حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر0%

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 174

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات: صفحے: 174
مشاہدے: 47786
ڈاؤنلوڈ: 2860

تبصرے:

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 174 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47786 / ڈاؤنلوڈ: 2860
سائز سائز سائز
حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اورجب آپ کھانے کے بعددوبارہ نماز اور عبادت کیلئے کھڑے ہو ئے تو جبرئیل نازل ہو ئے اور کہا ائے خدا کے حبیب آج رات مستحبی نمازوں کو چھوڑدو اور جناب خدیجہ کے پاس تشریف لے جائے کیو نکہ خدا وند کا (اس عبادت اورجنتی غذا کے نتیجے میں ) یہ ا رادہ ہے کہ آپ کے صلب مطہر سے ایک پاکیزہ بچی کا نور کائنات میں طلوع ہو، تاکہ کائنات کی سعادتمندی کا باعث بنے پیغمبر اکر م جو نہی جبرئیل کا یہ دستور سنا فوراً خدیجہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے جناب خدیجہ کابیان ہے کہ میں حسب معمول اس رات کو بھی دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کررہی تھی کہ اتنے میں دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی میں نے کہا کو ن ہے ؟اتنے میں پیغمبر کی دلنشین آواز میر ے کا نو ں میں آئی آپ فرمارہے تھے کہ دروازہ کھولو کہ میں محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ہوں میں نے فوراً دروازہ کھولا آپ خندہ پیشانی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اورحکم خدا کے مطابق فاطمہ کا نور پیغمبر اکرم کے صلب مطہرسے خدیجہ کے رحم میں منتقل ہوا۔(۱)

اگر چہ کچھ دوسر ی روایات میں اس طرح بیان ہو ا ہے کہ جب پیغمبر اکرم معراج پر تشریف لے گئے تو خدا نے اپنے حبیب کی خدمت میں جبرئیل کے ہاتھوں جنت کا ایک سیب بھیجا اور فرمایا ائے جبرئیل رسول سے کہہ دو کہ آج رات

____________________

(۱) بحار ج ۱۶ص ۷۸ چاپ بیروت

۲۱

اس سیب کو تناول فرمائیں پھر خدیجہ کے ساتھ سو جائیں آپ نے خدا کے حکم کے مطابق سیب کو تناول فرمایا اور زہرا کا وجود آپ کے صلب سے مادر کے شکم میں منتقل ہوا کہ اس روایت کو علماء شیعہ میں سے صدو ق نے علل الشرائع میں جناب علی ابن ابراہیم نے تفسیر قمی میں نقل کی ہے اور سنی علما ء میں سے بھی افراد ذیل نے نقل کیا ہے مثلاً رشید الدین طبری ، بغدادی ، نیشاپوری، ذہبی(۱)

لہٰذا یہ بات فریقین کے ہال مسلم ہے کہ زہرا سلام اللہ علیھا کا وجود جنت کے سیب یا غذا سے بناہے ۔

د: ماں کے شکم میں زہراسلام اللہ علیہا

خدا نے ہر انسان کے وجود میں کئی مراحل کا طے کر نا لازم قرار دیا ہے کہ ان مراحل میں سے پہلا مر حلہ ماں کے پیٹ میں انسان کا وجود ہے کہ اس وجود کی خصوصیت یہ ہے کہ کسی غذا اور دیگر بیرونی لوازمات کے بغیر قدرتی طور پر ماں کے رحم میں زندہ رہنے کا انتظام مہیا کیا ہے کہ اس مر حلہ میں خارجی لوازمات زندگی کی ضرورت نہ ہو نے کے علاوہ تکلم اور گر یہ جیسی خصوصیت بھی نہیں پائی جاتی لہٰذا اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ماں سے تکلم اور گفتگو کرنے لگے تو تعجب کی نگاہ سے

____________________

(۱) مستدرک حاکم ،ذخائر العقبی، طبری ،تاریخ بغداد، مناقب ،میزان ۱لاعتدال.

