۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33052
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33052 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

تیسراحصہ

ڈاکٹرسید محمد تیجانی کے مناظرے

اشارہ:

ڈاکٹر محمد تیجانی سیماوی ”تیونس“کے رہنے والے ہیں وہ اپنے شہریوں اور خاندان والوں کے دین کے مطابق اہل سنت میں مالکی مسلک کے پیروکارتھے، علمی منازل طے کرنے کے بعد پڑھےلکھے مفکروں میں ان کا شمار ہونے لگا ڈاکٹر محمد تیجانی نے اسلامی مذاہب میں مذہب حقہ کی تحقیق میں بڑے ہی ہوش وحواس کے ساتھ انتھک کوشش کی اس سلسلہ میں انھوں نے متعدد سفر بھی کئے جیسے نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی اور شہید باقر الصدر اعلی اللہ مقامہم کے پاس پہنچے اور نہایت ہی عمیق تحقیق کے بعد مذہب تشیع کو قبول کیا اوراپنے شیعہ ہونے کا قانونی طور پر اعلان کر دیا اور اپنے اس تحقیق کو اپنی قیمتی کتاب ”ثم اھتدیت “میں بیان کیا ہے۔( ۴۹ )

۶۴۔ توسل کے بارے میں ڈاکٹر تیجانی سے آیت اللہ شہید صدر کا مناظرہ

ڈاکٹر تیجانی پہلے مالکی مذہب کے پیروکار تھے انھوں نے تیونس سے نجف اشرف کا سفر کر کے اپنے دوست کے ذریعہ آیت العظمیٰ سید شہید صدر( ۵۰ ) کی خدمت میں پہنچے انھوں نے وہاں پہنچ کر تحقیق اور مناظرہ شروع کیا۔

ڈاکٹرتیجانی نے پہلے اس طرح سوال شروع کئے:

سعودی علماء کہتے ہیں:

”قبر پر ہاتھ رکھنا (چومنا)صالحین کو وسیلہ قرار دینا ان سے متبر ک ہونا شرک ہے، اس بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟“۔

آیت اللہ صدر نے فرمایا: ”اگر کوئی انسان اس عقیدہ سے قبر چومے یا انھیں وسیلہ قرار دے کہ وہ (بغیر اذن خدا کے )مستقل طور پر ہمیں ضرر و نفع پہنچا سکتے ہیں تو یہ شرک ہے، لیکن مسلمان خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے والا جانتا ہے کہ صرف اور صرف خدا ہی وہ ہے جو ضررونفع پہنچا سکتا ہے اور یہ اولیائے خدا اور اس کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں انھیں اس طرح واسطہ و وسیلہ قرار دینا ہرگز شرک نہیں ہے تمام سنی اور شیعہ مسلمان رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسی نظریہ پر متفق ہیں۔

یہ صرف وہابیت اور سعودی علماء ہیں جو اسی صدی میں پیدا ہوئے ہیں انھوں نے ہم مسلمانوںکے خلاف ایک ڈھونگ رچ رکھا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے خون کو مباح بھی جانتے ہیں اور ان کے درمیان فتنہ انگیزی کرتے ہیں یہ لوگ قبر کو چومنا اور ائمہ اعلیہم لسلام کو وسیلہ قرار دینا شرک سمجھتے ہیں۔

اس کے بعد شہید نے فرمایا:سید شرف الدین (شیعوں کے ایک عظیم محقق )صاحب کتاب ”المراجعات “”عید غدیر“کے موقع پر خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ تشریف لے گئے۔وہاں دستور کے مطابق عبد العزیز( ۵۱ ) کو مبارک باد پیش کرنے کے لئے عید قربان کے روز تمام سعودی علماء ۱۱۵۳ ء ھ میں اس نے خود ساختہ وہابی عقائد کا اعلان کر دیا کچھ لوگوں نے ا س کی پیروی کی اور ۱۱۶۰ ھ میں یہ نجد کے ایک دوسرے مشہور و معروف شہر ”درعیہ“چلا گیا جہاں اس نے شہر کے حاکم ”محمد بن سعود “سے راہ رسم پیدا کی اور پھر ان دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مل جل کر اس نئے عقیدہ کی ترویج کریں گے (آئین وہابیت ،ص ۲۶،۲۷) لہٰذا جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ منحرف مذہب ۱۲ صدی ہجری میں پیدا ہوا اور آل سعود کے ہاتھوں پھلتا پھولتا رہا ۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب ۱۲۰۶ ہجری میں مر گیا مگر اس کے بعد بھی اس کے ماننے والوں نے اس کے مذہب کو قائم رکھا البتہ اس

کے ساتھ ساتھ ان کی بھی دعوت ہوئی تمام علماء کے ساتھ ساتھ وہ بھی محل میں داخل ہوئے ،لوگ مبارک باد دیتے رہے لیکن جب آپ کی باری آئی توآپ نے پہنچ کر عبد العزیز کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے ہدیہ کے طور پر ایک بہت ہی پرانا قرآن دیا، اس نے قرآن لے کر اس کا بوسہ دیا اور مارے احترام وتعظیم کے اسے اپنی پیشانی سے مس کیا، سید شرف الدین نے فرصت غنیمت جان کر اچانک اس سے کہا: ”اے بادشاہ! اس جلد کو بوسہ کیوں لے رہے ہو ؟یہ تو بکری کی کھال سے بنائی گئی ہے“۔اس نے کہا: ”میں کھال کا نہیں بلکہ جو قرآن اس کے اندر ہے اس کا بوسہ لے رہا ہوں۔

جناب شرف الدین نے فوراً فرمایا:

