونمود کے درمیان ترکیب ہے، جب کہ ترکیب کی اس قسم میں بود ونبود کے درمیان ترکیب ہے!! جب کہ خد ا کے حق میں ہر قسم کی ترکیب محال ہے۔وہ ایسا واحد وجود ہے جس کے لئے کسی ثانی کا تصور نہیں،

( فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) (سورہ مائدہ، آیت ۴۴ ۔)”لوگوں سے مٹ ڈرو مجه سے ڈرو(خشیت خدا حاصل کرو“۔

توحید در مُلک:

(یعنی کائنات میں صرف اس کی حکومت ہے)

( وَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَکُنْ لَهُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ ) (سورہ اسراء ، آیت ۱۱۱ ۔)”کہو ساری تعریفیں ہیں اس خدا کی جس کا کوئی فرزند نہیں اور ملک میں اس کا کوئی شریک نہیں“۔

توحید در ملک نفع وضرر:

یعنی نفع و نقصان کا مالک وہ ہے)

( قُلْ لاَا مَْٔلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلاَضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ ) (سورہ اعراف، آیت ۱۸۸ ۔)”کہو بس اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں مگر وہ جو الله سبحانہ چاہے“۔

( قُلْ فَمَنْ يَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللهِ شَيْئًا إِنْ ا رََٔادَ بِکُمْ ضَرًّا ا ؤَْ ا رََٔادَ بِکُمْ نَفْعًا ) (سورہ فتح، آیت ۱۱ ۔)”کہو بس کون ہے تمهارے لئے خدا کے مقابل میں کوئی دوسرا اگر وہ تمهارے لئے نفع و نقصان کا ارادہ کرے“۔

توحید در رزق:

(رزاق صرف خدا ہے)

( قُلْ مَنْ يَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضِ قُلْ اللهُ ) (سورہ سباء، آیت ۲ ۴ ۔)”کہو کون ہے جو زمین وآسمان سے تم کو روزی عطاء کرتا ہے کہوخدائے متعال)

( ا مََّٔنْ هَذَا الَّذِی يَرْزُقُکُمْ إِنْ ا مَْٔسَکَ رِزْقَهُ ) (سورہ ملک ، آیت ۲۱ ۔)”آیا کون ہے تم کو روزی دینے والا اگر وہ تمهارے رزق کو روک لے“۔

توحید در توکل:

(بهروسہ صرف خدا کی ذات پر)

( وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلاً ) (سورہ احزاب، آیت ۳۔)”اور الله پر بهروسہ کرو اس کو وکیل بنانا دوسرے سے بے نیاز کردیتا ہے“۔

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هو وَعَلَی اللهِ فَلْيَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) (سورہ ،تغابن آیت ۱۳ ۔)”کوئی خدا نہیں سوائے الله سبحانہ تعالیٰ کے بس مومنوں کو چاہئے خدا پر توکل کریں“۔

توحید در عمل:

(عمل صرف خدا کے لئے)

( وَمَا لِا حََٔدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَی ز إِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْا عَْٔلَی ) (سورہ لیل، آیت ۔ ۲۰ ۔ ۱۹ ۔)”اور لطف الٰهی یہ ہے کہ)کسی کا اس پر احسان نہیں جس کا اسے بدلہ دیا جاتا ہے بلکہ (وہ تو)صرف اپنے عالیشان پروردگار کی خوشنودی حاصل کر نے کے لئے (دیتاہے)

توحید در توجہ :

(انسان کی توجہ صرف خدا کی طرف ہونی چاہئے)

( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضَ ) (سورہ انعام، آیت ۷۹ ۔)”بے شک میں نے اپنے رخ اس کی طرف

موڑ لیا جس نے زمین وآسمان کو خلق کیا“۔

یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو اس راز کو سمجه چکے ہیں کہ دنیا و مافیها سبکچھ هلاک ہوجائے گا۔

( کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ إِلاَّ وَجْهَهُ ) (سورہ قصص، آیت ۸۸ ۔)(کائنات میں)هر چیز هلا ک ہو جائے گی جز اس ذات والاکے“( کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ز وَيَبْقَی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْإِکْرَامِ ) (سورہ رحمن، آیت ۲۷ ۔ ۲ ۶ ۔)”هر وہ چیز جو روئے زمین پر ہے سبکچھ فنا ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی (صرف)تیرے پروردگار کی ذات ہے جو صاحب جلالت وکرامت ہے“۔