۲۲

دیکھا جاتا ہے لیکن اگر کو ئی ہستی خدا کا مقرب بندہ ہو اور اسکی پوری کوشش دنیا میں آنے کے بعد صرف رضایت الٰہی کا حصول ہو تو ایسا بچہ ماںکے شکم سے آنے سے پہلے اگر ماں سے تکلم اور انس پیدا کرے تو یہ ناممکن نہیں ہے بلکہ یہ انکی شخصیت اور عظمت کی دلیل ہے حضرت زہرا ء سلام اللہ علیہاکے وجود کو صلب پیغمبر سے آنے سے پہلے خدا نے ایک خاص اہتمام فرمایا اور کہا اے حبیب چالس دن تک عبادت میں رہے پھر جنت کی یہ غذا تناول فرمائیں پھر خدیجہ کے رحم میں زہرا کا وجود ٹھر ائیں پھر جب جناب خدیجہ کے حاملہ ہونے کے آثار کا احسا س ہو نے لگا تو تنہائی کے درد ورنج سے اس بچہ کی وجہ سے نجات مل گئی اور آپ اس بچہ سے مأنوس رہنے لگیں ۔

اس مطلب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا گیا ہے کہ جب سے جناب خدیجہ نے جناب رسول خدا سے شادی کی تھی تب سے مکہ مکر مہ کی عورتوں اور آپکی سہیلیوں نے آپ سے رابطہ اور رفت وآمد کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ خدیجہ کے گھر میں کوئی اور عورت وارد نہ ہو، جبکہ حضرت خدیجہ مکہ میں بڑی عظمت کی حامل خاتون تھیں تنہا چھوڑنے کے نتیجہ میں شب وروز اندو ہناک اور غمگین رہتی تھی لیکن جب سے جناب زہرا کا وجود مبارک آپکے شکم میں آیا تب سے آپگی تنہائی اور جدائی کے غم سے نجات مل گئی۔(۱)

____________________

(۱)بحار الانوار ج۴۳.

۲۳

اور آپ اس بچہ سے مانوس ہونے لگیں اور اس سے رازو نیاز کرکے ہمیشہ خوش وخرم رہتی تھی جناب جبرئیل حضرت محمد اور جناب خدیجہ کو بشارت دے رہے تھے کہ یا رسول اللہ جو بچہ حضرت خدیجہ کے شکم میں ہے وہ ایک باعظمت لڑکی ہے جس سے آپکی نسل قائم رہے گی اور وہ سلسلہ نبوت کے ختم ہو نے کے بعد ، تیرے جانشین اورگیارہ اما موں کی ماں ہو گی کہ جناب رسول خدا اس بشارت کو جناب خدیجہ سے بیان کرتے تھے کہ جس سے حضرت خدیجہ بھی خوش ہو جا تی تھیں اور خود بھی خوشنود ہو تے تھے۔(۱)

نیز جناب ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ مفضل ابن عمر سے روایت کی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب سے حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم سے شادی کی تھی تب سے مکہ کی عورتیں آپ سے عداوت کر تی تھیں اور آپ تنہا ئی کے عالم میں زندگی گزار رہی تھی جب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا وجود آپ کے شکم مبارک میں منتقل ہوا تو جناب زہرا سلام اللہ علیھا ما ں سے گفتگو کرتی تھی جناب خدیجہ اس حالت کو پیغمبر اکرم سے مخفی کر رکھا تھا لیکن جب ایک رات پیغمبر اکرم جناب خدیجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جناب خدیجہ کسی سے تکلم کررہی تھیں آپ نے فرمایا:

____________________

(۱)دلائل الا ما مة

۲۴

اے خدیجہ کس سے تکلم کررہی ہوجناب خدیجہ نے کہا کہ میں اپنی بچی سے گفتگو کررہی ہو ںاس وقت پیغمبر اکر م نے فرما یا اے خدیجہ مجھے جبرئیل نے خبردی ہے کہ وہ ایک باعظمت لڑکی ہے کہ اس کی بر کت سے ہماری نسل کا بقا ء اور اس کی نسل سے میرے بعد میرے گیار ہ جانشین امام آئیںگے(۱)

لہٰذا یہ دو رواتیں صریحا بیان کر تی ہیں کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا وجود مبارک ما ں کے شکم میں ٹھہرتے ہی ماں نے انس کا احساس کیا اور اندوہناک حالت نجات کا ذریعہ تھا کیوں کہ خدا وند نے کائنات کو ہی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے صد قے میں خلق کیا ہے ۔