”بہت اچھا بادشاہ ہم شیعہ بھی جب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے روضہ کے دروازہ اور کھڑکی کا بوسہ لیتے ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ صرف لوہا ہے یہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ہماری غرض کھڑکی اور دروازہ سے نہیں بلکہ اسے ماوراء چیز یعنی ہماری غرض رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کا احترام اور تعظیم ہوتی ہے یہ تعظیم و تکریم بالکل اسی طرح ہے جس طرح تم بکری کی کھال چوم کر قرآن کی تعظیم و تکریم کر رہے ہو۔

یہ سن کر تمام حاضرین نے تکبیر کہی اور ان کی تصدیق کی اس کے بعد ملک عبد العزیز نے مجبور ہو کر حاجیوں کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے روضہ کو بوسہ دینے کی اجازت دے دی۔لیکن اس کے بعد جو بادشاہ آیا اس نے اس گزشتہ قانون کی کوئی رعایت نہیں کی۔

یہ سب دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں شرک نہیں ہیں بلکہ وہابیوں نے لوگوں

کے تمام عقائد ۶۶۱ ھ کی منحرف شخصیت ”احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ “کے مرہون منت ہیں اگر یہ کہا جائے کہ تقریبا ً چھ سو سال کے عرصہ تک مردہ پڑے ابن تیمیہ کے منحرف عقائد اور مختلف بدعتوں کو عبد الوہاب نے نئے سرے سے اجاگر کیا اور لوگوں کے درمیان پھر سے زندہ کیا تو قطعا غلط نہ ہوگا۔کیونکہ تحقیق کرنے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج کی وہابیت ابن تیمیہ کے خود ساختہ عقائد و نظریات کی بنیادوں پر استوار ہے۔ (ابن تیمیہ صائب عبد الحمید ) ۱۲۲۶ ھ میں وہابی شاہ سعود نے بیس ہراز سپاہیوں کے ساتھ کربلاپر حملہ کیا اور پانچ ہزار یا اس سے زیادہ افراد کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ (تاریخ کربلا ،ص ۱۷۲)

کے درمیان اس لئے یہ پروپیگنڈہ پھیلایا ہے تاکہ وہ اس سیاست کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون مباح قرار دیں اور مسلمانوں پر اپنی حکومت باقی رکھیں۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ وہابیوں نے امت محمد پر مصائب کے کتنے پہاڑ توڑے ہیں( ۵۲ ) ۔

۶۵۔ اذان میں حضرت علی علیہ السلام کا نام کی گواہی

ڈاکٹر تیجانی: ”شیعہ حضرات اذان واقامت میں اس بات کی گواہی کیوں دیتے ہیں کہ علی علیہ السلام خدا کے ولی ہیں؟“

آیت اللہ باقر الصدر: ”کیونکہ حضرت علی علیہ السلام خدا کے بندوں میں ایک منتخب بندہ ہیں اور خدا وند متعال نے انھیں لوگوں پر فضیلت و برتری عطا کی ہے تاکہ انبیاء کے بعد رسالت کے بار سنگین کو وہ اپنے دوش مبارک پر اٹھا سکیں ، اور تمام ائمہ علیہم السلام پیغمبروں کے اوصیاء اور جانشین ہوتے ہیں اور جس طرح ہر پیغمبر کے پاس اس کا ایک جانشین ہوتا تھا اسی طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله وسلم کے جانشین مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ہم لوگ انھیں تمام اصحاب پر مقدم قرار دیتے ہیں کیونکہ خداوند متعال اور اس کے رسول نے انھیں تمام لوگوں سے افضل و برتر جاناہے اور ان کی فضیلت و برتری کے لئے ہمارے پاس قرآن اور احادیث سے عقلی اور نقلی دونوں دلیلیں موجود ہیں اور ان دلیلوں میں کسی طرح کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ دلیلیں صرف ہمارے لحاظ سے متواتر نہیں ہیں بلکہ اہل سنت حضرات کی کتابوں میں بھی تواتر کی حیثیت رکھتی ہیں۔( ۵۳ )

اس سلسلے میں ہمارے علماء نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں کیونکہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانہ میں مولائے کائنات کی خلافت کو نابود کرنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے پر سارے حکمراں تلے ہوئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ مسلمان منبر سے آپ پر لعن وطعن کرتے تھے اور معاویہ ان مسلمانوں کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس کے لئے ترغیب کرتا تھا۔

اسی لئے شیعہ اور علی علیہ السلام کے تمام پیرو کار اذان و اقامت میں گواہی دیتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ولی خدا ہیں اور یہ چیز مناسب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان ولی خدا پر لعنت بھیجے۔در اصل شیعوں کی یہ روش اس زمانے کے حکام سے ایک طرح کا اعلان جنگ تھا تاکہ خدا اس کے رسول اور مومنوں کی عزت کو قائم و دائم رکھے اور یہ تاریخی حوصلہ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں میں باقی رہے اور حضرت علی علیہ السلام کی حقانیت اور ان کے دشمنوں کی سازشوں سے پوری طرح آگاہ رہیں۔اسی وجہ سے ہمارے فقہاء نے اس روش کو باقی رکھا کہ ولایت علی علیہ السلام کی گواہی اذان واقامت کے دوران مستحب جانا نہ کہ اسے اذان و اقامت کا جزء قرار دیا ہے۔

اب اس وجہ سے اگر کوئی شخص ولایت علی علیہ السلام کی گواہی اذان اور اقامت کا جزء (واجب)سمجھ کر دے تو اس کی اذان واقامت باطل ہے۔( ۵۴ )

۶۶۔آیت اللہ العظمیٰ آقائی خوئی طاب ثراہ سے گفتگو

ڈاکٹر تیجانی سماوی کہتے ہیں:

جب میں سنی تھا اور نیا نیا نجف اشرف میں وارد ہوا تو اپنے دوست کے ذریعہ آیت اللہ العظمیٰ آقائے خوئی کی خدمت میں جانے کا شرف حاصل ہوا میرے دوست نے آقائے خوئی کے کانوںمیں کچھ کہا اور مجھ سے اشارہ کیا کہ آپ کے قریب آکر بیٹھ جاوں،میں جا کربیٹھ گیا تو میرے دوست نے اس بات پر بہت اصرار کیا کہ میں تیونس کے شیعوں کے متعلق اپنا اور وہاں کے لوگوں کا نظریہ بیان کروں۔میں نے کہا:

”شیعہ ہمارے یہاں یہود ونصاریٰ سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہود ونصاریٰ خداوند متعال کی عبادت کرتے ہیں اور موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن جو میں شیعوں کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی پرستش کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور انھیں پاک وپاکیزہ اور مقدس قرار دیتے ہیں۔ان کے درمیان ایک اور گروہ بھی ہے جو خداوند متعال کی عبادت کرتا ہے لیکن علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی منزلت ومقام سے بہت ہی ارفع واعلیٰ سمجھتا ہے اور یہاں تک کہتا ہے کہ پہلے یہ طے تھا کہ جبرئیل علیہ السلام قرآن کریم کو حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے آئیں لیکن انھوں نے خیانت کی اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس لے کر چلے گئے “!!

آقائے خوئی نے تھوڑی دیر اپناسر جھکائے رکھا اس کے بعد فرمایا:

”میں گواہی دیتا ہوں کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیه و آله وسلم اس کے رسول ہیں: ”اللھم صل علی محمد آل محمد “ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف نظر کی اور میری طر ف اشارہ کر کے کہا: ”اس بے چارے کو دیکھو کس طرح فریب اور چھوٹی تہمتوں کا شکار ہوا ہے یہ عجیب بات نہیں ہے بلکہ میں نے تو اس سے بھی بدتر باتیں دوسرے لوگوں سے سنی ہیں ”لا حول ولا قوة الا بالله “اس کے بعد میری طرف رخ کر کے فرمایا:

”کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ؟“

میں نے کہا: ”ابھی میری عمر کے دس سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ میں نے آدھا قرآن حفظ کر لیا تھا“۔

انھوں نے فرمایا: ”کیا تم یہ جانتے ہو کہ اسلام کے تمام گروہ آپس میں مذہبی اختلاف کو چھوڑ کر قرآن کی حقانیت کے بارے میں اتفاق رکھتے ہیں؟اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہی قر آن تمہارے پاس بھی ہے“۔

میں نے کہا: ”ہاں میں جانتا ہوں“۔

انھوں نے کہا-: ”کیا تم نے اس آیت کو پڑھا ہے“۔

( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ )( ۵۵ )

”اور محمد (ص) تو صرف ایک رسول ہیں، جن سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہیں“۔

اور خدا وند عالم فرماتا ہے:

( مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّار )( ۵۶ )

” محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین ہیں“۔

پھر یہ بھی ملتا ہے۔

( مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ )( ۵۷ )

” محمد (ص) تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں“۔

کیا تم نے ان آیتوں کا مطالعہ کیا ہے ؟

میں نے کہا: ”ہاں میں ان آیتوں سے واقف ہوں“۔

انھوں نے فرمایا: ”ان آیتوں میں حضرت علی علیہ السلام کہاں ہیں ؟تم دیکھتے ہو کہ یہ باتیں رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے لئے ہیں نہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے لئے اور ہم اور تم دونوں گروہ کے لوگ قرآن کومانتے ہیں۔تم کس طرح ہم لوگوں پر تہمت لگاتے ہو کہ ہم پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کو افضل وبرتر سمجھتے ہیں؟“۔

یہ سن کر میں نے سکوت اختیار کیا اور کوئی جواب نہیں دیا

اس کے بعد انھوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”جبرئیل کی خیانت کے بارے میں تم لوگ جو تہمت لگاتے ہوئے کہ ہم شیعہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی ہے یہ تہمت پہلے والی تہمت سے بھی زیادہ سخت ہے۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام پیغمبر اسلام پر (آغاز بعثت میں) نازل ہوئے تو علی علیہ السلام دس سال سے بھی کم عمر تھے تو کس طرح جناب جبرئیل نے غلطی کی اور محمد (ص)،اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان فرق نہ کو سمجھ پائے ؟“

تھوڑی دیر خاموش رہ کر میں نے ان کی باتوں پر غور کیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ تمام باتیں سچ ہیں۔

انھوں نے فرمایا: ”ضمناً یہ بھی کہہ دوں کہ اسلام کے تمام گروہوں میں صرف شیعوں کا الگ گروہ ہے جو پیغمبر(ص) اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی عصمت کا معتقد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارا ہی عقیدہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام ہر طرح کی غلطی اور شبہ سے محفوظ ہیں“۔

میں نے کہا: ”یہ سب جو مشہور ہے وہ کیا ہے ؟“

انھوں نے فرمایا: ”یہ سب تہمت اور غلط افواہیں ہیں جو مسلمانوں کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے گڑھ لی گئی ہیں ،تم تو الحمد للہ ایک عاقل انسان ہو اور ان مسائل کو اچھی طرح سے سمجھتے ہو، اب تمہیں چاہئے کہ شیعوں اور ان کے علمی اداروںکو قریب سے دیکھو اور غور و فکر کرو کہ کیا اس طرح کی چیزیں ان کے درمیان پائی جاتی ہیں“۔

میں جب تک نجف اشرف میں رہا شیعوں کے سلسلہ میں جتنی بھی نامناسب سن رکھی تھیں ان سب کے بارے میں تحقیق کرتا رہا۔