فطرت میں جو توحید خدا پنهاں ہے اس کی طرف توجہ سے انسان کے ارادہ میں توحید جلوہ نمائی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ( وَعَنَتْ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَيُّومِ ) (سورہ طہ، آیت ۱۱۱)”اور ساری خدائی کے منه زندہ وپائندہ خدا کے سامنے جهک جائیں گے“۔ (فطرت توحیدی کی طرف توجہ انسان کے ارادہ کو توحید کا جلوہ بنا دیتی ہے)

کیونکہ ثانی کا تصور اس کے لئے محدودیت اور متناہی ہونے کا حکم رکھتا ہے، لہٰذا وہ ایسا یکتاہے کہ جس کے لئے کوئی ثانی نہ قابل تحقق ہے اور نہ ہی قابل تصور۔

۴ ۔ کائنات کے ہر جزء وکل میں وحدتِ نظم برقرار ہونے سے وحدت ناظم ثابت ہو جاتی ہے،

کیونکہ جزئیاتِ انواع کائنات میں موجود تمام اجزاء کے ہر هر جزء میںموجود نظم وترکیب اور پوری کائنات کے آپس کے ارتباط کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جزء و کل سب ایک ہی علیم ،قدیر اورحکیم خالق کی مخلوق ہیں۔ جیسا کہ ایک درخت کے اجزاء کی ترکیب، ایک حیوان کے اعضاء و قوتوں کی ترکیب اور ان کا ایک دوسرے نیز چاند اور سورج سے ارتباط، اسی طرح منظومہ شمسی کا دوسرے منظومات اور کہکشاؤں سے ارتباط، ان سب کے خالق کی وحدانیت کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ایٹم کے مرکزی حصے اور اس کے مدار کے گردگردش کرنے والے اجزاء سے لے کر سورج و منظومہ شمسی کے سیارات اور کہکشاؤں تک، سب اس بات کی علامت ہیں کہ ایٹم،سورج اور کہکشاو ںٔ

کا خالق ایک ہی ہے( و هُوْ الَّذِی فِی السَّمَاءِ ا لِٰٔهٌ وَّ فِی اْلا رَْٔضِ إِلٰهٌ وَّ هُوَ الْحَکِيْمُ الْعَلِيْم ) (۱) ( يَا ا ئَُّهَا النَّاس اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَةالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اْلا رَْٔضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ ا نَْٔزَلَ مِن السَّمَاءِ مَاءً فَا خَْٔرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ ا نَْٔدَادًا وَّ ا نَْٔتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (۲)

۵ ۔چھٹے امام (ع) سے سوال کیا گیا: صانع وخالقِ کائنات کا ایک سے زیادہ ہونا کیوں ممکن نہیں ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : اگر دعوٰی کرو کہ دو ہیں تو ان کے درمیان شگاف کا ہونا ضروری ہے تاکہ دو بن سکیں، پس یہ شگاف تیسرا ہوا اور اگر تین ہو گئے تو پھر ان کے درمیان دو شگافوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ تین محقق ہوسکیں،بس یہ تین پانچ ہوجائیں گے او راس طرح عدد بے نهایت اعداد تک بڑهتا چلا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگر خدا ایک سے زیادہ ہوئے تو اعداد میں خداؤں کی نا متناہی تعداد کا ہونا ضروری ہے۔(۳)

۶ ۔امیر المو مٔنین (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) سے فرمایا:((واعلم یابنی ا نٔه لو کان لربک شریک لا تٔتک رسله ولرا ئت آثار ملکه وسلطانه ولعرفت ا فٔعاله وصفاته ))(۴)

اور وحدانیت پروردگارپر ایمان کا نتیجہ، عبادت میں توحیدِ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، چونکہ اس کے علاوہ سب عبد اور بندے ہیں( إِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمٰن عَبْداً ) (۵) غیر خد اکی عبودیت وعبادت کرنا ذلیل سے ذلت اٹهانا،فقیر سے بھیک مانگنا بلکہ ذلت سے ذلت اٹهانا اور گداگر سے گداگری کرناہے( يَا ا ئََُهَا النَّاسُ ا نَْٔتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلیَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ ) (۶)

وحدانیت خداوندمتعال پر ایمان،اور یہ کہ جوکچھ ہے اسی سے اور اسی کی وجہ سے ہے اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے، کو تین جملوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ((لا إله إلا اللّٰه))،((لا حول ولا قوة إلا باللّٰه ))،( وَ إِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ اْلا مُُٔوْرُ ) (۷)