ز: آپ کے تولد کے مو قع پر غیبی امداد

تاریخ اسلام میں یہ بات مسلم ہے کہ جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے حضرت رسول خدا سے شادی کی تو مکہ کی عورتیں، آپ کی سہیلیوں نے آپ سے رابطہ منقطع کر رکھا تھا کہ جس کے نتیجہ میں آپ بہت ہی غمگین اور پریشان رہتی تھیں لیکن جب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا وجود آپ کے شکم مبارک میں ٹھہرا توتنہا ئی اور جدائی کا احسا س ختم ہو نے لگا اور جوں ہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

____________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳.

۲۵

کے تولد کا وقت آپہنچاتو آپ بہت ہی تڑپ رہی تھیں اور سابقہ سہیلیوں اور قریش کی باوقار عورتوں کی طرف پیغام بھیجا کہ اے قریش کی عورتوں تم اس خاتون کی حالت سے آگاہ ہو کہ جس پر وضع حمل کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں تو اس وقت اس کو کتنی پریشانی ہو جا تی ہے لہٰذا میرا وضع حمل قریب ہوا ہے میری مدد کو آئو لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص کہ جس کے ساتھ پیغام بھیجا تھا روتے ہو ئے جناب خدیجہ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ جس جس گھر کا دروازہ میں نے کھٹکھٹا یا اس نے آپکی خواہش کو رد کر نے کے علاوہ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ خدیجہ سے کہدو :

تم نے ہماری نصیحتیں قبول نہ کی تھیں اور ہماری رضایت کے خلاف ایک فقیر یتیم سے شادی کی تھی لہٰذا نہ ہم تمہارے گھر آسکتے ہیں نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں ، جب حضرت خدیجہ نے ان کی دشمنی اور کینہ آمیز پیغام کو سنا تو مایوسی کی حالت میں اپنے خالق سے مدد ما نگنے لگیں اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی فرشتے اور جنت کی حوریں اور آسمانی عورتیں آپ کی مدد کو پہنچے پھر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود چمکتا ہوا ستارہ کے مانند طلوع کرگیا اور پورا مشرق ومغرب زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود سے منورہوا ۔(۱)

اس مطلب کو جناب علامہ مجلسی نے(۲) اور جناب طبری شیعی نے(۳)

____________________

(۱)بحار الانوار ج۴۳، دلائل الامامة وفاطمہ مثالی خاتون.

(۲)بحارالا نوار جلد ۶۳ اور ۱۶ (۳)دلائل الامامہ.

۲۶

آیة اللہ امینی اپنے کتابچے میں اور دیگر محققین نے اپنے مقالات میں ذکر کیا ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود طلوع ہو نے کے مو قع پر خدا کی طرف سے حضرت خدیجہ کو غائبا نہ امداد آنا قطعی ہے اور شاید قریش کی عور تیں اس مبارک امداد سے محروم ہو نے کی علت یہ ہوکہ زہرا سلام اللہ علیہا کا وجودجنت کے پاکیزہ غذا اور پیغمبراکر م کے چا لیس دن کے راتوں تہجد اور روزہ رکھنے کا نتیجہ تھا لہٰذا قریش کی عورتیں اور جناب خدیجہ کی سابقہ سہیلیوں کی نظر اور ہاتھوں اس پاکیزہ وجود پر لگنے کے لائق نہ تھا اسی لیے خدا نے ان کی برائیوں کو بھی روشن کر دیااور حضرت زہرا کو ان کے ناپاک ہاتھوں اور نظروں سے بھی محفوظ رکھا یہ حضرت خدیجہ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا خدا کے مقرب ہستی ہونے کی دلیل ہے لہٰذا تاریخ اسلام میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت خدیجہ کے مانند سوائے مر یم اور آسیہ کے اور کو ئی خاتون نظر نہیں آتی تب ہی تو حضرت زہرا کو کائنات کے بقاء اورہماری دنیا وآخرت دونوں میں شفاعت کا سبب قرار فرمایا۔