۶۷۔نماز ظہرین اور مغربین کو ایک ساتھ پڑھنا

اشارہ:

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اہل سنت حضرات نما ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک ہی وقت میں انجام دینا باطل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر نماز کو جداگانہ اس کے وقت میں پڑھنا چاہئے اور جس طرح نماز ظہر وعصر کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا اسی طرح مغرب وعشاء کے درمیان بھی فاصلہ رکھنا چاہئے۔

ڈاکٹر تیجانی سماوی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھا تو اس بنیاد پر نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک وقت میں انجام دینا باطل سمجھتا تھا لیکن جب میں نجف اشرف میں وارد ہوا اوراپنے دوست کی رہنمائی میں حضرت آیت اللہ صدر کی خدمت میں پہنچا تو ظہر کا وقت ہو گیا جب آپ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ساتھ ساتھ میں اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تمام افراد مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر نماز میں مشغول ہوگئے۔

میں نے دیکھا کہ آیت اللہ باقر الصدر نے نماز ظہر کے چند منٹ بعد نماز عصر بھی بھی پڑھ لی اور میں اس وقت ایسی میں حالت اور ایسی جگہ پر تھا کہ صف سے باہر نہیں نکل سکتا تھا ، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے نماز ظہر وعصر ایک ہی قت میں پڑھی لہٰذا میں بڑے شش وپنج میں مبتلا تھا کہ آیا میری نماز عصر صحیح ہے یا نہیں؟

اس دن میں شہید صدر کا مہمان تھا مجھے جیسے ہی موقع ہاتھ آیا میں نے ان سے پوچھ لیا:

”کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمان دو نمازوں کو بغیرضرورت کے وقت ایک ساتھ انجام دیں ؟“

شہید صدر: ”ہاں دو فریضوں کو یکے بعد دیگرے انجام دینا جائز ہے خواہ ضرورت کے وقت ہویانہ“۔

میں نے پوچھا: ”اس فتوے پر آپ کی دلیل کیا ہے ؟“

شہید صدر: ”چونکہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلمنے مدینہ میں بغیر کسی ضرورت کے خواہ وہ سفر ہویا خوف یا بارش ہو رہی ہو نماز ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء کو یکے بعد دیگرے انجام دی ہے اور آپ کا یہ عمل اس لئے تھا تاکہ ہم سے مشقت کم ہو جائے اور اسی طرح یہ عمل ہمارے عقیدہ کے مطابق ہمارے ائمہ علیہم السلام سے بھی ثابت ہے۔

اور ہم لوگوں کی طرح تم اہل سنت حضرات کے نزدیک بھی روایت سے یہ چیز ثابت ہے، مجھے تعجب ہواکہ کس طرح ہمارے نزدیک ثابت ہے کیونکہ آج تک نہ میں نے کہیں سنا تھا اور نہ کسی اہل سنت کو دیکھا تھا کہ کسی نے اس طرح انجام دیا ہو بلکہ وہ لوگ اس کے بر خلاف کہتے ہیں کہ اگر نماز اذان سے ایک منٹ بھی پہلے واقع ہو جائے تو نماز باطل ہے چہ جائیکہ کوئی شخص نماز عصر کو ایک گھنٹہ پہلے نماز ظہرکے فوراً بعد یا نماز عشاء کو نما مغرب کے بعد فوراً پڑھے ان چیزوں سے ابھی تک میں بالکل ناآشنا تھا اور میرے نزدیک یہ چیزیں باطل بھی تھیں۔

آیت اللہ صدر نے میرے چہرہ سے معلوم کرلیا کہ میں اس بات پر تعجب کر رہاہوں کہ ظہر کے بعد عصر اور مغرب کے بعد عشاء بغیر کسی فاصلہ کے کیسے پڑھنا صحیح ہے؟اسی وقت انھوں نے اپنے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک کتاب کی دو جلدیں میرے پاس لاکر رکھ دیں میں نے دیکھا اس میں ایک صحیح مسلم ہے اور دوسری صحیح بخاری تھی۔

آیت اللہ صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ مجھے وہ حدیث دکھادےں جس میں دونوں فریضوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے میں نے ان دونوں کتابوں میںپڑھا کہ رسول اکرم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء خوف بارش اور بغیر کسی ضرورت کے ایک ساتھ پڑھاہے اور کتاب صحیح مسلم میں مجھے اس سلسلہ میں پورا ایک باب ملا۔یہ دیکھ کر میں کافی حیران و پریشان ہو ا اور سوچ رہا تھا کہ خدایا اس وقت میں کیا کروں اسی وقت میرے دل میں ایک شک پیدا ہوا کہ شاید یہ دوکتابیں (صحیح مسلم اور صحیح بخاری )جو میں نے یہاں دیکھی ہیں تحریف شدہ ہوں یا نقلی ہوں اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ جب میں اپنے وطن تیونس واپس جاوں گا تو ان دونوں کتابوں کا بغور مطالعہ کر کے اس موضوع پر تفصیلی طور پر تحقیق کروں گا۔

اسی وقت شہید صدر نے مجھ سے پوچھا: ”اب ان دلیلوں کے بعد تمہاری کیا رائے ہے؟“

میں نے کہا: ”آپ حق پر ہیں اور حق کہنے والے ہیں“۔

اس کے بعد میں نے آیت اللہ کا شکریہ اداکیا لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہو اتھا یہاں تک کہ جب میں اپنے وطن واپس پہنچا تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کو لے کر پڑھا اور تفصیلی طور پر تحقیق کی تو اچھی طرح قانع ہو گیا کہ نماز ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء ملاکر پڑھنا بغیر کسی ضرورت کے اشکال نہیں ہے کیونکہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلمنے اس کام کو انجام دیا ہے۔میں نے دیکھا کہ امام مسلم اپنی کتاب”سفر“کے علاوہ ”دونمازوں کے اجتماع“( ۵۸ ) کے باب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی تھی۔اسی طرح انھوں نے یہ بھی نقل کیاہے کہ آنحضرت نے مدینہ میں نماز ظہر عصر اور مغرب وعشاء کو بغیر خوف یا بارش کے ایک ساتھ پڑھی ہے۔ابن عباس سے سوال کیا گیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیوں ایسا کیا تو ابن عباس نے جواب میں کہا:

کی لایحرج امته( ۵۹ )

تاکہ امت کو دشواری نہ ہو“۔

اور کتاب صحیح بخاری میں بھی(ج ۱ ص ۱۴۰) باب ”وقت مغرب“میں میں نے دیکھا اور پڑھا کہ ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات رکعت نماز(نماز مغرب وعشاء)ایک ساتھ پڑھی اور آٹھ رکعت( ظہر وعصر)نما ز ایک ساتھ پڑھی اور اسی طرح کتاب ”مسند احمد“( ۶۰ ) میں دیکھا کہ اس موضوع پر روایت ہے اسی طرح کتاب”الموطا“( ۶۱ ) میں میںنے دیکھا کہ ابن عباس روایت کرتے ہیں:

صلی رسول الله الظهر والعصر جمیعا والمغرب والعشاء جمیعا فی غیر خوف ولاسفر

”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے بغیر کسی خوف وسفر کے نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی“۔

نتیجہ یہ ہے کہ جب یہ مسئلہ اس طرح واضح اور روشن ہے تو اہل سنت کیوں تعصب اور بغض کی وجہ سے اسی موضوع کو لے کرشیعہ پر بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں؟

اس چیز سے غافل کہ خود ان کی کتاب میں اس چیز کا جواز ثابت ہے۔( ۶۲ )

۶۸۔اہل سنت کے امام جماعت سے (ایک ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق) بہترین مناظرہ

ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:

”میں نے دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا واقعہ اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے روایت کے مطابق تیونس میں اپنے بعض دوستوں اور بعض علماء کے درمیان بیان کردیا، چند لوگوں نے اس چیز کے صحیح ہونے کے سلسلہ میں معلومات حاصل کر لی اور اس بات کی خبر جب شہر ”قفصہ“(تیونس کا ایک شہر)کی ایک مسجد کے امام جماعت کے کانوں تک پہنچی تو وہ سخت ناراض ہو ا اور اس نے کہا جو اس طرح کی فکر رکھتے ہیں وہ نہایت بے دین ہیں اور قرآن کے مخالف ہیں کیونکہ قرآن فرما تا ہے:

( الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا ً )( ۶۳ )

”بلا شبہ مومنوں پر معین وقت پر نماز فرض کی گئی ہے“۔

ہدایت پانے والوں میں سے میرا یک دوست بھی تھا جس کا علمی معیاربہت ہی بلند و بالا تھا اور وہ بہت ہی ذہین وچالاک بھی تھا۔اس نے بہت ہی غصہ کی حالت میں میرے پاس آکر امام جماعت کے قول کو نقل کیا۔میں نے دو کتاب صحیح مسلم اور صحیح بخاری اسے لا کر دی اور اس سے کہا کہ نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھنے والے باب کا مطالعہ کرو۔مطالعہ کے بعد اس کے نزدیک بھی یہ مسئلہ ثابت ہو گیا۔یہاں تک کہ میرا یہ دوست جو ہر روز اسی امام جماعت کی نما ز میں شرکت کرتا تھا ایک دن نماز جماعت کے بعد اس کے در س میںجاکر بیٹھ گیا اور امام جماعت سے پوچھا: ”نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھنے کے بارے میں آپ کا خیال ہے ؟“

امام جماعت: ”یہ شیعوں کی ایک بدعت ہے“۔

میرے دوست نے کہا: ”ایسا نہیں ہے بلکہ یہ بات صحیح مسلم اور صحیح بخاری سے بھی ثابت ہے“۔

امام جماعت: ”نہیں ثابت نہیں ہے۔اس طرح کی چیز کا ہونا اس کتاب میں مشکل ہے“۔

میرے دوست نے وہ دونوں کتابیں اس کے حوالہ کر دیں اس نے وہی باب پڑھا۔جب اس کے درس میں شریک ہونے والے دوسرے نماز گزاروں نے اس سے دو نمازوں کوایک ساتھ پڑھنے کے متعلق پوچھا تو اس نے کتابیں بند کر کے مجھے دیتے ہوئے انھیں جواب دیا: ”دونمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا جواز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت میں سے ہیں جب تم رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم ہو جانا اس وقت تمہارے لئے بھی یہ جائز ہو جائے گا“!!

میرے دوست نے کہا: ”اس کی بات سے میری سمجھ میں آگیا کہ یہ ایک متعصب جاہل ہے اور اس دن میں نے قسم کھالی کہ آج سے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا“۔

یہاں ایک حکایت کا نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ، وہ یہ کہ دو شکاری شکا ر کرنے صحرا کی طرف روانہ ہوئے صحرا میں پہنچ کر دور سے انھوں نے کالے رنگ کی ایک چیز دیکھی تو ان میں سے ایک نے کہا: ”یہ کوا ہے“۔دوسرے نے کہا:نہیں یہ بکری لگ رہی ہے“۔

دونوں میں بحث ہونے لگی اور دونوں اپنی اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔جب دونوں اس کالی چیز کے قریب پہنچے تو اچانک دیکھا کہ کوا تھا جو اڑگیا۔

پہلے نے کہا: ”میں نے کہا تھا نہ کہ کواہے کیا اب تم مطمئن ہوگئے ؟

لیکن دوسرا اپنی بات پر اڑا ہو ا تھا یہ دیکھ کر دوسرے نے کہا:

”کتنے تعجب کی بات ہے ، بکری بھی اڑتی ہے ؟!!

ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:

”اس کے بعد میں نے اپنے دوست کو بلا کر اس سے کہا: ”اس امام جماعت کے پاس جاو اور اسے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں وہ روایت دکھاو جہاں یہ نقل ہوا ہے کہ ابن عباس و انس ابن مالک اور دوسرے بہت سے اصحاب نے نماز ظہر ین و مغربین کو ایک ساتھ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی اقتدا میں پڑھی ہے اس طرح کی نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے خصائص میں سے ہر گز نہیں ہے کیا ہم رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کو اپنا نمونہ عمل نہیں سمجھتے؟ مگر میرے دوست نے معذرت کرتے ہوئے کہا: ”کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے پاس اگر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم بھی آکر یہ حکم بتائیں تو بھی وہ قانع نہیں ہوگا۔( ۶۴ )

۶۹۔قاضی مدینہ کی بے بسی(آیہ تطہیر کی تحقیق)

ڈاکٹر محمدتیجانی کہتے ہیں:

جب میں مدینہ میں مسجد نبوی کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں دیکھا کہ ایک خطیب کچھ نمازیوں کے درمیان بیٹھ کر درس دہے رہا ہے میں نے اس کے در س میں شرکت کی وہ چند آیتوں کی تفسیر کر رہا تھا لوگوں کی باتوں سے یہ معلوم ہو گیا کہ یہ مدینہ کا قاضی ہے جب اس کا درس ختم ہوگیا تو وہ اٹھ کر جانے لگا ابھی مسجد سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ میں نے آگے جا کر اسے روکا اور اس سے کہا:

”مہربانی کر کے مجھے یہ بتائیں کہ اس آیت تطہیر میں اہل بیتعلیہ السلام سے مراد کون ہیں؟“

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )( ۶۵ )

”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔

قاضی نے بغیر کسی جھجھک کے جواب دیا:

”یہاں اہل بیت سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویاں ہیں کیونکہ اس سے پہلے والی تمام آیتوں میں ازواج نبی کو خطاب کیا گیا ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا:

( وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاٴُولَی ) ۔۔۔“( ۶۶ )

”۔۔۔ اور تم اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔۔۔“

میں نے کہا: شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت علی ، فاطمہ ، حسن وحسین علیہم السلام سے مخصوص ہے میں نے ان سے کہا کہ آیت کی ابتدا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی ازواج سے متعلق ہے یعنی آیت کے شروعات ہی اس جملے سے ہوتی ہے۔

”یا ایھا النبی “

تو ان لوگوں نے جواب میں کہا:

”جو بھی اس آیت کے شروع میں آیا ہے وہ خصوصی طور پر لفظ مونث اور صیغہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے جیسے ”لستن، فلا تخضعن، و قرن فی بیوتکن، لا تبرجن، اقمن، آتین، اطعن“ وغیرہ لیکن آیت کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس کا انداز بدل گیا ہے اور اس کی ضمیر میں جمع مذکر کے طور پر ذکر ہوئی ہیں جیسے ”عنکم“ ”لیطھرکم“ وغیرہ“۔

قاضی نے اپنی عینک اوپر اٹھا ئی اور مجھے کوئی استدلالی جواب دینے کے بجائے کہنے لگا:

”خبردار !شیعوں کی زہر آلود فکر جو آیت وقرآن کی تاویل نفسانی خواہشات کی بنا پر کرتے ہیں ان کے چکر میں نہ آنا“۔( ۶۷ )

یہاں پر ہم اس بحث کی تکمیل کے لئے ”تفسیر المیزان“سے استفادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سب کے علاوہ بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ آیت تطہیر جو سورہ احزاب کے آخر میں ذکر ہوئی ہے وہ اپنے سے پہلے والی آیات کے ساتھ نازل ہوئی ہے بلکہ روایتوں سے اچھی طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ آیت کا یہ حصہ الگ سے نازل ہوا ہے لہٰذا جب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد قرآن جمع کیا گیا تو اس آیت کوان آیات کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔( ۶۸ )

اس کے علاوہ اہل سنت حضرات سے متعددروایات اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں کہ مذکورہ آیت میں اہل بیت سے مراد علی وفاطمہ حسن وحسین علیہم السلام ہیں اور یہاں تک کہ ازواج پیغمبر اکرم جیسے ام سلمہ ،عائشہ وغیرہ سے بھی نقل ہوا ہے کہ آیت تطہیر میں اہل بیت سے مراد علی وفاطمہ حسن حسین علیہم السلام ہیں۔( ۶۹ )

۷۰۔آل محمد پر صلوات سے متعلق ایک مناظرہ

اشارہ:

اہل سنت حضرات جب حضرت علی علیہ السلام کا نام لیتے ہیں تو علیہ السلام کی جگہ ”کرم اللہ وجھہ “ کہتے ہیں۔جب کہ دیگر تمام صحابہ کو”رضی اللہ عنہ“کہتے ہیں کیونکہ خود وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے کوئی گناہ نہیں کیا (جس کی وجہ سے وہ انھیں رضی اللہ عنہ کہیں بلکہ ان کے لئے کرم اللہ وجھہ کہنا چاہئے کہ خداوندمتعال ان کے مرتبہ کو بلند قرار دے)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ وہ لوگ علیہ السلام کیوں نہیں کہتے ؟