سعادت مند وہ ہے جس کی زبان پر یہ تین مقدّس جملے ہر وقت جاری رہیں، انهی تین جملات کے ساته جاگے،سوئے،زندگی بسر کرے، مرے اور یهاں تک کہ( إِنَّا لِلّٰهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ) (۸) کی حقیقت کو پالے۔

____________________

۱ سورہ زخرف، آیت ۸۴ ۔”اور وہی وہ ہے جو آسمان میں بھی خد اہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہ صاحب حکمت بھی ہے“۔

۲ سورہ بقرہ، آیت ۲۱ ۔ ۲۲ ۔”اے انسانو!پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پهلے والوں کو بھی خلق کیا ہے شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاو ۔ٔاس پروردگار نے تمهارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمهاری روزی کے لئے زمین سے پهل نکالے ہیں لہٰذا اس کے لئے کسی کو ہمسراور مثل نہ بناو اور تم جانتے ہو“۔۲۳۰ ۔ / ۳ بحار الانوار، ج ۳

۴ نهج البلاغہ خطوط ۳۱ ۔ حضرت کی وصیت امام حسن علیہ السلام کے نام۔ترجمہ:(جان لو اے میرے لال!اگر خدا کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھیجے ہوئے پیامبر بھی تمهارے پاس آتے اور اس کی قدرت وحکومت کے آثار دیکھتے اور اس کی صفات کو پہچانتے)

۵ سورہ مریم،آیت ۹۳ ۔”زمین وآسمان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی بارگاہ میں بندہ ہو کر حاضر ہونے والا نہ ہو“۔

۶ سورہ فاطر، آیت ۱۵ ۔”انسانو! تم سب الله کی بارگاہ کے فقیر ہو اور الله غنی (بے نیاز) اور قابل حمد و ثنا ہے“۔

۷ سورہ آل عمران، آیت ۱۰۹ ۔”اور الله کی طرف پلٹتے ہیں سارے امور“۔

۸ سورہ بقرہ،ا یت ۱۵۶ ۔”هم الله ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں“۔

اور توحید پر ایمان کا اثر یہ ہے کہ فرد ومعاشرے کی فکر و ارادہ ایک ہی مقصد وہدف پرمرتکز رہیں کہ جس سے بڑه کر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا ہدف و مقصد ہے ہی نہیں( قُلْ إِنَّمَا ا عَِٔظُکُمْ بِوَاحِدَةٍ ا نَْٔ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ) (۱) ۔ اس توجہ کے ساته کہ اشعہ نفسِ انسانی میں تمرکزسے انسان کو ایسی قدرت مل جاتی ہے کہ وہ خیالی نقطے میں مشق کے ذریعے حیرت انگیز توانائیاں دکها سکتا ہے، اگر انسانی فکر اور ارادے کی شعاعیں اسی حقیقت کی جانب مرتکز ہو ں جومبدا ومنتهی اور( نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ ) (۲) ہے تو کس بلند واعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ؟!

جس فرد ومعاشرے کی( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیْ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ حَنِيْفاً وَّمَا ا نََٔا مِن الْمُشْرِکِيْنَ ) (۳) کے مقام تک رسائی ہو، خیر وسعادت وکمال کا ایسا مرکز بن جائے گا جو تقریر وبیان سے بہت بلند ہے۔

عن ا بٔی حمزة عن ا بٔی جعفر (ع) :((قال سمعته یقول: ما من شیء ا عٔظم ثواباً من شهادة ا نٔ لا إله إلا اللّٰه، لا نٔ اللّٰه عزوجل لا یعدله شی ولا یشرکه فی الا مٔر ا حٔد ))(۴)

اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسا کہ کوئی بھی چیز خداوند متعال کی مثل وہمسر نہیں، اس ذات قدوس کے امرمیں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ کوئی عمل اس حقیقت کی گواہی کا مثل و ہمسر نہیں جو کلمہ طیبہ ((لا إله إلااللّٰه ))کا مضمون ہے اورعمل کے ساته شایان شان جزاکے ثواب میںبھی اس کا کوئی شریک نہیں۔