۲۷

ر: نام گزاری حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا )

جب حضر ت زہرا کا وجود عالم بطن سے عالم دنیا میں منتقل ہو ئے تو جناب خدیجہ اور حضرت پیغمبر اکرم ان کے نام گزاری اور القا ب کی تعیین کر نے میں مصروف ہو ئے جب کہ پیغمبر اکرم وحی کے منتظر تھے لیکن حضرت خدیجہ متعدد اسامی لے کر حضر ت پیغمبر اکرم کی خد مت میں حاضر ہوئیں لہٰذا جب وحی آئی تو پیغمبر اکرم نے اس مبارک نور کا نام اللہ کے حکم سے فاطمہ رکھا اور حضرت خدیجہ بھی نام گزاری میں آپ کے تا بع ہوئیں اور فاطمہ نام رکھنے کی علت کو پیغمبر اکر م نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکر م نے حضرت زہرا سے پوچھا کیا آپ جا نتی ہیں کہ آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا ہے ؟ اس وقت حضرت علی نے فرمایا:

اے خدا کے حبیب آپ ہی اس کا سبب بیان فرمائیں آنحضرت نے فرمایااس کا سبب یہ ہے کہ روز قیا مت فاطمہ کے ما ننے والوں کو فا طمہ کی برکت سے آتش جہنم سے دور رکھا جا ئے گا لہٰذا آپ کا نام فاطمہ رکھا ہے(۱)

اور زہرا نام رکھنے کی علت کو یو ں نقل کیا گیا ہے جناب جا بر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہو ئے فرما یا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت فاطمہ کا زہرا نام کیوں رکھا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب خدا وند نے اپنی عظمت وبزر گی کے ساتھ زہرا کا نور طلوع فرمایا تو زمین وآسمان آپ کے نور سے منور ہوگئے یہ منظر جب فرشتو ں نے دیکھا تو خدا کے محضر میں کہنے لگے اے مو لا یہ کو ن سا نور ہے جس نے پوری کا ئنا ت کو منور کردیا

____________________

(۱)کتاب فاطمہ زہرا ص ۲۶۱ وبحارالانوار ج ۴۳

۲۸

ہے خدا نے جواب میں فرمایا یہ نور میرے نور کا ایک ٹکڑ اہے کہ جس کو میں نے پوری کا ئنات کو منور کر نے کی توانائی کے ساتھ پیغمبر وں میں سے صرف ایک پیغمبر کے صلب سے طلوع کیا کہ وہ پیغمبر باقی سارے انبیا ء سے افضل ہے اور اس نور کی نسل سے اس پیغمبر کے جانشین ظہور فرما ئیں گے لہٰذا اس کا نام زہرا رکھا کیا ہے ۔(۱)

نیز بحار الا نوار میں مر حوم علامہ مجلسی نے متعدد روایتوں کو ذکر فرمایا ہے کہ حضرت زہرا کا فاطمہ نام رکھنے کی علت کیا تھی جس کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب حضرت زہرا کا نو ر طلوع ہو ا تو خدا وندعالم نے ایک فرشتے کو مقرر فرمایا اور کہا جائو میرے حبیب کی زبان پر فاطمہ کا لفظ تکرار کرائو ۔(۲)

لہٰذا اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں چند روایات پر اکتفا کروں گا۔

س۔القاب وکنیت حضرت زہرا علیہا السلام

جب کسی کے ہاں کو ئی بچہ پیدا ہو تا ہے تو طبعی ہے کہ اس کا کو ئی نام معین کرکے معاشرے میں پیش کرے لہٰذا شریعت اسلام میں نام گزاری کے مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے حتی ما ں ، باپ کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہی قرار دیا گیا ہے لیکن عرب کی رسومات میں سے ایک رسم یہ بھی تھا کہ بچہ کا کوئی لقب اور

____________________

(۱) بحار الانوار ج۴۳ چاپ بیروت، ۳۶۰ داستان ص۲۳.

(۲)بحار الانوار ج ۴۳ چاپ بیروت.