اسی سوال کے جواب کے سلسلہ میں آنے والے مناظرہ کی طرف توجہ فرمائیں۔

ڈاکٹر تیجانی سماوی جو پہلے اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، قاہرہ سے عراق کے سفر میں کشتی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ان کو ایک عالم دین ”استاد منعم“ سے دوستی ہوگئی، جو یونیورسٹی کے استاد اور عراقی شیعہ عالم دین تھے، چنانچہ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہوئی ، اور اس کے بعد بھی عراق میں ان دونوں کے درمیان بہت سی گفتگو اور مناظرے ہوئے ہیں جن میں سے ایک مناظرہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، جو بغداد میں استاد منعم کے مکان پر ہوا تھا، ملاحظہ فرمائیں:

ڈاکٹر تیجانی: ”تم شیعہ حضرات ، علی علیہ السلام کے مقام کو اس حد تک بڑھا دیتے ہو کہ انھیں پیغمبروں کی صفت میں لا کر کھڑا کر دیتے ہو کیونکہ تم لوگ ان کے نام کے بعد کرم اللہ وجھہ کہنے کے بجائے علیہ السلام یا علیہ الصلوة والسلام کہتے ہو جب کہ صلوات وسلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخصوص ہے جیسا کہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں۔

( إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا )( ۷۰ )

” بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں ، اے صاحبان ایمان ان پر صلوات بھیجتے رہو اور ان کے سامنے تسلیم رہو“۔

استاد منعم: ”ہاں تم نے سچ کہا: ”ہم جب بھی حضرت علی علیہ السلام یا ان کے علاوہ دیگر ائمہ کے نام لیتے ہیں تو علیہ السلام کہتے ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم انھیں پیغمبر یا ان کے رتبہ کے برابر جانتے ہیں“۔

ڈاکٹر تیجانی: ”تو پھر کس دلیل سے ان پر سلام وصلوات بھیجتے ہو“۔

استاد منعم: ”اسی آیت کی دلیل سے کہا جاتا ہے ”( إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ) ۔۔۔“کیا تم نے اس کی تفسیر پڑھی ہے ؟شیعہ اور سنی دونوں متفقہ طور پر یہ نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو چند صحابیوں نے آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم سے پوچھا:

”یا رسول اللہ ! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم جانتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلو م کہ آپ پر صلوات کس طرح بھیجی جائے گی؟“

رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: اس طرح کہو:

اللهم صلی علی محمد وآل محمد کما صلیت علی ابراهیم وآل ابراهیم فی العالمین انک حمید مجید “۔( ۷۱ )

”خدایا محمد وآل محمد پر اسی طرح درود ورحمت نازل فرما جس طرح تونے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی ہے بلاشبہ تو قابل حمد اور بزرگ ہے“۔

اور یہ بھی فرمایا:

لا تصلوا علي الصلاةُ البتراء (مجھ پر دم بریدہ صلوات نہ بھیجو)“

اصحاب نے آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا توآپ نے فرمایا:

صرف ”اللھم صل علی محمد “ کہنا ناقص صلوات ہے بلکہ تمہیں اس طرح کہنا چاہئے: ”اللھم صل علی محمد وآل محمد“یہ پوری صلوات ہے۔( ۷۲ )

اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ پوری صلوات پڑھو اور آخر کے جملہ میں آل محمد حذف نہ کرو یہاں تک نماز کے تشہد میں تمام فقہاء نے اہل بیت علیہم السلام پر صلوات بھیجنے کو واجب قرار دیا ہے اور اہل سنت کے فقہاء میں امام شافعی نے واجبی نمازوں کے دوسرے تشہد میں اسے واجب جانا ہے۔( ۷۳ )

اسی بنیاد پر شافعی اپنے مشہورو معروف شعر میں ا س طرح کہتے ہیں:

یا اهل بیت رسول الله حبکم

فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم

من لم یصل علیکم لا صلوة له

”اے اہل بیت رسول ! تمہاری محبت اللہ کی طرف سے نازل کردہ قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے تمہاری عظیم منزلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ جس نے تم پر صلوات نہ بھیجی اس کی نماز ہی نہ ہوگی“۔( ۷۴ )

ٖٓڈاکٹر تیجانی یہ سب سن کر بہت متاثر ہوئے کیونکہ استاد منعم کی یہ باتیں ان کے دلنشین ہو رہی تھیں، انھوں نے کہا:

”میں قبول کرتاہوں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم پر صلوات بھیجتے وقت ان کی آل کو بھی شامل کرنا چاہئے ، چنانچہ جب ہم جب ان پر صلوات بھیجتے ہیں تو ان کے آل کے علاوہ اصحاب وازواج کو بھی شامل کرلیتے ہیں مگر یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ جب علی علیہ السلام کا ذکر ہوتو ان کے نام کے ساتھ صلوات بھیجی جائے یا ”علیہ السلام“ کہا جائے“۔( ۷۵ )

استاد منعم: ”کیا تمہارے نزدیک کتاب صحیح بخاری معتبر ہے ؟“

ڈاکٹر تیجانی: ”ہاں یہ کتاب تو اہل سنت کے اماموں میں سے ایک بلند پایہ کے امام ”امام بخاری“ کی تالیف کردہ ہے جو ہمارے نزدیک قرآن کے درجہ رکھتی ہے“۔

اس وقت استاد منعم نے اپنے کتاب خانہ سے صحیح بخاری کا ایک نسخہ لا کر مجھے پڑھنے کے لئے دیا میں نے جب ان کے نکالے ہوئے صفحہ کو پڑھا تو مجھے اس پر یہ عبارت نظر آئی:

”فلاں نے فلاں سے روایت کی اور اس نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے ”میں نےیہاں تک کہ اس بات کا اعتراف اہل سنت کے ان علماء نے بھی کہا ہے جبکہ وہ نئے اعتراض گڑھنے کے عادی ہیں ، مخصوصاً اس طرح کے اعتراضات میں مشہور سنی عالم دین ”ابن روزبہان“ جیسے لوگ بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ یہاں پر”آل یاسین“سے مراد آل محمد ہیں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسی سورہ صافات میں جناب نوح (آیت ۷۹) جناب ابراہیم (آیت ۱۰۹) جناب موسیٰ وہارون( ۱۲۰) اور دوسرے مرسلین پر سلام بھیجا گیا ہے(آیت ۱۸۱) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آل محمد انبیاء کے زمرہ میں آتے ہیں اور مذکورہ آیت آل محمد کی افضل ہونے کی واضح دلیل ہے (دلائل الصدق ،ج ۲ ،ص ۳۹۸ ۔)

جب بخاری میں یہ جملہ ”علیہ السلام“ دیکھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ صحیح بخاری کا نسخہ ہے میں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور اس کے بعد بڑے غور سے پڑھا تو بھی وہی عبارت نظر آئی اب میرا شک و شبہ جاتا رہا۔

استاد منعم نے صحیح بخاری کا دوسرا صفحہ کھول کر دکھایا جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ ”علی ابن الحسین علیہ السلام “سے روایت ہے۔اس کے بعد مجھے کوئی راستہ نظر نہ آیا اور میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا البتہ تعجب سے یہ میں نے ضرور کہا ”سبحان اللہ !لیکن تھوڑ ا شک اب بھی میرے ذہن میں موجود تھا لہٰذا میں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ نسخہ” مصر کی پریس ،حلبی اینڈسنس“ سے چھپاہے بہر حال قبول کر لینے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا۔( ۷۶ )

____________________

(۴۹) اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے فارسی میں ”آنگاہ۔۔۔ہدایت شدم)کے نام سے اس کا ترجمہ لوگوں نے بہت پسند کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کا آٹھواں ایڈیشن بھی چھپ گیا ،

(۵۰) حضرت آیت اللہ شہید سید محمد صدر رحمة اللہ علیہ ۱۳۵۳ ھ ق میں کاظمین میں متولد ہوئے اور جوانی ہی میں مجتہد مسلم ہو گئے آپ نے مختلف موضوعات مثلاً فقہ، اصول،منطق،فلسفہ،اور اقتصاد پر تقریبا ً ۲۴ کتابیں لکھی ہیں۔۲۰ سال اپنے قلم اور بازوں سے عراق کی بعثی حکومت سے مسلسل جہاد کرنے کے بعد آخر کار ۴۷ سال کی عمر میں اپنی مجتہدہ بہن ”بنت الہدیٰ“ کے ساتھ یزید صفت عراق کی بعثی پارٹی کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔

(۵۱) مسلک وہابیت ”شیخ محمد بن عبد الوہاب “کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ ۱۱۱۵ ء ھ میں نجد کے شہر ”عنیہ “میں پیدا ہوااس کا باپ اس شہر میں قاضی تھا۔

(۵۲) ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۹۲تا ۹۳۔

(۵۳) اتنی زیادہ نقل ہوئی ہے کہ جس سے انسان کو یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی حدیث ہے ۔

(۵۴) ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۸۸ تا ۸۹۔

(۵۵) سورہ آل عمران آیت ۱۴۴۔

(۵۶) سورہ فتح آیت ۲۹۔

(۵۷) سورہ احزاب آیت ۴۰۔

(۵۸) صحیح مسلم ،ج۲ ،ص ۱۵۱(باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)

(۵۹) صحیح مسلم ،ج۲ ،ص ۱۵۱(باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)

(۶۰) مسند امام احمد حنبل ،ج۱، ص۲۲۱۔

(۶۱) موطا االامام مالک (شرح الحوالک )ج،۱،ص۱۶۱۔

(۶۲) لاکون مع الصادقین ،ڈاکٹر تیجانی سماوی، مطبوعہ بیروت ،ص۲۱۰ سے ۲۱۴ تک سے خلاصہ کے ساتھ اقتباس ۔

(۶۳) سورہ نساء آیت ۱۰۳۔

(۶۴) لاکون مع الصادقین سے اقتباس ،ص۲۱۴و ۲۱۵۔

(۶۵) سورہ احزاب، آیت ۳۳۔

(۶۶) سورہ احزاب، آیت ۳۳۔

(۶۷) ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۱۱۴تا ۱۱۵۔

(۶۸) المیزان ،ج۱۶،ص۱۱۴۔

(۶۹) شواہد التنزیل ،ج۲ ،ص۱۱،اور ۲۵ کے بعد (اس بحث کا ماخذ”احقا ق الحق “کی ج۲ میں بھی آیا ہے ۔

(۷۰) سورہ احزاب آیت ۵۶۔

(۷۱) صحیح بخاری ،ج۶،ص۱۵۱۔صحیح مسلم ،ج۱ ص۳۰۵۔

(۷۲) الصواعق المحرقہ، ص۱۴۴۔

(۷۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۶ ،ص۱۴۴۔

(۷۴) المواہب زرقانی ،ج۷ ص۷۔تذکرہ علامہ ،ج۱،ص۱۲۶۔

(۷۵) مولف کا قول:قرآن میں سورہ ”صافات “کی ۱۳۰ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں ”سلام علی آل یاسین“(آل یاسین پر سلام ہو )ابن عباس سے منقول ہے کہ یہاں ”آل یاسین“ سے مراد آل محمد ہیں لہٰذا س بنا پر قرآنی اعتبار سے بھی آل محمد میں سے کسی کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“کہنا درست ہے ۔

(۷۶) آنگاہ ہدایت شدم، (پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۶۵ تا ۶۷۔