زبان سے ((لا إله إلااللّٰه )) کی گواہی، دنیا میں جان ومال کی حفاظت کا سبب ہے اور دل سے اس کی گواہی آتش جهنم کے عذاب سے نجات کا باعث ہے اور اس کی جزا بهشت بریںہے۔ یہ کلمہ طیبّہ رحمت رحمانیہ ورحیمیہ کا مظهر ہے۔

چھٹے امام (ع) سے روایت ہے کہ: خداوند تبارک وتعالی نے اپنی عزت وجلال کی قسم کهائی ہے کہ اہل توحید کو آگ کے عذاب میں ہر گز مبتلا نہ کرے گا۔(۵)

اوررسول خدا (ص)سے منقول ہے: ((ماجزاء من ا نٔعم عزوجل علیه بالتوحید إلا الجنة ))(۶)

جو اس کلمہ طیبہ کا ہر وقت ورد کرتاہے ، وہ حوادث کی جان لیوا امواج، وسواس اور خواہشات نفسانی کے مقابلے میں کشتی دٔل کو لنگرِ ((لا إله إلا اللّٰه )) کے ذریعے هلاکتوں کی گرداب سے نجات دلاتا ہے( اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوَبُهُمْ بِذِکْرِ اللّٰهِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ) (۷)

کلمہ طیبہ کے حروف کوبالجهر اور بالاخفات دونوں طریقوں سے ادا کیا جاسکتا ہے کہ جامع ذکرِ جلی وخفی ہے اور اسم مقدس ((اللّٰہ))پر مشتمل ہے، کہ امیرالمو مٔنین (ع) سے منقول ہے کہ:

((اللّٰہ)) اسماء خدا میں سے بزرگترین اسم ہے اور ایسا اسم ہے جو کسی مخلوق کے لئے نہیں رکھا گیا۔

اس کی تفسیر یہ ہے کہ غیر خدا سے امید ٹوٹ جانے کے وقت ہر ایک اس کو پکارتا ہے( قُلْ ا رََٔا ئَْتَکُم إِنْ ا تََٔاکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ ا ؤَْ ا تََٔتْکُمُ السَّاعَةُ ا غَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَةبَلْ إِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَيْه إِنْ شَاءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ ) (۸)

____________________

۱ سورہ سباء،ا یت ۴۶ ۔”پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ الله کے لئے دو دو اور ایک ایک کرکے قیام کرو“۔

۲ سورہ نور،آ یت ۳۵ ۔”الله آسمانوں اورزمین کا نور ہے“۔

۳ سورہ انعام، آیت ۷۹ ۔” میرا رخ تمام تر اس خدا کی طرف سے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں استقامت کے ساته توحید میں ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں“۔

۴ توحید صدوق ص ۱۹ ۔

۵ توحید ص ۲۰ ۔

۶ توحید ص ۲۲ ۔ اس شخص کی جزا اس کو خدا نے نعمت توحید سے نوازا ہے جز بهشت کچھ نہیں ۔

۷ سورہ رعد، آیت ۲۸ ۔”یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتاہے“۔

۸ سور ہ انعام، آیت ۴۰ ۔ ۴۱ ۔”آپ ان سے کہئے کہ تمهارا کیا خیال ہے کہ اگر تمهارے پاس عذاب یا قیامت آجائے تو کیا تم اپنے دعوے کی صداقت میں غیر خدا کو بلاو گٔے۔ تم خدا ہی کو پکاروگے اور وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو رفع کر سکتا ہے۔اور تم اپنے مشرکانہ خداو ںٔ کو بهول جاو گٔے“۔

ابو سعید خدری نے رسول خدا (ص)سے روایت کی ہے کہ خداوند جل جلالہ نے حضرت موسی (ع) سے فرمایا :

اے موسی! اگر آسمانوں، ان کے آباد کرنے والوں (جو امر کی تدبیر کرنے والے ہیں)اور ساتوں زمینوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور((لا إله إلا اللّٰه )) کو دوسرے پلڑے میں تو یہ دوسرا پلڑا بهاری ہوگا۔(۱) (یعنی اس کلمے کے مقابلے میں تمام مادّیات ومجرّدات سبک وزن ہیں)۔

عدل

خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل ہیں جن میں سے ہم بعض کاتذکرہ کریں گے:

۱۔هر انسان، چاہے کسی بھی دین ومذهب پر اعتقاد نہ رکھتاہو، اپنی فطرت کے مطابق عدل کی اچهائی و حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا ہے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت دیں تو اس سے اظهار نفرت اور عادل کہیں تو خوشی کا اظهار کرتا ہے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا، جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواہشات کا حصول ہے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑ جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کے حق میں فیصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فیصلہ اس کے لئے باعث مسرت وخوشنودی ہے لیکن اس کی عقل وفطرت حکم کی بدی اور حاکم کی پستی کو سمجه جائیں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس کے زور و زر کے اثر میں نہ آئے اور حق وعدل کا خیال کرے، ظالم اس سے ناراض تو ہو گا لیکن فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھے گا۔

تو کس طرح ممکن ہے کہ جس خدا نے فطرت انسانی میں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچها قرار دیا ہو تاکہ اسے عدل کے زیور سے مزین اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو( إِنَّ اللّٰهَ يَا مُْٔر بِالْعَدْل وَاْلإِحْسَانِ ) (۲) ،( قُلْ ا مََٔرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ ) (۳) ،( يَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ فَاحْکُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَق وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی ) ٤جیسی آیات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم میں ظالم ہو؟!

۲۔ظلم کی بنیاد یا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، یا مقصد و ہدف تک پهنچنے میں عجز یا لغووعبث کام ہے، جب کہ خداوندِمتعال کی ذات جهل، عجز اور سفا ہت سے پاک ومنزہ ہے۔

لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناہی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ خداوند متعال عادل ہو اور ہر ظلم و قبیح سے منزہ ہو۔

۳۔ ظلم نقص ہے اور خداوندِمتعال کے ظالم ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس کی ترکیب میں کمال ونقصان اور وجود وفقدان بیک وقت شامل ہوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ترکیب کی بدترین قسم ہے، کمال ونقص سے مرکب ہونے والا موجود محتاج اور محدود ہوتا ہے اور یہ دونوں صفات مخلوق میں پائی جاتی ہیں نہ کہ خالق میں۔

لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تخلیق کائنات( شَهِدَ اللّٰهُ ا نََّٔه لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَ ا ؤُْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْط لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ) (۵) ،

قوانین واحکام

( لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْم النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) (۶) اور قیامت کے دن لوگوں کے حساب وکتاب میں عادل ہے۔( وَقُضِیَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُوْنَ ) (۱)

عن الصادق (ع) :((إنه سا لٔه رجل فقال له :إن ا سٔاس الدین التوحید والعدل، وعلمه کثیر، ولا بد لعاقل منه، فا ذٔکر ما یسهل الوقوف علیه ویتهیا حفظه، فقال: ا مٔا التوحید فا نٔ لا تجوّز علی ربک ماجاز علیک، و ا مٔا العدل فا نٔ لا تنسب إلی خالقک ما لامک علیه ))(۲) اور هشام بن حکم سے فرمایا: ((ا لٔا ا عٔطیک جملة فی العدل والتوحید ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل ا نٔ لا تتّهمه ومن التوحید ا نٔ لا تتوهّمه ))(۳)

اور امیر المومنین (ع) نے فرمایا:((کل ما استغفرت اللّٰه منه فهومنک،وکل ما حمدت اللّٰه علیه فهومنه ))(۴)

____________________

۱ توحید، ص ۳۰ ۔

۲ سورہ نحل، آیت ۹۰ ۔”باتحقیق خدا وند متعال عدل واحسان کا امر کرتا ہے“۔

۳ سورہ اعراف، آیت ۲۹ ۔ ”کہو میرے رب نے انصاف کے ساته حکم کیا ہے“۔

۴ سورہ ص، آیت ۲۶ ۔ ”اے داو دٔ (ع)!هم نے تم کو روئے زمین پر خلیفہ بنایا ہے تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹهیک فیصلہ کرو اور ہویٰ وہوس کی پیروی مت کرو“۔

۵ سورہ آل عمران ، آیت ۱۸ ۔”خدا نے خود اس بات کی شهادت دی کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں ہے و کل فرشتوں نے اور صاحبان علم نے جو عدل پر قائم ہیں (یهی شهادت دی) کہ سوائے اس زبردست حکمت والے کے اور کوئی معبود نہیں ہے“۔

۶ سورہ حدید ، آیت ۲۵ ۔ ”هم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساته کتاب (انصاف کی)ترازو نازل کی تاکہ لوگ قسط وعدل پر قائم رہیں“۔