۲۹

کنیت بھی منتخب کر یں اور اسلام میں بھی کنیت کے انتخاب کو بہت اہمیت اور فضیلت کے ساتھ ذکر کیا گیاہے لہٰذا جب حضرت زہرا کی ولادت باسعادت ہو گی تو نام گزاری کے بعد پیغمبر اکر م نے آپ کی کنیت کو ام الائمہ یا ام السبطین منتخب فرمایا لیکن ان کے القاب کے بارے میں روایات بہت زیا دہ ہیں اور محققین نے بھی بہت سارے القاب کو فرمایا ہے کہ انہی میں سے ایک محدثہ ہے کہ اس لقب سے یاد کرنے کا فلسفہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو محد ثہ سے اس لئے پکارا جا تاہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہو کر جس طرح حضرت مر یم سے گفتگو کر تے تھے اسی طرح فرشتے حضرت زہرا (س) کی خدمت میں نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کیا کر تے تھے لہٰذا ان کا لقب محدثہ رکھا گیا ہے ۔(۱)

(۲) سیدہ (۳) ا نسیہ (۴) نوریہ (۵) عذرا (۶) کریمہ (۷) رحیمہ (۸) شہیدہ (۹) رشیدہ (۱۰) محرمہ (۱۱) شریفہ (۱۲) حبیبہ (۱۳) صابرہ (۱۴) مکرمہ (۱۵) صفیہ (۱۶علمیہ (۱۷) معصومہ (۱۸) مفصوبہ (۱۹) سیداة النسائ(۲۰) منصورہ (۲۱) مظلومہ (۲۲) مطہرہ(۲۳ قرةالعین )کہ ان کے علاوہ بہت سارے القاب حضرت زہرا سے منسوب ہیں لہٰذا م کتابوں سے مزید معلومات کی خاطر مراجعہ ضروری ہے ۔(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار ج۴۳ (۲)بحارالانوار ج۴۳ چاپ بیروت،۳۶۰ داستان

۳۰

دوسری فصل:

حضرت زہرا کے فضائل

الف۔ قرآن کی روشنی میں

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کو قر آن کریم کی متعدد آیات میں ذکر کیا ہے کہ انہی آیات میں سے ایک سورہ کو ثر ہے جو قرآن مجید کے ۱۱۴ سوروں میں سے کو تاہ ترین سورہ شمار ہو نے کے باوجود جا مع تر ین سورہ کہا جاتا ہے وہ سورہ یہ ہے :

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿ ۱ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿ ۲ ﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿ ۳ )

یعنی ( اے رسول ) ہم نے تم کو کوثر عطاکیا تم تو اپنے پر ور گار کی نماز پڑھا کر و اور قربانی دیا کر و بے شک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا ۔

۳۱

علامہ ابن حجر عسقلانی نے حضرت رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ نے جناب امیر المومنین سے فرمایا کہ اے علی تم اور تمہارے شیعہ حوض کو ثر پر سیراب اور نورانی صورت میں ہو نگے جب کہ تمہارا دشمن پیاس سے زرد وہاں سے نکالے جائیں گے(۱)

اس روایت کی بناء پر کوثر کا معنی حوض کو ثر ہے نہ حضرت زہرا لیکن با قی تفاسیر میں اس سورہ کے شا ن نزول کو اس طرح بیا ن کیا گیا ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب پیغمبر کے فرزند جناب قاسم جو نو عمری یا نونہالی میں دنیا سے چل بسے تو پیغمبر پریشان ہوئے اور آپ کے دشمنوں میں سے سر سخت دشمن عاص ابن وائل تھا کہنے لگا حضرت محمد اپنے فر زند قاسم کے مر نے کے بعد بے اولاد اور مقطوع النسل رہیں گے کیو نکہ اس زمانہ میں بیٹیوں کو اولاد اور بقاء نسل شمار نہیں کیا جاتا تھا اس وقت خدا نے مشرکین کے اس طعنے کا جواب سورہ کو ثر کے ذریعے دیا یعنی آپ پر سورہ کو ثر کو نازل کیا اور کہا کہ آپ کی نسل کبھی بھی منقطع نہیں ہو گی بلکہ آپ کے دشمن ہی بے اولاد اور مقطوع انسل ہو نگے اور آپ کی نسل قیامت تک زہرا کے ذریعے باقی رہے گی کہ اسی سے معلوم ہو تا ہے کہ سورة کو ثر حضرت زہرا کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جس جگہ میں یہ سورہ نازل ہو ئی ہے وہ مقام آج سعودی عرب میں مسجد کو ثر کے نام سے مشہور ہے او ر حجاج اس مسجد کی زیارت کے لئے تشریف لے جا تے ہیں(۲)

____________________

(۱) صواعق محرقہ (۲) بحار الانوار ج۴۳، زنداگا نی فاطمہ زہرا ص ۱۲۰

۳۲

نیز کو ثر کے معنی کے بارے میں جناب فخر رازی جو اہل سنت کے مشہور و معروف مفسر ہے ،نے کہا کہ کو ثر سے مراد اولاد پیغمبر ہیں کیو نکہ جب مشر کین نے پیغمبر اکرم سے اولا د ذکور نہ ہونے پر طعنے اور عیب جوئی شروع کی تو اللہ تبارک وتعالی نے ان کے جواب میں اس سورہ کو نازل فرمایا ہے لہٰذا اہل بیت علہیم السلام پر بنی امیہ کی طرف سے ڈھائے گئے بے پناہ مظالم کے باوجود پیغمبر اکرم کی نسل سے (امام ) باقر (امام ) صادق (امام ) کاظم اور( امام) رضا علیہم السلام جیسی ہستیا ں وجود میںآئیں۔(۱)

دوسری آیت:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَي الْکاذِبينَ ) (ا)

پھر جب تمہارے پاس علم ( قرآن ) آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی ( نصرانی ) عیسی کے بارے میں مجادلہ کرے تو کہو کہ آئو ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوںکو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنے عورتوں کو

____________________

(۱)تفسیر کبیر ج۳۲ صفحہ ۱۲۴ (۱)سورة آل عمران آیت ا۶

۳۳

بلائو اور ہم اپنی جا نوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر ( خدا کی بارگاہ ) میں گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کر یں ۔

تفسیر آیت:

اس آیۂ شریفہ کے بارے میں جناب فرمان علی نجفی اعلی اللہ مقامہ نے یوں تفسیر کی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نجران کے نصاریٰ کو حضرت رسول اکرم لاکھ سمجھا یا کہ ان کو خدا کا بیٹا نہ کہو حضرت آدم کی مثال بھی دی مگر ان لوگوں نے ایک بھی نہ سنی آخر آپ نے حکم خدا سے قسما قسمی کی ٹھرائے جسے مباہلہ کہتے ہیں اور یہ قول آپس میں قرار ہوا کہ فلاںجگہ فلاں وقت میں ہم اور تم اپنے اپنے بیٹوں عورتوں اور جانوں کو لے کر جمع ہوں اور ہر ایک دوسرے پر لعنت کر یں اور خدا سے عذاب کا خوا ستگار ہوں جس دن یہ مبا ہلہ ہونے والا تھا اصحاب، ابن سنور کے در دولت پر اس امید میں جمع ہو ئے شاید آپ ہمراہ لے جائیں ۔

مگر آپ نے اول صبح حضرت سلمان کو ایک سرخ کمبل اور چار لکڑیاں دے کر اس میدان میں ایک چھوٹا سا خیمہ نصب کرنے کیلئے روانہ کیا اور خود اس شان سے برآمد ہوئے کہ امام حسین گود میں لیا اور امام حسن کا ہاتھ تھا ما اور جناب سیدہ آپ کے پیچھے اور

۳۴

حضرت علی پیغمبر اکرم کی صاحبزادی جناب فاطمہ کے پیچھے نکلے گویا اپنے بیٹوں کی جگہ نو اسوں کو اور عورتوں کی جگہ اپنی صاحبزادی جناب زہرا کو اور اپنی جان کی جگہ حضرت علی کو لیا اور دعا کی خدا وندا ہر نبی کے اہل بیت ہوتے ہیں یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو ہر برائی سے دور اور پاک وپاکیزہ رکھ جب آپ اس شان سے میدان میں پہنچے تو نصاریٰ کا سر دار عاقب دیکھ کرکہنے لگا کہ خدا کی قسم میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کو کہیں گے تو یقیناً ہٹ جائے گالہٰذا خیر اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اٹھائو ورنہ قیامت تک نسل نصاریٰ میں سے ایک بھی نہ بچے گا آخر ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کیا تب آنحضرت نے فرمایا:

واللہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو خدا ان کو بندر اور سور کی صورت میں مسخ کرتا اور یہ میدان آگ بن جاتی اور نجران کا ایک فرد حتی کہ جڑیا تک نہ بچتیں، یہ حضرت علی کی اعلیٰ فضیلت اور حضرت زہر ا سلام اللہ علیہا کی شان میں کافی ہے۔(۱)

اگرچہ انھوں نے تفسیر بیضاوی جلد اول سے اس بات کو نقل کرکے ان کا نظریہ حضرت علی کی فضیلت کے بارے میں ذکر کیا ہے لیکن آیہ شریفہ پورے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت بیان کرتی ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت بیان کرنے میں آیہ شریفہ کافی ہے۔

مرحوم علامہ سید عبد الحسین شرف الدین نے لکھا ہے کہ پورے اہل قبلہ حتی

____________________

(۱) تفسیر فرمان علی نجفی ص ۷۸.

۳۵

خوارج اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت پیغمبراکرم نے مباہلہ کے وقت خواتین میں سے صرف جناب سیدہ احباب میں سے صرف آپ کے دو نوںنواسے حسن وحسین علیہما السلام جانوں میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام کو لے کر میدان میں گئے تھے کوئی اور شخص اس مباہلہ میں شریک نہ تھا۔(۱)

تیسری آیت:

آپ کی فضیلت بیان کرنے والی آیت میں سے آیت مودة ہے ارشاد ہوتا ہے :

( قُلْ لا أسألُکُم علیهِ أجراً إِلاّ المَوَدَّةَ فیِ القُربی ) (۲)

(اے رسول ) تم کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ) رسالت کا اپنی قرابت داروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ۔

اس آیت شریفہ کی تفسیر کے بارے میں جناب فرمان علی نجفی اعلی اللہ مقامہ نے فرمایا:انصار اپنے ایک بڑے جلسہ میں اپنا فخر ومباہات کررہے تھے کہ ہم نے یہ کیا اور وہ کیا، جب ان کی باتیں ناز کی حد سے بھی گزری توابن عباس سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول پڑے کہ تم لوگوں کو فضیلت صحیح، مگر ہم لوگوں پر ترجیح نہیں ہوسکتی،

____________________

(۱) صحیح مسلم ج۷ مسند احمد، سنن ترمذی ۴.

(۲)سورہ شوریٰ آیت ۲۳.

۳۶

اس مناظرہ کی خبر حضرت رسول اکرم کو پہنچی تو آپ خود ان کے مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا:

اے گروہ انصار کیا تم ذلیل نہ تھے کہ خدا وند نے ہماری بدولت تمہیں معزز کیا سب نے عرض کیا بے شک پھر فرمایا کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے تو خدا نے میری وجہ سے تمہاری ہدایت کی عرض کیا یقینا پھر فرمایا تو کیا تم لوگ میرے مقابل میں جواب نہیں دیتے وہ بولتے گیا آپ نے فرمایا:

کیا تم یہ نہیں کہتے ہو کہ تمہاری قوم نے جھٹلایا تو ہم نے تصدیق کی تمہاری قوم نے تم کو ذلیل کیا تو ہم نے مدد کی اس قسم کی باتیں فرماتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے زانوں کے بل بیٹھے اور عاجز ی کے ساتھ عرض کرنے لگے ہمارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا اور رسول کا ہے یہی باتیں ہور ہی تھی اتنے میں یہ آیت سریفہ نازل ہو ئی اس کے بعد آپ نے فرمایا:

جو شخص آل محمد کی دوستی پر مر جا ئے وہ شہید مرتا ہے جو آل محمد کی دو ستی پر مرے وہ مغفورہے جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ توبہ کرکے مرا جوآل محمد کی دوستی پر مرے وہ کا مل الا یمان مرا جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کو ملک الموت اور منکر و نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ بہشت میں اس طرح بھیجا جا ئے گا جیسے دلہن اپنے شو ہر کے گھر جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ سنت اور جماعت کے طریقہ پر مرا جو آل محمد کی دشمنی پر مرا قیا مت میں اس کی پیشا نی پر لکھا ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ کافر ہے جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ بہشت کی بو بھی نہیں سونگھے گا۔