نبوت خاصّہ

چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت رہتی دنیا تک کے لئے ہے اور آپ (ص) خاتم النبیین ہیں،لہٰذا ضروری ہے کہ آنحضرت (ص) کا معجزہ بھی ہمیشہ باقی رہے۔

دوسرے یہ کہ آپ (ص) کی بعثت کا دور کلام میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مقابلے کا دور تھا اور اس معاشرے میں شخصیات کی عظمت و منزلت، نظم و نثر میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کی بنیاد پر طے ہوتی تھی۔

ان ہی دو خصوصیات کے سبب قرآن مجید، مختلف لفظی اور معنوی اعتبارات سے حضور اکرم (ص) کی نبوت و رسالت کی دلیل قرار پایا۔ جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

۱۔قرآن کی مثل لانے سے انسانی عجز:

پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے زمانے اور ماحول میں ظہور فرمایا جهاں مختلف اقوام کے لوگ گوناگوں عقائد کے ساته زندگی بسر کر رہے تھے۔کچھ تو سرے سے مبدا متعال کے منکر اور مادہ پرست تھے اور جو ماوراء مادہ و طبیعت کے قائل بھی تھے تو، ان میں سے بھی بعض بت پرستی اور بعض ستارہ پرستی میں مشغول تھے۔ باقی جو ان بتوںاور ستاروں سے دور تھے وہ مجوسیت، یہودیت، یا عیسائیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

دوسری جانب شهنشاہ ایران اور هرقل روم کمزور اقوام کی گردنوں میں استعمار و استحصال کے طوق ڈالے ہوئے تھے یا پھر جنگ و خونریزی میں سرگرم تھے۔

ایسے دور میں پیغمبر اسلام (ص) نے غیب پر ایمان اور توحید کے پرچم کو بلند کرکے کائنات کے تمام انسانوںکو پروردگار عالم کی عبادت اور کفر و ظلم کی زنجیریں توڑنے کی دعوت دی۔ ایران کے کسریٰ اور قیصرروم سے لے کر غسان و حیرہ کے بادشاہوں تک، ظالموں اور متکبروں کو پروردگار عالم کی عبودیت، قبولِ اسلام، قوانین الٰهی کے سامنے تسلیم اور خود کو حق و عدالت کے سپرد کرنے کی دعوت دی۔

مجوس کی ثنویت، نصاریٰ کی تثلیث، یہود کی خدا اور انبیاء علیهم السلام سے ناروا نسبتوں اور جاہلیت کی ان غلط عادات ورسوم سے، جو آباء و اجداد سے وراثت میں پانے کے سبب جزیرة العرب کے لوگوں کے ر گ وپے میں سما چکی تہیں، مقابلہ کیا اور تمام اقوام و امم کے مدمقابل اکیلے قیام فرمایا۔

باقی معجزات کو چهوڑ کر معجزہ قرآن کو اثبات نبوت کی قاطع دلیل قرار دیا اور قرآن کو چیلنج بناتے ہوئے بادشاہوں، سلاطین، نیز علمائے یہود اورعیسائی راہبوں جیسی طاقتوں اور تمام بت پرستوں کو مقابلے کی دعوت دی( وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَا تُْٔوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه وَادْعُوْا شُهَدَآئَکُمْ مِن دُوْنِ اللّٰهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ ) (۲)

____________________

۱ بحار الانوار ج ۶ ص ۵۹ ۔”امام نے اس حدیث میں پیغمبران خدا کی معرفت اور ان کی رسالت کا اقرار اور ان کی اطاعت کے واجب ہونے کے سلسلے میں فرمایا:کیونکہ مخلوق خلقت کے اعتبار سے اپنی مصلحتوں تک نہیں پہونچ سکتے تھے، دوسرے طرف خالق عالی ومتعالی ہے مخلوق اپنے ضعف و نقص کے ساته خدا کا ادراک نہیں کرسکتے لہٰذا کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان ایک معصوم رسول وسیلہ بنے جو خدا کے امر و نهی کو اس کمزور مخلوق تک پہونچا سکے ۔

اور ان کے مصالح و مفاسد سے آگاہ کرے کیونکہ ان کی خلقت میں اپنی حاجتوں کے مطابق مصلحتوں اور نقصان دینے والی چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے“۔

۲ سورہ بقرہ ، آیت ۲۳ ۔”اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آو اور الله کے علاوہ جتنے تمهارے مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوے میںاور خیال میں سچے ہو“۔