۳۷

اس وقت کسی نے پوچھا یارسول اللہ جن کی محبت کو خدا نے واجب کیا ہے وہ کو ن ؟ ہیں فرمایا علی وفاطمہ اور ان کے بیٹے حسن اور حسین پھر فرمایا جو شخص میرے اہل بیت پر ظلم کر ے اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دے اس پر بہشت حرام ہے اسی مطلب کو علامہ زمخشری نے اور صحیح بخاری احمد حنبل نے مسند احمد میںاور صا حب در منثور نے در منثور میں بھی نقل کیا ہے (ا)

چوتھی آیت:

( فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِماتٍ فَتابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحیم ) (۲)

پھر آدم نے اپنے پرور گادر سے ( معذرت کے ) چند الفاظ سیکھے پس خدا نے ( ان الفاظ کی برکت سے ) آدم کی تو بہ قبول کر لی بے شک وہ بڑا معاف کر نے والا مہربان ہے ۔

____________________

(ا)تفسیر فرمان علی نجفی ،صحیح بخاری ،در منثور ،مسند احمد.

(۲)سور ةبقرہ آیت ۳۷.

۳۸

اس آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں اہل سنت میں سے جناب ابن مغازلی نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

سُئِلَ النبی صلی الله وآله وسلم عَنِ الکلمات التی تلقی آدم من ربه فتاب علیه قال سَئَلَهُ بحق محمّد وعلی وفاطمة والحسن والحسین الا تبت علیّ فتاب علیه (۱)

پیغمبر اکرم سے پو چھا گیا کہ وہ کلمات کہ جن کی برکت سے خدا نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی ہے وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ پنجتن پاک ہیں یعنی محمد، علی ، فاطمہ ، وحسن ،حسین کہ حضرت آدم نے ان کی برکت سے توبہ کی تو خدا نے ان کی تو بہ کو قبول فرمایا ۔

پانچویں آیت:

( انَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُم تطهیراً ) (۲)

( اے پیغمبر کے ) اہل البیت خدا بس یہ چا ہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جیسا پاک وپاکیزہ رہنے کا حق ہے وسیا پاک وپاکیزہ رکھے ۔

____________________

(۱) در منثور ، ینا بیع المودة، منا قب ابن مفازلی (۲)سورہ احزاب آیت ۳۳.

۳۹

شا ن نزول:

اہل سنت نے روایات متواترہ کے ساتھ اس آیۂ شریفہ کی شان نزول کے بارے میں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ یہ آیہ شریفہ جناب ام سلمہ کے گھر نازل ہوئی ہے جس وقت جناب ام سلمہ کے گھر میں حضرت پیغمبر اکرم اور حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام اور حسن وحسین علیہما السلام کے سا تھ باقی خاندان بھی تشریف فرما تھے لیکن جب پیغمبر اکرم نے اپنی عبا کو گھر کے کسی گو شے میں بچھا یا اور پنجتن پاک کو باقی خاندان سے الگ کر کے فرمایا خدا یا:

'' یہ میرے اہل بیت ہیں ان پر درودو سلام ہو ''

پھر آیہ شریفہ نازل ہوئی لیکن جب حضرت ام سلمہ عبا کے قریب آنے کی خواہش کی تو پیغمبر اکرم نے ان کو منع فرما یا اور کہا اے ام سلمہ تو ایک بہترین خاتون ہو لیکن زیر عبا آنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس مطلب کو جناب احمد ابن حنبل نے مسند میں صحیح ترمذی اور خصائص النسائی نے ذکر فرمایا ہے اور آیة تطہیر نازل ہو نے کے بعد چھ ما ہ تک ہر روز جناب پیغمبر اکرم صبح کی نما ز کے وقت در حضرت زہرا پر تشریف لے جا تے تھے اور فرماتے تھے:

۴۰